فیصلہ عوام کریں
وزیر اعظم عمران خان کی حکومت اور اقتدار کی سیاست کا تیسرا سال شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان میں حکومتوں کا دور بہت شدت کے ساتھ شروع ہوتا ہے لیکن عمران خان کا دور ایک نئے پاکستان کا دور تھا جو قدرے کم شدت کے ساتھ شروع ہوا۔
عوام ان کے الیکشنی وعدوں کے منتظر تھے اور ان کو رعایت دینے کے لیے تیار تھے کیونکہ جو وعدے انھوں نے کیے تھے ان کے وفا ہونے کے لیے وقت درکار تھا اس لیے ہر کوئی صبر کے ساتھ ان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ نئے پاکستان کی بنیاد کب اور کیسے رکھتے ہیں، اسی عوامی صبر کی بدولت انھوں نے حکومتی مدت کے پہلے دو سال چین کی بانسری بجا کراور سن کر گزار دیے۔
انھوں نے جو انداز حکومت اختیار کیا اس سے سمجھدار لوگوں کا ماتھا ٹھنکا کہ جلد یا بدیر ایسا دور آنے والا ہے جو بے نتیجہ ثابت نہیں ہوا کرتا چنانچہ اپوزیشن کے پہلے ہی حملے میں حکومت کے کانوں میں بانسری کی رس گھولتی آواز بدل گئی ہے اور یہ سریلی سے تلخ ہو گئی ہے جو کانوں کو بھلی محسوس نہیں ہوتی۔
اپوزیشن کے پہلے جلسے نے ہی رونق لگا دی ہے اور اپوزیشن قائدین نے حکومت کر نشانے پر رکھ لیا ہے لیکن میرا خیال ہے کہ وہ اب بھی اس صورتحال پر آسانی سے قابو پا سکتے ہیں، ابھی دودھ کا برتن نہیں الٹا، بیروں کی ٹوکری گرنے والا معاملہ ہے اور یہ بیر جو ادھر اُدھر گر رہے ہیں ان کو اکٹھا کیا جا سکتا ہے اور واپس ٹوکری میں ڈالا جا سکتا ہے لیکن وہ اگر اپنے دو سالہ اقتدار کے انداز اور اسلوب پر اڑے رہیں گے تو پھر یہ بیر کسی ایسے گٹر میں گریں گے جہاں سے ان کا چننا مشکل ہو گا۔
ان کے وزارء کے جو بیانات ٹیلیویژن کی اسکرینوں کی زینت بن رہے ہیں اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس حکومت کی سوچ بھی وہی ہے جو پہلے والی حکومتوں کی رہی ہے یعنی حالات کی تبدیلی پر برہمی اور غصہ حالات کا علاج نہیں بلکہ اپنے تمام دعوے، غرور اور ضدیں چھوڑ کر اپنی پالیسیوں اور حکمت عملیوں کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ یہ تو بہر حال سوچنا ہی پڑے گا کہ کہاں کوئی غلطیاں ہو رہی ہیں، آخر حالات سے تنگ آ کر عوام بھی اپوزیشن کے ساتھ شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
سوچنا دنیا کا مشکل ترین کام ہے اور حکومتوں کی سوچ بڑی محدود ہوتی ہے اس کی آنکھیں کسی اور کی آنکھوں سے دیکھتی ہیں اور اس کے کان کسی اور کے کانوں سے سنتے ہیں اور حکومتیں صرف وہی دیکھنا اور سننا چاہتی ہیں جو ان کی آنکھوں کو بھلا لگے اور ان کے کانوں میں رس گھولے۔ مجھے یقین ہے کہ حکومتی ایجنسیاں، انتظامیہ اور وزراء اور مشیران کی ریکارڈ تعداد اس وقت حکمرانوں کے سامنے حالات کا جو نقشہ پیش کر رہے ہوں گے، وہ بڑا آسان اور بے خطر ہو گا۔
ایسے جلسے جلوسوں کو پانی کے بلبلے کہا جا رہا ہو گا اور یہ یقین دلایا جا رہا ہو گا کہ لوگوں نے مان لیا ہے کہ یہ جلسے اپوزیشن نے احتساب سے بچائو کے لیے شروع کیے ہیں اور اس کے سوا ان کا کوئی مقصد نہیں ہے لیکن حکمرانوں کا اگر کوئی واقعی خیر خواہ ہے تو وہ ان لوگوں کو گلیوں بازاروں میں بھیجیں اور پھر ان سے پوچھیں کہ خلق خدا کیا کہہ رہی ہے اور کیوں کہہ رہی ہے۔ وہ عوام کو کسی میچ کے تماشائی سمجھ کر صرف تالیاں بجانے اور زندہ باد کے نعرے لگانے والے نہ سمجھیں ان کی بات کو غور سے سنیں اور ممکن ہو تو ان کو مطمئن کریں۔ اکیسیوں صدی کے باشعور انسان کو مطمئن کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
یہ بات درست ہے کہ دہائیوں کے بگاڑ کو دور کرنے میں وقت درکار ہوتا ہے لیکن اس بگاڑ کو دور کرنے کی کوئی کوشش تو نظر آنی چاہیے۔ ایسی کوئی کوشش حکومت کی جانب سے دکھائی سنائی نہیں دے رہی صرف احتساب کا واویلا ہے جو الیکشن سے پہلے بھی تھا اور حکومت میں آنے کے بعد بھی ہے۔ اس واویلے کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ ملک میں سیاسی انتشار میں اضافہ ہو رہا ہے جو ملک کی بقاء کے لیے خطرناک اور تباہ کن ہوتا ہے۔ نازک وقت تو ہمارے ملک پر ہمیشہ ہی رہتا ہے لیکن وقت کے ساتھ اس کی نزاکت میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ سیاسی محاذ پر یکجہتی ملک کی ضرورت ہے لیکن سیاسی سمجھ بوجھ والے حکمران نہیں ہیں اور نہ ہی ان کے ارد گرد کوئی ایسا باتدبیر مشیر ہے جو ان کو صحیح راستہ دکھا سکے۔
سیاسی صلاح کار اور جوڑ توڑ کے ماہر پاکستان کی سیاست کے بڑے نام اپنی اپنی اننگز کھیل گئے ہیں، کوئی ایسی شخصیت موجود نہیں جو سب کے لیے قابل قبول ہو اور سیاسی جماعتوں میں پل کا کردار ادا کر سکے۔ گوجرانوالہ میں متحدہ اپوزیشن نے بلاشبہ اپنی سیاسی طاقت کا بھر پور مظاہرہ کیا ہے اور پہلے ہی جلسے نے حکومتی صفوں میں ہل چل مچا دی ہے۔ وزراء کے بوکھلائے ہوئے بیانات اس کا کھلم کھلا اظہار ہیں۔
بڑی خواہش اور چائو ہے کہ منتخب حکومت اپنی معیاد پوری کرے اور نئے انتخابات میں اس کی کارکردگی کا عوام فیصلہ کریں۔ جلسے جلوسوں میں فیصلے نہ ہوں لیکن کیا ہمارے حکمران ہماری اس خواہش اور شوق کوپورا کریں گے۔