Teen Gaun Aur Kai Kahaniyan
تین گاؤں اور کئی کہانیاں

کراچی سے سکھر پہنچنے تک ہوا کی خنکی ٹھنڈ کی لہر بن کر رگ و پے میں سرایت کر چکی تھی۔ روہڑی اور سکھر کے سنگم پر قائم دونوں پلوں کے نیچے سندھو دریا اپنی ازلی متانت کے ساتھ بہتا چلا جا رہا تھا۔ ڈھلتے سورج کی نارنجی کرنیں دریا کے بیچ جزیرے پر آباد "سادھو بیلا مندر" اور دوسری سمت "ستیں جو آستانہ" پر یوں بکھری ہوئی تھیں جیسے جھٹ پٹے کا تمام جادو، اسی منظر میں سمونے کا تہیہ کر بیٹھیں ہوں۔
ایک جانب مندر سے آتی گھنٹیوں اور پوجا پاٹ کی چڑھتی اُترتی تان دریا کی لہروں پر ہلکے ہلکے تیرتے ہوئی پھیل رہی تھیں تو دوسری طرف شام کے ملگجے ٹہراؤ میں تلاطم برپا کرتی مسجد کے موذن کی اذان۔
سندھو دریا کے کنارے آباد ان جڑواں شہروں کا کینوس آج بھی مندروں، درگاہوں اور مزاروں کی رنگا رنگی سے بھرا ہے۔
سندھ کے اس سفر کا بنیادی مقصد تو بیٹی کا سیلاب سے متاثرہ خواتین کے حالات اور ان کا ڈیٹا اکٹھا کرنا تھا۔ مگر میرا ذہن تو ان دھرتی میں بکھری بے شمار کہانیوں کے تعاقب میں تھا۔ بس اڈے سے سیدھے سندھ رورل سپورٹ آرگنائزیشن (SRSO) کی دفتر پہنچے۔ شکارپور روڈ پر واقع ایس آر ایس او کا ہیڈ آفس سکھر کی بھاگ دوڑ میں ایک پرسکون پناہ گاہ سا محسوس ہوا لیکن ذہن میں اگلی منزل کا سفر ہنوز غالب رہا۔
اگلے دن ہم ایس آر ایس او کے ساتھیوں سمیت شکارپور ڈسٹرکٹ آفس میں چند خواتین ہیلتھ ورکرز سے مل رہے تھے جو ارد گرد کے گاؤں سے تعلق رکھتی تھیں۔ ان کے چہروں پر زندگی کی مشکلات اور مصائب کی داستان واضح لکھی نظر آرہی تھی لیکن لہجے کی پختگی اور عزم حیران کیے دے رہا تھا۔
یہ وہی عورتیں تھیں جو چند سال پہلے گھر کی دہلیز پار کرنے کا خیال بھی دل میں نہ لا سکتی تھیں۔ مگر ایس آر ایس او کے تعاون نے نہ صرف انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کیا بلکہ انھیں اپنے علاقوں کی سیلاب سے متاثرہ خواتین اور بچیوں کو تولیدی صحت کے مسائل سے نمٹنے میں مدد دینے کے قابل بھی بنایا۔
انہی میں سے ایک خاتون نے مسکراتے ہوئے بتایا، "میں آج اپنا ڈھابا چلاتی ہوں۔ جب ڈھابا کھولا تو ہر طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا، مگر میں ڈٹی رہی۔ پھر جب گھر میں آمدنی آنے لگی تو میری اہمیت خود بخود بڑھ گئی۔ اب تو میری دیکھا دیکھی علاقے کی کئی عورتیں اپنا کاروبار شروع کرنا چاہتی ہیں"۔
دوسری نے بھی فخر سے بتایا "میں اور میرے بیٹے نے میٹرک کا امتحان بھی ایک ساتھ دیا"۔ ہم نے ہمت اور محنت سے نہ صرف اپنے گھروں میں بلکہ اپنی کمیونٹی میں بھی وہ جگہ بنائی ہے جو کبھی ہمارے لیے ناممکن سمجھی جاتی تھی اور جب سے حکومتِ سندھ نے سیلاب متاثرین کے لیے جو "فلڈ ریزیلینٹ ہومز" تعمیر کیے جو سیلاب میں بھی پائیدار رہتے ہیں اور انھیں عورتوں کے نام پر الاٹ کرنا شروع کیا، تب سے ہمارے گھر کی فضا بھی بدلنے لگی ہے۔
ملکیت میں اس چھوٹی سی تبدیلی نے گھریلو تشدد میں نمایاں کمی کی ہے اور مردوں کے رویّوں میں بھی ایک نرم اور ذمہ دارانہ بدلاؤ آیا ہے۔ یہ گھر صرف پناہ گاہیں نہیں، عورت کی عزت، اختیار اور خود مختاری کی علامت بنے ہیں۔ "چاروں خواتین اعتماد سے تمام سوالوں کے جواب دیتی رہیں۔
"شکارپور کا تھیکا اچار کبھی چکھا ہے آپ نے؟"
چلیں، آج آپ کو حاجی مولا بخش کی اُس مشہور دکان پر لیے چلتے ہیں جہاں مسالوں کی خوشبو صدیوں سے فضا میں بسی ہوئی ہے۔
ہم اچار لینے شکارپور کے مرکزی بازار کی طرف روانہ ہوئے۔ شام ڈھل رہی تھی۔
جلدی اس لیے بھی تھی کہ اگلے دو روز میں خیرپور اور جیکب آباد کا سفر بھی درپیش تھا۔
حکومت سندھ اور ایس آر ایس او کے تعاون سے تعمیر کردہ پائیدار گھروں کے بیچوں بیچ کچی زمین پر رنگ برنگی رلّیاں بچھی ہیں اور ان پر صاف ستھرے کپڑوں میں ملبوس سینکڑوں عورتیں ترتیب سے بیٹھی ہیں۔ ٹھری میر واہ کے اس گاؤں میں ہندو اور مسلم خاندان مل جل کر رہتے ہیں۔
"سیلاب آنے کا سنتے ہی میرا گھر والا چل بسا۔۔ دل بند ہوگیا تھا اس کا" کملا کی آواز میں سناٹا تھا۔ دسواں بچہ میرے پیٹ میں تھا اور آخری دن چل رہے تھے۔
کچی مٹی سے لپا گھر پانی کے ساتھ ہی ہولیا مجھے اور بچوں کو گاؤں والوں نے سنبھالا۔
چند روز بعد بچہ خیمے میں پیدا ہوا۔
میں نے پوچھا۔ "خیمے میں بچہ پیدا کرنا! ۔۔ بہت مشکل ہوگا؟"
"نہیں! بچہ کب ہوگیا مجھے پتہ ہی نہ چلا" وہ معصومیت سے کہنے لگی۔ پہلے نو بچوں میں دنوں تک دردزہ سے تڑپتی تھی۔ لیکن خیمے میں درد جیسے ہی شروع ہوئے ڈاکٹر نے ایک گولی دی، ساتھ ڈرپ لگائی اور بھگوان کی کرپا سے بچہ کچھ ہی دیر میں ہوگیا۔
اسی جھرمٹ میں ایک پولیوزدہ لڑکی بھی تھی۔ "سیلاب کے دنوں میں پہلی بار ہماری زندگی میں پیڈز آئے"۔ وہ جھجھکتے ہوئے بتانے لگی۔ اس سے پہلے نہ ہم نے انہیں کبھی دیکھا تھا، نہ استعمال کیا تھا۔ خیموں میں رہتے ہوئے حکومت اور مختلف این جی اوز نے ہمیں پیڈز فراہم کیے۔ زندگی میں پہلی بار ماہواری میں سکون محسوس ہوا۔ مگر خیموں کی زندگی ختم ہوتے ہی وہ سہولت بھی ختم ہوگئی۔ اب ہم پھر اسی پرانے کپڑے کی طرف لوٹ آئے ہیں، کیونکہ ہمارے پاس اتنے پیسے ہی نہیں کہ ہر ماہ پیڈز خرید سکیں"۔
"میڈم۔۔ بچہ بند کروانے والی کا جنازہ نہیں ہوتا کیا؟"مولوی صاب کہتے ہیں۔ جیکب آباد کے گاؤں کی عورت نے سوال کیا۔ تو ساری عورتیں ہماری جانب سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگیں۔
جیکب آباد کے اس دور افتادہ گاؤں میں اوسطً ہر عورت کے آٹھ سے دس بچے تھے۔
تم سب کیا چاہتی ہو؟ میں نے پوچھا۔
ساری یک زبان ہو کر بولیں "زیادہ سے زیادہ چار! لیکن ہماری سنتا کون ہے"۔
"سیلاب آیا تو جیکب آباد میں مہینوں ہمارا کوئی پرسان حال نہ تھا "ایک عورت بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ سب اپنی مدد آپ کے تحت خود کو بچا رہے تھے۔ اللہ ایسا وقت پھر نہ لائے۔
"بچے آٹھ تھے لیکن ہاتھ صرف دو"۔ وہ باقاعدہ رونے لگی۔ سب کی آنکھیں بھیگنے لگیں۔
پانی بہت تیز تھا سب بہا لے گیا میرے دو بچے بھی۔ ہماری آنکھوں کے سامنے پانی انھیں لے گیا۔ میرے کانوں میں ہر وقت ان کی چیخیں گونجتی رہتی ہیں۔
کوٹ ڈیجی قلعہ سے منسوب ایک لوک داستان ہے کہ تعمیر کے وقت ایک لڑکی کو قربانی کے واسطے دیوار میں چنوا دیا گیا تھا اور رات ہوتے ہی قلعے کی درویوار سے چیخوں اور سسکیوں کی آوازیں گونجنے لگتی ہیں۔
کچھ کہتے ہیں کہ قلعہ کا نام ایک "ڈیجی رانی" کے نام پر رکھا گیا ہے۔ ڈیجی رانی موجودہ قلعہ سے کچھ دور ایک شہر کی حکمران تھی۔
سندھ کی عورت ماضی میں بھی بہادری کا استعارہ تھی اور آج بھی فرسودہ روایتوں اور پابندیوں سے لڑتے ہوئے اپنی دنیا بدلنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے۔
اس سال سندھ سیلاب سے بچا رہا لیکن 2022 کے سیلاب سے ڈسے ہوئے لوگ اس برس بھی خوف کے سائے میں رہے کہ کب سیلابی ریلا آ جائے گا اور ان کی گھرہستیوں کو روند ڈالے۔
یہ تمام مضبوط عورتیں اپنے جسموں پر لگے زخموں کو تو بھول چکی ہیں لیکن روح پر لگے گھاؤ ان سب کی آنکھوں سے اب بھی سیلاب رواں کر دیتے ہیں۔
بہ شُکریہ: وی نیوز

