بدلتا موسم اور بدلتی دنیا
ہم لوگ جو سبزہ زاروں سے محروم چھوٹے گھروں میں رہتے ہیں، ان پر موسموں کی ہر کیفیت اطلاع دیے بغیر چپکے سے گزر جاتی ہے، اس کی کوئی رنگینی ہماری قسمت میں نہیں ہوتی اور ہر سختی ہماری تقدیر میں لکھی ہوتی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ان دنوں گزر رہا ہے کہ موسم بھی تبدیل ہو رہا ہے اور دنیا بھی تبدیل ہو رہی ہے، خود ساختہ قید میں ہیں۔
حکومت اور دوست ڈرا رہے ہیں کہ اگر گھر میں نہ بیٹھے تو خدا نخواستہ وائرس کا شکار ہو سکتے ہیں، جب بھی ٹیلی فون کی گھنٹی بجتی ہے تو دوست احباب سب سے پہلے یہی بات پوچھتے ہیں کہ گھر میں ہی ہیں نااور پھر نصیحتیں شروع ہو جاتی ہیں کہ گھر سے باہر مت نکلنا اور نہ ہی گھر میں کسی کو گھسنے دیں، کیا معلوم کون وائرس کا شکار ہو اوراسے آگے منتقل کر دے۔ خوف و ہراس کی فضاء طاری ہے، ہر انسان خوفزدہ ہے اور اچھوت بن چکا ہے، منہ پر ماسک اور ہاتھوں میں دستانے پہنے ڈاکٹروں کودیکھا کرتے تھے اب ہر کوئی ڈاکٹر بنا پھرتا ہے۔
بچے جن کے کھیلنے کودنے کے دن ہیں گھروں میں قید ہیں اور ان کو والدین نے زبردستی قید رکھا ہوا ہے۔ والدین جو پہلے بچوں کے جدید کھلونوں میں گم ہوکر کھیلنے سے تنگ تھے اب شکر ادا کرتے ہیں کہ ان کھلونوں کی وجہ سے بچے گھر کے اندر بیٹھے ہیں۔ اچانک حالات نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ ہم جو خدا کی ذات کوبھول چکے تھے دوبارہ اس سے رجوع کر رہے ہیں، گھر گھر میں دعائیں مانگی جارہی ہیں، وظیفے کیے جارہے ہیں اور خدا سے اپنے گناہوں کی معافی طلب کی جارہی ہے۔ ہم پسماندہ مسلمانوں کو کاہل سست اور وقت سے لاپروا سمجھا جاتا ہے اور اسے ہماری پسماندگی کا ایک سبب گردانا جاتا ہے لیکن میں کبھی سوچتا ہوں کہ اسلام وہ پہلا مذہب ہے جو ہمیں دن رات پانچ وقت ایک عمل کو صحیح وقت پر سر انجام دینے کی ہدایت کرتا ہے اور وہ بھی اس طرح کہ اگر وقت گزر جائے تو پھر یہ عمل نہیں ہو سکتا اور وہ مولوی یا موذن جو نہایت حقیر معاوضے پر پابندی وقت سے دنیا کو حیرت زدہ کر دیتا ہے، کوئی بھی موسم ہو، سخت سردی ہو یا سخت گرمی وہ درست وقت بتانے والی گھڑی کے مطابق مقررہ وقت پر نماز کے لیے آواز بلند کرتا ہے۔
مسجدوں کے مینار اسی موذن کے لیے بنائے گئے تھے کہ وہ کسی بلند جگہ پر کھڑے ہو کر اپنی آوازدور دور تک پہنچا سکے، آج ان میناروں کی بلندیوں پر لاؤڈ اسپیکروں کا قبضہ ہے اور موذن مسجد کے اندر کھڑے ہو کر اس آلہ مکبر الصوت سے مسلمانوں کو نماز کے لیے بلاتاہے۔ یہ سہولت جو کبھی حرام تھی آج حلا ل اور مجبوری ہے اورمسجدوں کے اندرموجود ہے۔ جو مسلمان اذان کی آوازسنتے ہی پانچ وقت باوضو ہو کراللہ سے رجوع کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کی التجاؤںکو رد نہیں کرتے۔ یہ وقت ہے کہ ہم اپنے رب سے رجوع کریں، التجاء کریں اور وباء سے پناہ مانگیں وہ اپنے بندوں سے بہت پیار کرتا ہے اور مجھے یقین ہے کہ وہ دعاؤں کو قبول کرتا ہے۔
