اپنے دوشالے کی حفاظت کریں
ہماری افواج جو اب پاکستان کے اتحاد اور استحکام کا واحد یا بہت بڑا سہارا رہ گئی ہیں اور پاکستانی قوم جس طرح ان سے والہانہ عقیدت اور غیر مشروط محبت کرتی ہے، اس میں کسی شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
پاکستانی سیاستدانوں یا ان کے کسی ہم پلہ کی جانب سے افواج پاکستان کے متعلق کوئی ناپسندیدہ بات یا ایسے جذبات کا اظہار جس میں ان کی تضحیک کا کوئی پہلو نکلتا ہو تو ایسے موقعوں پر پاکستانی قوم افواج پاکستان کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے اور اپنے نام نہاد لیڈر حضرات کو وہ تنہا چھوڑ دیتی ہے۔
آج کل ایسے ہی معاملات میں انھی نامور لیڈر حضرات نے اپنے نظریاتی بیانیے کو لاگو کرتے ہوئے سیاسی ایوانوں میں ایک ہلچل مچا رکھی ہے، عوام پھٹی پھٹی نظروں سے اپنے سیاسی رہنماؤں کے چہرے پڑھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور ہر طرف چہ مگویاں ہو رہی ہیں کہ یہ وہی لیڈر حضرات ہیں جن کو اس ملک اور عوام نے بار بار اقتدارکی مسند پر بٹھایا ہے۔ ذہن ماؤف ہو چکے ہیں اور انھی ماؤف ذہنوں کے ساتھ بہت کچھ سوچنا پڑ گیا ہے۔ اس اضطراب انگیز کیفیت میں مجھے بھائی اظہار الحق کا ایک مشہور شعر یاد آ رہا ہے۔ شاید یہ اس حالت کو بیان کر سکے۔
غلام بھاگتے پھرتے ہیں مشعلیں لے کر
محل پہ ٹوٹنے والا ہو آسماں جیسے
آج کے حالات کو دیکھتے ہوئے محسوس یوں ہو رہا ہے کہ ہمارے سیاسی عمائدین نے جو ہلچل مچا رکھی ہے، ان کو دیکھتے ہوئے اﷲ نہ کرے سیاسی محل پر کوئی آفت آجائے اور کوئی ناپسندیدہ فیصلے ہو جائیں۔ سیاست دانوں کے ایک طبقے نے اپنی افواج کے خلاف جس جارحیت کا مظاہرہ کیا ہے اور جس طرح ایک نئے بیانیے کے تحت براہ راست نشانہ بازی کی جا رہی ہے، ایک مدت کے بعد فوج کے ترجمان کو سیاسی معاملے میں اپنا موقف پیش کرنا پڑا ہے۔
ورنہ اس سے پہلے فوج سیاسی لیڈروں کے بیانوں سے درگزر کرتی تھی۔ اصل مشکل یہ ہے کہ بڑے لیڈر میاں نواز شریف کے ساتھیوں میں منہ پھٹ اور ہتھ چھٹ خاصی تعداد میں موجود ہیں جنھوں نے اپنے لیڈرکی جانب سے لگائی جانے والی آگ پر تیل ڈالنے کا کام شروع کر رکھا ہے اور یہ بڑے لیڈر اپنے منہ زوروں کو قابو رکھنے میں آمادہ نظر نہیں آتے۔
دشمن تو ہر ملک کے ہوتے ہیں لیکن ان سے بچاؤ کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ ملک کے اندر حالات ایسے رکھے جائیں کہ دشمنوں کو کسی متحدہ اور منظم قوم سے خوف آتا رہے۔ مگر ہم ایسے ایڈونچر پسند واقع ہوئے ہیں کہ نہ خود چین سے بیٹھتے ہیں نہ دوسروں کو بیٹھنے دیتے ہیں۔ کوئی بھی پاکستانی یہ نہیں سمجھتا کہ اس ملک کا کوئی بھی شہری غدار ہے لیکن ہم بعض اوقات خود ہی ایسے حالات پیدا کر دیتے ہیں کہ اپنے اوپر کوئی لیبل لگوا لیتے ہیں۔
میاں نواز شریف بلاشبہ اس ملک کے صف اول کے لیڈر ہیں، ان دنوں لندن سے جوش خطابت کے جوہر دکھا رہے ہیں جن پر ان کی پارٹی کے دانشوروں کا جنون گروپ ان سے بھی بڑھ کر نعرے لگا رہا ہے۔ کبھی حکومت کو گرانے کی باتیں کر رہے ہیں تو کبھی حکومت کو لانے والوں کو تڑیاں لگائی جا رہی ہیں۔
ان لوگوں پر اقتدار سے باہر ہونے کے بعد جو غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ہے، اسے غلط کرنے کے لیے انھوں نے جو انداز اپنایا ہے، میرے خیال میں اس ابتدائی دور میں معاف کر دینا ہی مناسب ہے اور حقیقت پسندی یہی ہے کہ لہسن یا دیسی تاڑی کاذائقہ بہت تیز ہوتا ہے۔ زیادہ دن نہیں کہ وہ آسمان سے نیچے زمین پر اتر آئیں گے اور فلک پر ان کی یہ غلغلہ اندازی تھم جائے گی۔
ہمارے آج کے لیڈروں کی اکثریت پاکستان کے بارے میں وہی رویہ رکھتی ہے جس کوشیخ سعدی نے اپنی ایک حکایت میں بیان کر دیا ہے۔" کسی نے دیکھا کہ ایک رئیس زادہ اپنے بہت ہی بیش قیمت دوشالے سے جوتا صاف کر رہا ہے۔ دیکھنے والوں نے حیرت کا اظہار کیا تو ایک دانا نے کہا کہ دوشالہ اسے باپ سے ورثے میں ملا ہے اور یہ جوتا اس نے خود خریدا ہے"۔ ہمارے لیڈر حضرات نے بھی پاکستان کو ایک قیمتی دوشالہ سمجھا ہوا ہے جس سے وہ اپنے جوتے صاف کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔
گزارش ہے کہ وراثت میں ملے پاکستان کو اپنا سمجھیے اس میں رہنے والے اور اس کی حفاظت کرنے والے ہم سب ایک ہی ہیں، کوئی پرایا نہیں ہے، سب اپنے ہیں۔ خدارا اقتدار کے لیے اتنا آگے نہ بڑھیے کہ سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے۔ اس دوشالے کی حفاظت کیجیے، اس وراثت کو سنبھال کر رکھیے۔ اپنے گندے کپڑے سر بازار نہ دھویئے۔