Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Water Rights

Water Rights

واٹر رائٹس

آبی وسائل سے متعلق کوئی بھی منصوبہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتا جب تک اس علاقے کے پانی کی تقسیم کے مقامی اصولوں کو اس میں ممکنہ حد تک شامل نہ کیا جائے۔ بلوچستان کی حد تک تو یہ اصول اس قدر حاوی ہوجاتے ہیں کہ بعض اوقات اچھے خاصے مفید آبی منصوبے صرف پانی کی تقسیم کے مقامی حقوق کے احترام میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے پڑتے ہیں یا پھر داخل دفتر کرنے پڑتے ہیں۔ ایک ایسے منصوبے پر کام کرنے کا اتفاق ہوا جس میں دریا کے ایک مقام پر دو قبائل کا پانی کا مشترکہ برابر برابر حصہ ہے۔ ندی کے اندر سے مٹی کو کھود کر ایک نالہ بنا کر پانی کو ندی سے باہر دائیں کنارے پر لاتے ہیں۔

یہ کچا نالہ ہرسال سیلاب برباد کر دیتے ہیں اور سیلاب کے موسم کے بعد دوبارہ کھودنا پڑتا ہے جس میں دونوں قبائل برابر کی مین پاور اور وسائل مہیا کرتے ہیں۔ نالے کے اختتام پر کنکڑیٹ کا ایک سٹرکچر ڈال بنا کر اس پانی کو برابر برابر تقسیم کیا جاتا ہے اور اس جگہ سے آگے ہر قبیلہ اپنا پانی خود لے جاتا ہے۔ اس سے آگےپختہ نہروں کا باقاعدہ ایک نظام شروع ہوجاتا ہے۔ یہ اصول صدیوں سے کارگر تھا لیکن ایک قبیلے نے سالانہ مٹی کی کھدائی والی مشترکہ نہر کھودنے میں اپنا حصہ ڈالنے میں سستی دکھانا شروع کردی تو اوپر والے قبیلے نے اس کا پانی بند کردیا۔ کورٹ کچہری شروع ہوا اور آج تک جھگڑا ہی چل رہا ہے۔

آج کل محکمہ آب پاشی ان کا سارا نظام پختہ کرکے نیا بنانا چاہتا ہے مگر مقامی طورپر کافی مسائل آرہے ہیں کیونکہ اوپر والا قبیلہ اپنا نظام علیحدہ کرنا چاہتا ہے اور نیچے والوں کا علیحدہ، جس سے منصوبے کی لاگت بڑھ گئی ہے کیونکہ ندی پر پانی موڑنے کے دو علیحدہ علیحدہ سٹرکچر ایک کلومیٹر کے فاصلے پر بنانے پڑیں گے حالانکہ ایک ا سٹرکچر سے دونوں کو پانی دیا جاسکتا تھا۔ جب دو علیحدہ علیحدہ اسٹرکچر پر دونوں قبائل کو راضی کیا تو درمیان والے قبیلے کے لوگ آگئے کہ وہ اپنے علاقے سے نیچے والوں کا پانی نہیں گزرنے دیں گے کیونکہ صدیوں سے وہ اوپر کے مقام سے پانی لے رہے ہیں۔

انہیں مطمئن کرنے کے لئے اسٹرکچر کو اس علاقے سے نیچے لے جائیں تو ندی سے کھیت اوپر ہوجاتے ہیں اور زمینوں کو پانی نہیں پہنچتا۔ اوپر والے قبیلے کا ندی میں جہاں پانی چوس اسٹرکچر بنانے کا پلان بنایا ہے تو اس سے اوپر والے قبیلے کے لوگ آگئے ہیں، کہ اس قبیلے کا تو ندی میں بہتے پانی پر حق تھا اب اگر یہ پانی چوس اسٹرکچر زیرِزمین پانی چوسے گا تو اوپر ان کا پانی زیر زمین جانا شروع ہوجائے گا اور وہ ندی میں بہتے اپنے پانی کے بڑے حصے کے زمین میں جانے سے اپنے حصے سے محروم ہوجائیں گے۔ انہیں بڑی مشکل سے راضی کیا کہ اوّل تو ایسا نہیں گا اور اگر ہوا بھی تو آپ کو اس پانی چوس اسٹرکچر سے سولر سے پمپ کرکے پانی دیں گے۔

ایک اور علاقے میں دریا پر چھ قبائل چھ مختلف جگہوں پر پانی کے برابر برابر حصے کے ذمہ دار ہیں۔ اوپر والا قبیلہ صرف اپنے حصے کا پانی نکال سکتا ہے اور زائد پانی نیچے بہا دیتا ہے۔ اسی اصول کے تحت نیچے آتے پانی سے قبائل اپنے اپنے علاقے میں پانی نکال لیتے ہیں۔ اگر بارشیں کم ہیں اور پانی کم آرہا ہے تو اوپر والے قبیلے پانی کے پہلے حقدار ہوں گے جب کہ نیچے والے محروم رہیں گے۔ محکمے نے اس علاقے میں سب سے اوپر ایک چھوٹی وئیر بنا کر دریا کے دائیں اور بائیں کنارے سے نہریں نکال کر ہر قبیلے تک پانی پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا جو کہ کم لاگت کا تھا لیکن علاقے کے لوگ نہیں مانے۔

ہر قبیلہ اپنے علاقے میں علیحدہ علیحدہ وئیر بنانے پر مصر تھا جس کی لاگت چار پانچ گنا زیادہ تھی اور بالآخر ایسا ہی ہوا۔ اس علاقے میں دریا پر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ہر قبیلے کے علیحدہ علیحدہ چھ وئیر بنے۔ پانی کے معاملے میں دنیا کے ہر علاقے کا انسان جذباتی ہے۔ پنجاب اور سندھ میں نہری پانی کاٹنے پر ہونے والی لڑائیاں اور قتل وغارت بھی اکثر خبروں کی زینت بنتی رہتی ہے۔ انڈیا پاکستان کے درمیان پانی کا تنازعہ حل کروانے کے لئے عالمی بنک تک کو آنا پڑا۔ دراصل ہر آبی منصوبے کا بنیادی نکتہ یہ ہوتا ہے کہ اس کے بنانے سے پہلے مقامی لوگوں کے پانی کے استعمال کے حقوق متاثر نہ ہوں بلکہ اس منصوبے کے بعد مزید بہتر ہوں۔

پاکستان میں پانی کے مشترکہ استعمال کے بعض منصوبے نہایت کامیاب بھی رہے جن میں غازی بروتھا، چشمہ رائٹ بنک کینال، کچھی کینال، پٹ فیڈر کینال، حب ڈیم اور لسبیلہ کینال قابل ذکر ہیں۔ پانی ایک ایسا مشترکہ وسیلہ ہے جس کے منصفانہ استعمال کو بنیاد بنا کر امن وآشتی اور دوستی کی مثالیں قائم کی جاسکتی ہیں لیکن ذرا سی بد اعتمادی کئی نسلوں کی بربادی لے آتی ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ابھی تک باہمی تعاون سے قدرتی وسائل سے فوائد کو مہمیز کرنے والی سوچ پروان چڑھتی نظر نہیں آرہی۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat