مخدوش عمارتیں، ایک آنے والے سانحے کی پیشگی دستک

سندھ کی شہری و تہذیبی تاریخ کے بطن میں بسا ہوا معمارانہ ورثہ، محض اینٹ گارے کے ڈھانچوں کا مجموعہ نہیں بلکہ نسلوں کی یادوں، شہری انتظامی بصیرت اور تمدنی ارتقا کا آئینہ دار رہا ہے۔ مگر یہی ورثہ جب ریاستی غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور موسمی تغیرات کی زد میں آ جائے تو اس کی دیواریں صرف ڈھانچے نہیں گراتیں، پورا سماجی وجود لرز کر رہ جاتا ہے۔ حالیہ رپورٹ میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی ٹیکنیکل کمیٹی نے جن 715 عمارتوں کو خطرناک، مخدوش اور رہائش کے لیے غیر محفوظ قرار دیا ہے، وہ محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک اجتماعی المیے کی دستک ہیں۔ ان میں سے 563 عمارتیں صرف کراچی کے مختلف اضلاع میں واقع ہیں، جو اس امر کی گواہی دیتی ہیں کہ ملک کے سب سے بڑے اور معاشی مرکز شہر میں تعمیراتی اخلاقیات اور حفاظتی اصولوں کی پامالی کس حد تک بڑھ چکی ہے۔
کراچی کے ان مخدوش ڈھانچوں میں زیادہ تعداد ڈسٹرکٹ ساؤتھ اور اس کے بعد ڈسٹرکٹ سینٹرل میں واقع عمارات کی ہے، جہاں جدید شہری منظرنامہ تاریخی بستیوں کے ساتھ گتھم گتھا ہے۔ یہاں بعض عمارتیں محض رہائشی فلیٹس نہیں، بلکہ زمانۂ قدیم کے برگ و بار لیے ہوئے وہ عمارتیں ہیں جو کبھی شاہکار فن تعمیر سمجھی جاتی تھیں۔ کلفٹن کے مرین ڈرائیو پر واقع مکان سے لے کر اپر گزری کے کچھ مکانات تک، باتھ آئی لینڈ کے پی آئی ڈی سی فلیٹس سے گورنر ہاؤس میں موجود اے ڈی سی کے بنگلے کی بالائی منزل تک یہ سب عمارتیں اس تلخ حقیقت کا اعلان ہیں کہ جب عمارتیں بظاہر قائم رہتی ہیں مگر اندر سے کھوکھلی ہو جائیں تو خطرہ صرف اینٹوں تک محدود نہیں رہتا، وہاں انسانی زندگی کی حرمت بھی داؤ پر لگ جاتی ہے۔ صدر ٹاؤن کے نظام مینشن، یوسف مینشن اور اکبر محل جیسی قدیمی عمارتیں ایک زمانے میں شہر کی شناخت تھیں، مگر آج یہی عمارتیں شہری انتظامی غفلت کی علامت بن کر رہ گئی ہیں۔
یہ منظر صرف کراچی تک محدود نہیں۔ اندرون سندھ کی 152 عمارتیں جن کا تعلق حیدرآباد، سکھر، میرپور خاص اور لاڑکانہ سے ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ مسئلہ کسی ایک شہر یا ضلع کا نہیں بلکہ پورے صوبائی شہری ڈھانچے میں موجود اس نظامی خامی کا ہے جس نے برسہا برس تک دیکھتے دیکھتے عمارات کو زوال کے سپرد رہنے دیا۔ موسمیاتی تغیر اور حالیہ مون سون بارشوں نے محض اس کمزوری کو بے نقاب کیا ہے، پیدا نہیں کیا۔ جب عمارتیں برسوں تک مرمت، بحالی اور حفاظتی معائنے سے محروم رہیں تو بارشیں محض آخری ضرب ثابت ہوئیں۔
اس صورتحال کا سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ ان عمارتوں میں اب بھی کئی خاندان اپنے روز و شب بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اتھارٹی کی وارننگ کہ آئندہ بارشوں میں ان عمارتوں میں رہنا انتہائی خطرناک ہو سکتا ہے، ایک رسمی اطلاع نہیں بلکہ ممکنہ سانحات کی پیشگی خبر ہے۔ ماضی کی تلخ یادیں ہمارے سامنے ہیں جہاں ایک پرانی عمارت کی منہدم ہوتی چھت نے پورے کے پورے خاندانوں کو ملبے تلے دفن کر دیا۔ لیکن معاشرے کی اجتماعی یادداشت عموماً مختصر ہوتی ہے، سانحہ گزر جائے تو خطرہ پھر معمول کا حصہ بن جاتا ہے۔
