Sukki Tahli
سُکی ٹاہلی
پہلی دفعہ جب نذیراں نے یہ بات سُنی تو اِسے یقین ہی نہیں آیا کہ حکومت کچّے میں سندھو ندی کے اوپر ایسے دروازے تعمیر کر رہی ہے کہ جن کو بند کرنے سے اتنا بڑا ہُڑ (سیلابی پانی) آئے گا مغرب میں کوہِ سلیمان تک چڑھ جائے گا اور جِس میں اس کے سیلواں گاؤں سمیت تیس چالیس گاؤں غرق ہو جائیں گے۔ کچّے میں ہُڑ تو ہمیشہ سے آتا تھا لیکن کسی کسی سال گاؤں میں داخل ہوتا۔ اِن کی ست پیڑھیوں تک کسی نے اتنا بڑا پانی نہ دیکھا نہ سُنا کہ وہ پہاڑ تک چڑھ جائے۔
وہ سوچتی کہ اب تو تخت پر مسلمان بادشاہ بیٹھ چُکا۔ انگریز چلے گئے کہ جو لوہے سے ٹھیلے (ریل گاڑی) تھل تک لے آئے لیکن کچے میں پاؤں رکھنے کی انہیں بھی جرات نہ ہوئی۔ پھر اب یہ مسلمان بادشاہ کیوں کافروں والے کام کرنا شروع ہو گئے ہیں۔ کیوں اللہ کے بہائے ہوئے دریا کو دروازے لگا کر روک رہا ہے؟ گاؤں کے مرد کہتے تھے کہ ہندوستان نے پاکستان کا پانی روک لیا ہے اور اب سندھو ندی پر چشمہ گاؤں کے نیچے دروازے لگا کر اس کا پانی سوکھ جانے والی نہروں میں ڈالا جائے گا جو لہور تک جائے گا۔
اس کی تو نسلوں میں کوئی لہور شار (لاہور شہر) نہیں جا سکا تھا تو پھر یہ پانی کندیاں سے لاہور کیسے پہنچے گا؟ وہ سوچتی کہ لگتا ہے بادشاہ کے پاس کوئی جِن قابو میں ہیں۔ پھر ایک دن علاقے والوں کو وہ نیلی آنکھوں والے اور اِن کی میمیں کچھے پہنے چشمہ کیمپ میں پھرتے نظر آئے جو آج سے پچیس سال پہلے یہاں سے چلے گئے تھے۔ ان انگریزوں کے پاس واقعی کوئی جن قابو میں تھے۔ اتنی بڑی مشینیں تھیں کہ جنہوں نے دیکھتے ہی دیکھتے سندھو ندی پر چند سالوں کے اندر دروازے لگا کر اسے بند کر دیا۔
اب کچے کی ان تیس چالیس بستیوں کے باسیوں کو اپنے گھر بار چھوڑنے کی آخری وارننگ دے دی گئی تھی جو مجوزہ جھیل کے اندر آ رہی تھیں کیونکہ دروازے بند ہوتے ہی پانی نے ان بستیوں کو ڈبو دینا تھا جس کا نذیراں کو بالکل یقین نہیں تھا اور نہ ہی اس کا موضع سیلواں چھوڑنے کا کوئی ارادہ تھا۔ ارد گرد کے سب لوگ اپنے جناور اور سامان لے کر تھل پر نکل رہے تھے سیلواں خالی ہو رہا تھا لیکن اس نے جانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ پاگل پاگل سی سیلواں کی خالی بستی میں سارا سارا دن پھرتی۔ درختوں سے باتیں کرتی۔ پیاروں کی قبروں پر بیٹھ جاتی۔
اس کے گھر کے سارے لوگ تھل پر جا چکے تھے صرف اس کا بھائی اس کے پاس تھا تاکہ ہُڑ آنے پر اس کملی کو اپنے ساتھ بچا کر نکل جائے لیکن وہ اسے دیکھتے ہی اس سے بھڑ جاتی۔ موضع سیلواں میں آخری دن کا سورج طلوع ہوا۔ پانی اوپر آنا شروع ہو چکا تھا اور اب بستی کے اندر کسی بھی وقت گھس سکتا تھا۔ واپڈا والے بتیلے پر آ کر گھر خالی کروانے کے لئے آخری اعلان کر رہے تھے۔ نذیراں اس سب سے بے نیاز صبح سویرے اُٹھ کر ویہڑے میں جھاڑو لگا رہی تھی۔
کبھی وہ ان درودیوار کو دیکھتی جہاں اس کے باپ دادا اور بہن بھائیوں کے قہقہے دفن تھے۔ وہ گھر جن کی لیپائی اس کی ماں اپنے ہاتھوں سے کتنے سالوں سے کرتی آئی تھی۔ باڑہ ویران پڑا تھا۔ اسے یقین تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور ایک دن موضع سیلواں پھر سے آباد ہوگا۔ واپڈا والوں نے جب بتیلے سے جب آخری وارننگ دی تو بھائی نے مارپیٹ کر نذیراں کو ایک بتیلے پر سوار کروایا اور خود بھی بیٹھا اور واپڈا والے انہیں لے کر پتن کی طرف چل پڑے۔
سیلواں کے باقی سب لوگ اپنے گھر کے درخت کاٹ کر لے جا چکے تھے لیکن اس نے تو اپنے ویہڑے کی ٹاہلی بھی نہ کاٹنے دی کہ جسے اپنے ہاتھوں سے لگایا تھا۔ بھلا سبز درخت بھی کوئی کاٹتا ہے۔ وہ بتیلے پر بیٹھی اس ٹاہلی کو دور ہوتے دیکھتی رہی۔ آج بھی جب جب ڈیم میں پانی اترتا ہے وہ پتن پر ضرور جاتی ہے۔ سارا سارا دن پتن پر بیٹھی رہتی ہے اور اپنی سکی ٹاہلی کو دیکھتے رہتی ہے جو پچاس سالوں سے پانی کے اندر کھڑی ہو کر بھی سوکھی ہے۔ اپنوں سے بچھڑنے کے غم نے اس کو خشک کر دیا ہے۔ یہی حال نذیراں کا بھی ہے۔ جس نے ساری عمر شادی نہیں کی۔ اپنے سیلواں کو یاد کرکے سوکھ کر کانٹا ہوگئی ہے۔ شائد وہ زندہ بھی سوکھی ٹاہلی کے گرنے تک ہی ہے۔