بات موسم کی تبدیلی سے شروع کی تھی لیکن چونکہ آج کل دنیا بھر میں ایک ہی موضوع ہے اس لیے نہ چاہتے ہوئے بھی کورونا کا ذکر بیچ میں آگیا۔ اس برس بارشیں معمول سے زیادہ ہوئی ہیں اور اب بھی ہورہی ہیں۔ لاہور میں موسم ویسے بھی جلد بدل جاتا ہے اور سردی کے بعد اچانک گرمی شروع ہوجاتی ہے اس لیے گرم کپڑے بند کر دیے تھے لیکن سرد موسم نے جاتے جاتے اچانک کروٹ لی کہ دوبارہ سے گرم کپڑوں کی ضرورت محسوس ہوئی اور بشرط زندگی آیندہ سردیوں کے لیے سنبھال کر رکھے گئے کپڑے دوبارہ نکالنے پڑ گئے ہیں۔ موسم کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے طبیب مشورہ دے رہے ہیں کہ بدلتا موسم بہت خطرناک ہوتا ہے اس لیے احتیاط ضروری ہے خاص طور پر گلے کے امراض سے بچنے کے لیے رات کو سونے سے پہلے نیم گرم پانی کے نمکین غرارے کریں اور گلے کی خرابی سے بچیں کہ اس بدلتے موسم میں احتیاط لازم ہے۔ موسم کوئی بھی ہو طبیب ڈراتے رہتے ہیں کہ یہ ان کی پیشہ وارانہ مجبوری ہے، ویسے تجربہ کار مریض بتاتے ہیں کہ علاج کرو تو نزلہ و زکام ایک ہفتہ میں ختم ہو جائے گا نہ کرو تب بھی ایک ہفتہ میں ہی ختم ہو جائے گا۔ یہی نسخہ سب سے کار گرثابت ہوا ہے۔
حکومت کی جانب سے شہریوں سے گھروں میں رہنے کی اپیل کی وجہ سے سڑکوں پر ٹریفک بہت کم ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کا دھواں نہ ہونے کے برابر ہے۔ لوگ اپنی جان کی حفاظت کے لیے ڈر کرگھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور جو گردو غبار فضا میں رہ گیا تھا گزشتہ روز کی بارش نے لاہور کی فضاء کو صاف ستھرا کر دیا ہے۔ بہار کے خوبصورت موسم میں ہر چیز اجلی اور نکھری نکھری نظر آرہی ہے اور یہ اطلاع دے رہی ہے کہ موسم اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ بدل رہا ہے گو کہ بارش کی وجہ سے ہوا میں خنکی محسوس ہو رہی ہے مگر سردی نہیں ہے، جی چاہتاہے کہ اس ہوا میں آنکھیں بند کر کے بیٹھے رہیں، آنے والے گرم موسم کا تصور کر کے یہ ہوا اور بھی اچھی لگ رہی ہے۔
میرے مکان کے چھوٹے سے لان میں سبزہ اپنے جوبن پر ہے، درختوں اور پودوں پر نئی کونپلیں اپنا رنگ دکھا رہی ہیں، تازہ ہواؤں سے ان کے پتوں کی سر سراہٹ میں ایک باریک سی آواز بھی سنائی دیتی ہے، کسی پرندے کی آواز کی طرح یا کسی ساز کی دھیمی آواز کی طرح۔ بدلتے موسم میں چلنے والی ہوائیں بھی یوں محسوس ہوتی ہیں کہ وہ بھی موسم کی طرح مست ہیں اور لہک لہک کر دھیمی دھیمی رفتار سے چل رہی ہیں۔ بدلتی ہواؤں اورخوشگوار موسم کے باجودخوف کی فضاء طاری ہے جو بدلتے موسم کے ساتھ بدلتی دنیا کا پتہ بھی دے رہی ہے جس کی وجہ دنیا تہس نہس ہو کررہ گئی ہے اور کسی کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کیا ہورہا ہے۔ ہم مسلمان اپنے رب سے اس وباء سے بچاؤ کی پناہ مانگتے ہیں، وہ توبہ کا دروازہ کبھی بند نہیں کرتا، بے شک وہ رب العالمین ہے۔