Social Media Ki Barkat Se Qabar Mein Chotha Sawal
سوشل میڈیا کی "برکت" سے قبر میں چوتھا سوال

ایک فرشتہ پھرتے پھرتے ایک دن پاکستان کے سوشل میڈیا کی دنیا میں آ جاتا ہے۔ وہ یہاں کا منظر دیکھ کر حیران رہ جاتا ہے۔ گھمسان کا رن پڑا ہے۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے ہیں۔ پاکستانی ایک دوسرے سے گتھم گتھا ہیں۔ ایک شور ہے، جو برپا ہے اور ٹھیک ٹھاک برپا ہے۔ کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی۔ فرشتہ یہ سب دیکھ کے ششدر رہ گیا۔ جب ذرا غور کیا کہ یہ مہا بھارت کیوں لڑی جا رہی ہے، تو اسے پتا چلا کہ یہ اپنے اپنے سیاسی دیوتاؤں کے حق میں اور ان کے مخالفین کے خلاف بیان بازی کر رہے ہیں۔
اس سیاسی جنگ کی شدت اور حدت سے اسے اندازہ ہوا کہ یہ جنگ تقدس میں مذہب کے قائم مقام ہے۔ بلکہ شاید اس سے بڑھ کر۔ یہ اسی معیار کا معرکہ ہے، جو آج سے ساڑھے چودہ سو سال پہلے کفر اور اسلام کے مابین برپا ہوا تھا۔ گویا یہ حق و باطل کی جنگ ہے۔ ایک طرف حسینی طاقتیں ہیں اور دوسری طرف یزیدی قوتیں ہیں، جو باہم برسرِپیکار ہیں۔ نیز اس میں ماں بہن کی نہ صرف ننگی گالیاں دی جا رہی ہیں، بلکہ ایک دوسرے کو جہنم کی وعیدیں تک سنائی جا رہی ہیں۔
فرشتہ یہ سب دیکھتا ہے اور آسمانوں کی طرف پرواز کرتا ہے۔ گھبرایا گھبرایا خدا کے حضور پہنچتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ اٹھتی ہے۔ دیگر ملائکہ کا ایک جمگھٹ لگ جاتا ہے۔ فرشتہ عرضی پیش کرتا ہے کہ یا باری تعالیٰ! میں پوری زمین گھوما۔ کسی جگہ مجھے ایمان کی حرارت نظر نہیں آئی۔ میں سخت مایوس تھا کہ اچانک پاکستان نامی ایک ملک سے گزر ہوا۔ وہاں کے لوگوں کے ایمان کی حرارت تو صحابہ کرام کے ایمان کی حرارت کو بھی شرما رہی تھی۔ گلیوں بازاروں سے زیادہ اندازہ مجھے سوشل میڈیا سے ہوا۔
پاکستانی نوجوان اپنے سیاسی لیڈروں کا احترام اسی طرح کرتے ہیں، جیسے کسی نبی کے صحابی۔ یہ ان کی محبت میں اس قدر سخت ہیں کہ لیڈر کے بڑے سے بڑے جرم کو یا تو سرے سے مانتے ہی نہیں یا پھر اسے جواز دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ پس اے خدا! تو قبر میں تین سوالوں کے ساتھ چوتھے کا بھی اضافہ کر دے۔ ویسے بھی ان کے ایک لیڈر نے کہا تھا کہ قبر میں سوال ہوگا کہ حق کا ساتھ دیا تھا یا نہیں۔ یعنی ہر مردے سے پوچھیں کہ اپنے سیاسی لیڈر کا دفاع کس حد تک کیا۔ خدا فرشتے سے یہ ماجرا سنتا ہے تو وہ اسے اجازت بخش دیتا ہے۔
اب فرشتوں، منکر نکیر کو خدا سے اس چوتھے سوال کا اذن مل چکا ہے۔ سو اے نوجوانو!
