آتش دان دہک رہے ہیں
اطلاع ملی ہے کہ آتش دان دہک رہے ہیں اور سردی کا یہ عالم ہے کہ جب باہر نکلتے ہیں تو کہرے کی سفید چادر زمین پر بچھی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ صحن میں رات کو اگرپانی کہیں گرا تھا تو صبح کے وقت وہ شیشے کی طرح جما ہوا نظر آتا ہے اور پانی کے مٹی کے گھڑے سے پانی لینے سے پہلے اس کے جمے ہوئے پانی کو توڑنا پڑتا ہے۔ سردیوں کے ایسے ہی موسم میں جب پانی کے کھلے تالاب جم جاتے تھے تو ایک بزرگ نے کہا کہ جانور ان دنوں تالابوں سے پانی پیتے نہیں اسے کاٹتے ہیں جیسے چارہ کھا رہے ہوں۔
مکئی اور باجرہ وغیرہ کے خشک ناڑ کو آگ لگائی جاتی ہے جو فوراً جل اٹھتا ہے اور اس کے ساتھ ہی لکڑیاں بھی آگ پکڑ لیتی ہیں لیکن ایک "دادا" کے گھر ایسی غربت تھی کہ لکڑیاں میسر نہ تھیں اور گھر والے سردی میں یہی خشک ناڑ جلاتے تھے جو پہلے تو بہت تیز آگ بھڑکا دیتا مگر جلدی ہی بجھ کر بے اثر ہوجاتا۔ ایک دن ملک صاحب نے دادا سے پوچھاکہ بال بچوں کا کیا حال ہے۔ دادا نے جواب دیا ملک جی یوں تو سب خیریت ہے مگر بچوں کو ایک کھیچل کھا گئی ہے ناڑ کی آگ بھڑکتی ہے تو اس کے تیز شعلوں کی وجہ سے پیچھے ہٹ جاتے ہیں اور پھر اس کے فوراً بجھنے پر اس کے اتنے قریب ہوجاتے ہیں جیسے اس میں گر پڑیں گے۔ بس اسی طرح وہ آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں اور پھر اس مشقت سے تھک کر سو جاتے ہیں۔
وادیٔ سون کے پہاڑوں میں غربت اور سردی کی یہ کشمکش بہت پرانی ہے۔ آگ زندگی بن جاتی ہے جلاتی نہیں، انسانوں کو سردی برداشت کرنے کا حوصلہ دیتی ہے لیکن یہ آگ کسی کسی کے نصیب میں ہوتی ہے ورنہ کچھ جھاڑ جھنکار ادھر اُدھر سے جمع کیا اور اس کی ٹھنڈی آگ کے کمزور شعلوں کو دیکھ دیکھ کر سردیوں کی شامیں گزار دیں۔
یہاں کا ایک فوجی جس کا تبادلہ کوئٹہ کی چھاؤنی میں ہو گیا تھا اس نے گھر خط لکھا کہ ہمارے تو صحن میں رکھا پانی جم جاتا ہے مگر یہاں پردیس میں آپ لوگوں کی یاد میں بہنے والے آنسو گالوں پر جم جاتے ہیں۔ وادیٔ سون کی سردی میں آنسو تو نہیں جمتے مگر سردی سے رگوں میں خون جمتا ہوا محسوس ہوتا ہے لیکن پرانے زمانوں میں جب صرف موٹے کھدر کے سوتی کپڑے ہی قسمت میں تھے تب بھی یہاں کی زندگی چلتی رہتی تھی۔
عشاء اور فجر کی نمازوں میں بھی مسجدیں آباد رہتیں اور شدید سردی کی ان نمازوں میں زیادہ تعداد بزرگوں کی ہوتی تھی۔ غریبانہ مگر اس صاف ستھری بدی سے محفوظ زندگی میں اس قدر توانائی تھی کہ میں آج جب گزرے ہوئے زمانے کی سنی ہوئی باتوں کو نقل کر رہا ہوں تو حیران ہورہا ہوں لیکن ان لوگوں نے نہ کبھی سردی کی کوئی شکایت کی اور نہ ہی اپنی غربت کا شکوہ کیا۔ سردیوں کی راتوں کے سناٹے میں جب کبھی کوئی گلی سے گزرتا تھا تو اس کے توانا پاؤں کی دھمک سے زمین ہلتی ہوئی محسوس ہوتی تھی۔ یہ توانائیاں اس سادہ نفسیاتی الجھنوں سے پاک اور باکردار زندگی کی برکات تھیں جن کی وجہ سے انھوں نے ایسی مشکل زندگی ہنس کھیل کر گزار دی۔