یہ سوال اپنی پوری شدت کے ساتھ ابھرتا ہے کہ آخر ایسی نوبت آئی ہی کیوں؟ کیا تعمیراتی قوانین محض کاغذی ضابطے رہ گئے ہیں؟ کیا لالچ، زمینوں کی بے لگام قیمتیں اور کمرشلائزیشن نے تعمیراتی اخلاقیات کو نگل لیا ہے؟ اور کیا ذمہ دار ادارے صرف فہرستیں مرتب کرنے تک محدود ہیں یا ان کے پاس کوئی قابلِ عمل حکمتِ عملی بھی موجود ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ خطرناک عمارت کی نشاندہی محض پہلا قدم ہے، اصل امتحان ان عمارتوں کے مکینوں کی محفوظ منتقلی، متبادل رہائش کی فراہمی اور اس پورے عمل کی شفاف نگرانی ہے۔
اس تناظر میں یہ بھی ناگزیر ہے کہ ہم اس بحران کو صرف انجینئرنگ یا تکنیکی مسئلہ نہ سمجھیں۔ یہ ایک سماجی، معاشی اور انتظامی مسئلہ بھی ہے۔ ان عمارتوں میں رہنے والے بیشتر لوگ متوسط یا نچلے متوسط طبقات سے تعلق رکھتے ہیں، جن کے لیے اپنی چھت چھوڑ دینا، خواہ خطرناک ہی کیوں نہ ہو، عملی طور پر ممکن نہیں ہوتا۔ کرایہ، نئی رہائش، نقل مکانی کے اخراجات یہ سب ان کے سامنے دیوار بن کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسے میں ریاست کی ذمہ داری محض وارننگ جاری کرنا نہیں، بلکہ انسانی سطح پر مداخلت کرنا ہے۔
یہ صورتحال ہمیں ایک اور بنیادی سوال کی طرف لے جاتی ہے کیا ہمارے شہروں میں تعمیر نو کے ایسے ماڈلز موجود ہیں جو تاریخی عمارتوں کو محفوظ رکھتے ہوئے انہیں جدید تقاضوں کے مطابق مستحکم بنا سکیں؟ دنیا کے بڑے شہروں میں قدیمی عمارات کو heritage protection کے ساتھ structural reinforcement دیا جاتا ہے، مگر یہاں قدیم عمارت یا تو سرمایہ دارانہ منصوبہ بندی کے ہاتھوں مسمار ہو جاتی ہے، یا اپنی موت خود مرنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہے۔ دونوں صورتیں دراصل سماجی و ثقافتی خسارے کا باعث بنتی ہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ خطرناک عمارتوں کی فہرست کو محض ایک رسمی رپورٹ نہ سمجھا جائے بلکہ اسے ایک جامع شہری پالیسی کی بنیاد بنایا جائے۔ اس فہرست کے ذریعے یہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ کہاں فوری انہدام ضروری ہے، کہاں مرمت اور مضبوطی کا عمل ممکن ہے اور کہاں heritage value کو ملحوظ رکھتے ہوئے بحالی کا منصوبہ ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ تعمیراتی قوانین کی حقیقی عمل داری، نقشہ منظور کرنے سے لے کر تعمیر مکمل ہونے تک شفاف نگرانی اور خلاف ورزیوں پر سخت قانونی کارروائی یہ سب محض اختیاری نہیں بلکہ لازمی اقدامات ہیں۔
یہ لمحہ ہمیں اس سچائی کا سامنا بھی کراتا ہے کہ شہر محض سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بنتے، وہ اجتماعی ذمہ داری سے تعمیر ہوتے ہیں۔ اگر ریاست، ادارے، تعمیراتی شعبہ، سرمایہ کار اور شہری سب اپنی اپنی سطح پر جواب دہی قبول نہ کریں تو شہروں کے خدوخال محض پھیلے ہوئے ملبوں میں بدل جاتے ہیں۔ خطرناک قرار دی گئی یہ عمارتیں ہمیں متنبہ کر رہی ہیں کہ وقت ابھی مکمل ہاتھ سے نہیں نکلا، مگر غفلت جاری رہی تو آئندہ بارشیں شاید محض موسمی واقعہ نہیں، ایک نئے سانحے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گی۔
اس لیے آج کی سب سے بڑی ضرورت یہ ہے کہ اس مسئلے کو کاغذی کارروائی سے نکال کر انسانی زندگی کی حرمت کے زاویے سے دیکھا جائے۔ شہری منصوبہ بندی کو وقتی بندوبست سے آگے بڑھا کر پائیدار، شفاف اور سماجی انصاف پر مبنی ماڈل میں ڈھالا جائے۔ کیونکہ عمارتیں گرنے سے پہلے صرف دیواریں کمزور نہیں ہوتیں ریاستی نظم، سماجی شعور اور انسانی تحفظ کی بنیادیں بھی لرزنے لگتی ہیں۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے یا تو اصلاح کی نئی داستان لکھی جا سکتی ہے، یا غفلت کی ایک اور المناک تاریخ۔