اپنی جنگ کا الاؤ مزید بھڑکاؤ۔ مخالفت کی آگ خوب تیز کرو۔ اس کے لیے کئی طریقے ہیں۔ غازی یا شہید بننے کے لیے یا تو مخالف سیاسی جماعت کا کم از کم ایک کارکن قتل کرو۔ یہ بڑے نصیبے کی بات ہوگی۔ جنت الفردوس میں آپ کو بہت اعلیٰ مقام ملے گا۔ ممکن ہے انبیا، صدیقین یا شہدا کے ساتھ جگہ ملے۔
یاد آیا پشاور میں ایک چلتی گاڑی میں دو مسافر اپنے اپنے سیاسی لیڈروں کے بارے میں لڑ پڑے۔ پھر پی ٹی آئی والے نے اپنے بندے بلوا کر اسے موقع پہ قتل کروا دیا تھا۔ سبحان اللہ! یہ بلند مرتبہ ہر کسی کے نصیب میں کہاں!
اگر آپ بھی ایسا اقدام کر گزریں گے تو کیا ہی کہنے! کسی بڑے سے بڑے ولی کی زندگی بھر کی عبادتیں ایک طرف اور مخالف سیاسی کارکن کو قتل کرنے کی عبادت ایک طرف۔ اس کی وجہ سے آپ کو پھانسی لگی تو شہید نہیں تو آپ غازی ٹھہریں گے۔ یہ نہیں کر سکتے تو اسے ملازمت سے چھٹی کرواؤ اگر وہ ملازم ہے۔ اس کے بیوی بچے بھوکے مریں گے تو ہی وہ راہِ راست پہ آئے گا۔ یا اگر فیکٹری چلاتا ہے، تو اس کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرو۔ تاکہ اس کی فیکٹری بند ہو اور وہ بدبخت مزدوری کرکے اپنے خاندان کا پیٹ پالے۔ مخالفین کا جینا حرام کر دو۔ ان کے رستے میں کانٹے بکھیرو۔ آپ یہ جو سیاسی جماعتوں کی جنگ لڑ رہے ہیں، یہ جنگ تو وقت کے نبی اور اس کے ساتھی لڑتے رہے ہیں۔
نکیرین نے اللہ سے اجازت لے لی ہے اور قبر میں آپ کے سیاسی لیڈر اور اس کی جماعت کے بارے میں آپ کی کارگزاری کا پوچھا جائے گا۔ اگر اس سوال میں آپ ناکام ہوئے، تو پہلے تینوں سوالوں میں بھی ناکام تصور کیے جاؤ گے۔
اب سوال اس طرح ہوں گے:
1۔ تیرا رب کون ہے؟
2۔ تیرا نبی کون ہے؟
3۔ تیرا دین کیا ہے؟
4۔ تیرا سیاسی لیڈر کون ہے اور تو نے اس کے لیے کیا کیا قربانیاں دیں؟
وقت کم ہے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ پس اپنے اعمال نامے میں کوئی کارنامہ ضرور درج کرواؤ۔
وگرنہ خدا کو کیا منہ دکھاؤ گے!
نوٹ: قبر کے بعد حشر میں بھی سیاسی جماعت اور اس کے قائد کے متعلق آپ کی قربانیوں کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ اس ایک سوال کی کامیابی جنت کی راہ دکھائے گی اور اس کی ناکامیابی سیدھی دوزخ میں لے جائے گی۔
نوٹ: یہ تمثیلی انداز اپنایا ہے۔ شاید کسی کو شرم آ جائے۔ ناسمجھو! نواز شریف، عمران خان، زرداری یا فضل الرحمان نے آپ کی بیماری کا پوچھنا ہے نہ آپ کے کسی جنازے کو کندھا دینا ہے نہ آپ کی کوئی ضرورت پوری کرنی ہے۔ ایویں ای ان کی بنیاد پہ ایک دوسرے سے بوتھے بنائے ہوئے ہیں اور پاکیزہ رشتوں سے منہ موڑ رکھا ہے۔

