Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Thar Canal

Thar Canal

تھر کینال

تھر پھر سے سرسبز ہوگا اور پرانے ہاکڑا دریا کے راستے کے تالاب پھر سے بھریں گے۔ تھر اور نارا کے پانچ لاکھ مکین اور ان کے جانور انشااللہ رَج کے پانی پئیں گے اور فصل لگائیں گے۔ ایک عرصے سے تھر کو پانی پہنچانے کا خیال شائد حقیقت میں بدلنے کا وقت ہوا چاہتا ہے۔

تھر کینال کا منصوبہ ایک خواب ناک منصوبہ ہے۔ اس مقصد کے لئے واپڈا نے رینی کینال کے آخر پر کھینجو کے مقام پر تھر کینال کا ریگولیٹر پہلے ہی تعمیر کر رکھا ہے۔ جہاں سے نکلنے والی تھر کینال صحرائے تھر کے وسط سے گزرتی ہوئی انڈیا پاکستان کی سرحد کے متوازی چلتی ہوئے مٹھی تک جائے گی۔ یہ نہر گھوٹکی، سکھر، خیرپور، سانگھڑ، میرپور خاص اور مٹھی کے صحرائی علاقے کو سیراب کرے گی۔

تھر نہر کی لمبائی 400 کلومیٹر سے زیادہ ہوگی اور یہ نہر جو پانی لے جائے گی اس سے ایک لاکھ ایکڑ سے رقبے کی زرعی ضروریات کو پوری ہوں گی۔ راستے میں دو بہت بڑے اور کئی چھوٹے تالاب بھی بنیں گے جہاں مستقبل کی ضرورت کا پانی ذخیرہ ہوگا۔

ماضی میں پرانے ہاکڑا دریا میں گدو کے علاقے دریائے سندھ کے سیلابی پانی، جنہیں گھوٹکی سیلاب کہا جاتا تھا، سے مٹھی کے علاقے تک بہت سے چھوٹے چھوٹے تالاب اور جوہڑ بن جاتے تھے جس سے صحرائی حیات سکھ کا سانس لیتی تھی۔ گدو بیراج کے بننے کے بعد دریائے سندھ کے اطراف سیلابی بندوں کی سمندر تک سلسلہ وار تعمیر سے یہ سیلابی پانی آنا بھی بند ہو چکے اور انسان و حیوان زندگی کو ڈھونڈتے پھرتے ہیں۔ اس علاقے میں بارش کے علاوہ کوئی اور پانی کا ذریعہ نہیں ہے اور جولائی سے ستمبر کے درمیان ہونے والی بارشیں بھی بہت کم ہو چکیں جب کہ گرمیوں میں درجہ حرارت 50 ڈگری سے اوپر چلا جاتا ہے۔

تھر کے مغربی حصے کے ساتھ ساتھ دریائے سندھ کی ایک اور شاخ دریائے نارا کے نام سے چلتی تھی جوکہ سکھر کے شمال سے دریائے سنھ سے نکل کر براستہ ڈھورو پران، کوری کریک تک جاتی تھی۔ یہ دریائے سندھ کو کچھ سے ملاتی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ کئی انسانی بستیاں آباد تھیں۔ تاہم 1932-33 میں سکھر بیراج کی تعمیر کے دوران دریائے نارا کو بھی چینلائز کرکے اس کے بہاؤ کو نہری علاقوں کی زراعت تک محدود کردیا گیا۔

1962 میں گدو بیراج کے بننے سے ہاکڑا کے نشیبی علاقوں کو جانے والا پانی بھی بند ہوگیا اور یوں یہ صحرائے تھر میں دریائے سندھ کے قدرتی سیلابی پانی آنا بالکل بند ہو گئے اور سندھ کے نہری علاقوں کی ترقی کے پس منظر میں صحرائے تھر، نارا اور رینی کے علاقے تھوڑے بہت ملنے والے قدرتی پانی سے بھی محروم ہو گئے۔

صحرائے تھر اور نارا کے علاقوں کو دوبارہ سے دریائے سندھ کا پانی پہنچانے کے منصوبے کا پہلا خاکہ 1993 میں ادارہ برائے سندھ بارانی علاقہ جات (SAZDA) نے پیش کیا تھا جس کے تحت گدو بیراج سے دریائے سندھ کے بائیں کنارے سے مٹھی تک 500 کلومیٹر نہر بننی تھی۔

سنہ 2000 میں واپڈا نے رینی کینال کے ساتھ ساتھ تھر کینال پر بھی کام کی ابتدا کی۔ ابتدا میں رینی کینال بنائی گئی اور اب دوسرے مرحلے میں رینی کینال کے اختتام سے تھر کینال منصوبے کی فزیبیلٹی بن رہی ہے۔

منصوبے کے مطابق اس نہر میں مون سون کے3-2 مہینوں میں سیلابی پانیوں کو موڑا جائے گا جو کہ رینی، ناڑا اور صحرائے تھر کے بارانی علاقوں کے ایک لاکھ ایکڑ سے زیادہ رقبے کو سیراب کرے گا۔ دولاکھ سے زیادہ افراد کو پینے کا پانی ملے گا اور پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی پانی پئیں گے۔

Check Also

Bhai Sharam Se Mar Gaya

By Muhammad Yousaf