Anna Hoyiaan
اَنّا ہویاں

وسیم اکرم سے پہلا تعارف ان کا ایک اشتہار بنا۔ جس میں دکھایا گیا تھا کہ وسیم اکرم صبح صبح ورزش کی غرض میں پارک میں موجود ہیں اور وہاں دیگر لوگ بھی پارک میں رِتھ (جاگنگ) کرتے دکھائی دیتے ہیں، کچھ دیر کے بعد دو نوجوان لڑکے تو تھک کے بیٹھ جاتے ہیں اور وسیم اکرم کو حیرت سے دیکھ رہے ہوتے وہ کیسے ابھی تک اپنی دھن میں رِتھ میں مصروف ہیں اور تھک ہی نہیں رہے۔ دونوں لڑکے مشورہ کرتے ہیں کہ وسیم اکرم سے پوچھنا چاہئیے کہ وہ اتنا لمبا کیسے دوڑ لیتے ہیں اور ان کی اس مضبوط سکت (سٹیمنا) کے پیچھے کیا راز ہے؟ دونوں وسیم اکرم کو پارک کے گیٹ پہ روک لیتے ہیں اور اپنا مشہور و معروف سوال پوچھتے ہیں کہ "وسیم بھائی آپ تھکتے نہیں؟" تو جواباً وسیم بھائی کہتے ہیں "نہیں، میں سگریٹ نہیں پیتا"۔
پھر طبعی عمر کی چڑھتی سیڑھیوں نے کرکٹ اور کرکٹ سے منسلک دیگر عوامل سے روشناس کروایا۔ پاکستان میں پائے جانے والے بیشتر نوجوانوں کی طرح کرکٹ کھیلنے، دیکھنے اور پرکھنے کا شوق ہوا اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب یہ جملہ صادر ہوا کہ وسیم اکرم کی ہر بال اور نصرت فتح علی خان کا ہر گانا سُنا جا سکتا ہے۔ دنیا دونوں کی صلاحتیوں کی معترف رہی ہے اور دونوں ہی اپنے وقت میں اپنی اپنی مجال (ڈومین) میں کمال رکھتے تھے۔
نصرت صاحب سے تو عمر نے یاوری نہ کی اور وہ جلد ہی اگلے جہاں سدھار گئے لیکن وسیم اکرم نے کھیل کے میدان میں اور میدان کے باہر بھی خوب نام سمیٹا۔ ایسے ہی وہ کسی پروگرام میں بیٹھے تھے اور بات ٹریفک پہ آ گئی تو وسیم اکرم نے اپنی بذلہ سنجی طبیعت سے مجبور ہو کے ایک بات سنائی کہ لاہوریے کیسے زندہ دل ہیں اور لاہوریوں نے قوانین کو بھی اپنے مزاج کی مطابقت کے حساب سے ڈھال لیا ہے۔
وسیم اکرم کہنے لگے کہ: پوری دنیا میں قانون ہے کہ جو بندہ پیچھے سے گاڑی مارے گا، قصوروار وہی ہوگا کہ اگلی گاڑی سے مناسب فاصلہ بنائے رکھنا اور وقت پہ بریک لگانا اس کی ذمہ داری ہے۔ لیکن شہر لاہور میں الٹا رواج ہے۔ یہاں بندہ پیچھے سے اگلی گاڑی کو ٹکر مار کے اگلے بندے کو کہہ رہا ہوتا کہ: اَنّا ہوگیاں ایں۔۔ اسی بات کو آگے بڑھانے کے لئے ایک اور کردار کہتا ہے کہ لوگوں کو احساس کرنا چاہئیے کہ جو آپ سے آگے ہے وہ پہلے گھر سے نکلا تھا اسی لئے تو وہ آپ سے آگے ہے۔ اب اگر سڑک پہ آ کے احساس ہو رہا ہے کہ دیر ہو رہی ہے تو آپ کو گھر سے پہلے نکلنا چاہئیے تھا۔
یہی کلیہ ہمارے ہاں کے حاسدین پہ بھی موزوں آتا ہے۔ وہ کسی کو گرا کے خود اٹھنا چاہتے ہیں، وہ کسی کو ہرا کے خود جیتنا چاہتے ہیں۔ لیکن اس ساری کھینچا تانی اور شکست و ریخت کے عمل میں وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جسے گرا رہے ہیں اور جسے ہرا رہے ہیں وہ کس مقام و جگہ پہ ہے؟
گرایا اسی کو جاتا ہے جو اوپر ہو
ہرایا اسی کو جاتا ہے جو جیت رہا ہو
پہلے سے گرے ہوئے کو کون گراتا ہے
پیچھے رہ جانے والے (ہارے ہوئے) کو کون ہراتا ہے
جس کو گرایا جا رہا ہو، اس کا مطلب یہی ہے کہ گرائے جانے والا کسی بلندی پر موجود ہے، کیونکہ جو شخص زمین پر ہو اُسے گرانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آتی۔ گرایا اسی کو جاتا ہے جس کا اوپر ہونا، جس کی ترقی، جس کی پہچان، جس کا نام اور جس کی موجودگی حاسدین کے لیے ناقابلِ برداشت ہو چکی ہو۔ اسی طرح جس کو ہرایا جا رہا ہو، وہ درحقیقت پہلے ہی جیت کی راہ پر گامزن ہوتا ہے، کیونکہ جو خود محنت، صلاحیت اور قابلیت کے ذریعے جیتنے کا حوصلہ نہیں رکھتے، وہ مقابلہ کرنے کے بجائے دوسروں کو ہرانا ہی ترقی کا واحد راستہ سمجھتے ہیں۔ اس لیے گرانے اور ہرانے کی کوششیں اکثر اس بات کا اعلان ہوتی ہیں کہ سامنے والا شخص مضبوط، باوقار اور کامیابی کے قریب ہے اور یہی حاسدین کو سب سے زیادہ ناگوار گزرتی ہے۔
اہلِ دل نہ حاسدین سے الجھتے ہیں، نہ گرانے والوں سے خوف کھاتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ جس نے انہیں راستہ دکھایا ہے، انجام بھی وہی لکھے گا۔ اس لیے وہ دوسروں سے بے پرواہ ہو کے، کھینچا تانی کے عمل سے صرفِ نظر کرتے ہوئے، حاسدین کی شرارتوں سے انّے ہوتے (نظر انداز کرتے) ہوئے خاموشی سے اپنے حصے کی محنت میں لگے رہتے ہیں، اپنے عمل کو عبادت بنا لیتے ہیں اور نیت کو خالص رکھتے ہیں۔ کیونکہ صاحبِ اختیار صرف وہی نہیں جو دنیا کی مسندوں پر بیٹھے ہیں، بلکہ اصل مقتدر تو وہ ہے جو دلوں کے حال جانتا ہے۔ وہ خوب پہچانتا ہے کہ کون ٹانگیں کھینچ کر اوپر آنا چاہتا ہے اور کون صبر، محنت اور اخلاص کے ساتھ اپنے قدم مضبوط کرتا ہے اور پھر وقت آتا ہے کہ نہ گرانے والے باقی رہتے ہیں، نہ حاسدوں کا شور، باقی رہتا ہے تو بس عمل کا نور اور حق کی جیت۔

