35 Saal Baad
پینتیس سال بعد

کچھ ہی وقت گزرا لگتا ہے، لیکن غور کیا تو پینتیس سال گزر چکے تھے۔ 90 کی دہائی میں یو ای ٹی کے بیسیوں دوست کینیڈا فلائی کر گئے، پھر ان سے ملاقات نہ ہو پائی۔ اگست میں ٹورنٹو کے دورے نے یہ موقع فراہم کیا اور ہمارے دوست عابد رانا نے کمال مہربانی سے دوستوں کو اکٹھا کر لیا۔
دنداس سٹریٹ (مسی ساگا) پہ 31 اگست کی روپہلی دھوپ میں بٹ کڑاہی کے اندر سے دراز قامت عابد رانا کو مسکراتے ہوئے باہر آتے دیکھا تو پلک جھپکتے میں پینتیس سال پیچھے پہنچ گیا۔ وقت اور حالات نے اسے کوئی خاص فرق نہ ڈالا تھا۔ بالوں میں تھوڑی سفیدی آ چکی تھی۔ اندر داخل ہوا تو قطار میں ہنستے مسکراتے شعیب، شمشیر چیمہ، فراز صمدانی، عامر زیدی، اکرام الحق، فدا ملہی صاحب، خالد بھروکہ مجاھد سلطان (ٹیکسالین) اور ان کے دیگر ساتھی نظر ائے، ملتا گیا تو روح میں سرشاری آ گئی۔ ضبط کیا، آنکھیں نم ہونے جا رہی تھیں۔ 1984 آنکھوں کے سامنے گھوم گیا جب ان چہروں سے لاہور کے اجنبی شہر میں شناسائی ہوئی۔
کاتب تقدیر نے وہ پانچ سال میری تقدیر میں ان کے ساتھ لکھے تھے۔ ایک آدھ سال آگے پیچھے ہو جاتا تو ان کی جگہ کوئی اور ہوتا۔ مگر اب یہی میرے تھے اور میں ان کا تھا۔ میں چونکہ باہر سے آیا تھا، مہمان تھا تو کمال مھربانی سے وہ مجھے سنتے رہے۔ پینتیس برس کی بھڑاس میں نے گھنٹے دو گھنٹے میں نکالنی تھی۔ کسی مجنوں کی طرح میں انٹ شنٹ بولتا گیا، وہ سنتے گئے، خلاف آداب تھا مگر میرے پاس یہی لمحات تھے۔ پھر میں نے کب آنا تھا، ہمیں بھی عرض تمنا کا ڈھب نہیں آتا، مزاج یار بھی سادہ ہے کیا کیا جائے؟
شمشیر چیمہ گھنی مونچھوں والے، اب کلین شیو کے ساتھ زیادہ باوقار لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں میں وہی چمک اب بھی تھی جو کبھی حیات نو کی نوید دیتی تھی۔ مجھے بار بار اصرار کر رہا تھا کہ کل واپس جانے سے پہلے ایک دفعہ مل کے جانا۔ اسے کیسے بتاتا کہ دس بار بھی ملوں گا تو تشنگی باقی رہے گی۔ سات سمندر پار اور تین دہائیوں کا فاصلہ کیسے ایک دو ملاقاتوں میں پاٹا جا سکتا ہے۔ ویسے بھی آج کا دن مصروف ترین تھا، صبح کولیگ الیاس کے ساتھ بریڈ فورڈ کے علاقے میں پچاس میل دور اس کے فارم ہاؤس پہ گیا تھا، اب یہ لنچ تھا، شام پانچ بجے اپنے سرسیدین دوست ذکی کو Markham کے علاقے میں ملنے جانا تھا، شام آٹھ بجے سکول فیلو انعام کے گھر ڈنر تھا۔ کل صبح بچے کچھے دیگر دوستوں سے الوداعی ملاقات ہے۔ مجھے اندازہ ہے چیمہ سے دوبارا نہیں مل پاؤں گا۔ لیکن مجھے اسے نہ کہنے کا حوصلہ نہ پڑا۔
ٹورنٹو میں بکھرے جا بجا پاکستانی دوستوں کی کامیابیاں دیکھ کے خوشی ہوتی ہے۔ یہ وہ ایلیٹ کلاس تھی جو پاکستان میں رہ جاتی تو وطن کتنا بہتر ہوتا۔ لیکن ان کو بہتر مستقبل کی خاطر ہجرت کا فیصلہ کرنا پڑا۔ پاکستان بھی ان سے محروم ہوا اور ہم بھی ان کے دیدار کو ترس گئے۔ ملک کے مستقبل سے سبھی مایوس تھے۔ میرے پاس بھی ان تارکین وطن کو حوصلہ دینے کی کوئی خبر نہ تھی۔
وقت سرک رہا تھا، تین دہائیاں گزر گئیں تو ان دو گھنٹوں کی کیا حیثیت تھی۔ ہم نے پھر بچھڑنا تھا۔ خالد بھروکہ بچے کھانے کو ڈبوں میں پیک کرکے سب کو دے رہا تھا تو میرا دل ڈوب رہا تھا۔ پینتیس سالوں بعد آج ملے تھے تو اب کیاکبھی مل پائیں گے؟ کچھ سیلفیاں، کچھ تصویریں میں مجلسی تبسم کے ساتھ لے رہا تھا مگر مجھے معلوم تھا اب یہ شب ہجر لمبی ہونے جا رہی ہے۔ جلدی سے الوداعی معانقے کئیے، کہیں ضبط کا بندھن ٹوٹ نہ جائے۔ ٹوٹے قدموں کے ساتھ الیاس کی گاڑی میں جا کے ڈھے گیا، مگر پھر رب کی ذات پہ یقین بحال کیا۔ کبھی سوچ سکتا تھا، دو براعظم عبور کرکے ان پیاروں سے مل پاؤں گا۔
ٹورنٹو کی روپہلی شام میں یہاں بکھرے ان ستاروں کے لئے ڈھیروں دعائیں دیتے اگلی منزل کی جانب چل دیا۔