اگر صبر اور تقویٰ والی زندگی کے لیے جنت ہے تو یہ سب لوگ جنتی تھے۔ جب کبھی میں اپنے بچپن کے گاؤں کی زندگی کو یاد کرتا ہوں اور اس وقت کے نادار بزرگوں کی باتوں اور ان کے حالات ذہن میں تازہ کرتا ہوں تو میرا سینہ فخر سے تن جاتا ہے کہ میں اتنے بڑے لوگوں کے سایۂ عاطفت میں پلا بڑھا ہوں۔
مجھے اپنے والد کی وسیع و عریض زمینوں، حویلیوں اور اعلیٰ نسل کے گھوڑوں اور مویشیوں کو یاد کر کے کچھ فخر محسوس نہیں ہوتا لیکن ان کے پاس بیٹھنے والے سادہ لوح اور نیک دل لوگوں کو یاد کر کے ان پر فخر کرتا ہوں کہ ان کا کلچر دنیا کی آلائشوں سے کس قدر صاف ستھرا اور پاک تھا۔ میرا کوئی حقیقی چچا نہیں تھا لیکن میرے والد کے دوست اور ہم نشیں سب میرے چچا تھے جن کے کندھوں پر بیٹھ کر میں باہر کی زمینوں کے ڈیروں پر جاتا تھا اور جو میرے والد کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ جاگنگ کرتے ہوئے چلتے تھے اور میں ان کو مزید تیز چلنے کے لیے اپنی ننھی ایڑیاں ان کے سینوں پر مارتا تھا۔
وہ میری اس حرکت سے اور زیادہ خوش ہوتے تھے اور میرے والد سے جھوٹ موٹ کی شکایتیں کرتے تھے کہ یہ کیا کررہا ہے۔ والد صاحب کے مثانے میں پتھری تھی اور میں ضد کرتا تھا کہ گھوڑے پر ان کے آگے بیٹھوں گا۔ کچھ دیر کے لیے تو وہ میری ضد پوری کر دیتے لیکن جب تکلیف محسوس کرتے تو کسی کو اشارہ کردیتے اور وہ مجھے گھوڑے کی زین سے اتار کر دعویٰ کرتا کہ وہ گھوڑے سے زیادہ تیز چل سکتا ہے تا کہ میں ضد نہ کروں اور اس کے کندھے پر بیٹھ جاؤں۔ یہ لوگ ہمارے ملازم نہیں تھے اپنا کھاتے تھے لیکن تعلقات کے مارے ہوئے لوگ تھے جو وضع داری اور تعلق کو قائم رکھنا اپنی عزت سمجھتے تھے۔ یہ دن کو اپنی کاشتکاری میں جتے رہتے اور راتوں کو دشمنوں سے گھرے میرے والد کا باری باری پہرہ دیتے۔
یہ میرے اس گاؤں کی روایات تھیں جس کی اب یادیں ہی باقی رہ گئی ہیں۔ پاکستان کی برکات کا یہ عالم ہے کہ میرے گاؤںمیں موبائل فون کی سہولت بھی موجود ہے بجلی پہلے سے تھی گلیاں پختہ ہیں گھروں میں نل ہیں، سڑک پر گاڑیوں کی آمدورفت دیکھ کر کسی شہر کا گماں گزرتا ہے مگر سچ عرض کرتا ہوں کہ زندگی میں وہ آسودگی نہیں جو ہماری پچھلی نسل کو نصیب تھی۔ جب کوئی بیٹا اپنے والد کی میراث کو چھوڑ کر شہر میں قلم چلائے گا اور رکشوں کا دھواں پھانکے گا تو زندگی میں آسودگی اور راحت کہاں سے پائے گا اور جس گاؤں میں زندگی کی تمام سہولتیں پختہ مکان، ٹیلی فون، بجلی اور گاڑیاں ہوں گی اس میں دلوں کو سکون اور راحت کہاں سے ملے گی۔ ترقی ہر انسان کاحق ہے مگر ایک اچھی حکومت بھی انسان کاحق ہے جو اس جدید ترقی میں راحت و اطمینان کا سامان پیدا کرے صرف بل نہیں۔