Pakistan Ke Jinnati Deep Freezers
پاکستان کے جناتی ڈیپ فریزرز
دل تھام کر سُنیں کہ شمالی پہاڑی علاقوں میں ہرسال نومبر سے برف پڑنا شروع ہوتی ہے اور جنوری تک تو دس پندرہ فٹ برف پڑچکی ہوتی ہے۔ لیکن اس سال وہاں ابھی تک چھ انچ بھی برف نہیں پڑی یہی حال کشمیر کا ہے حالانکہ شمالی پہاڑی علاقوں میں ہر سال اکتوبر سے شروع ہوکر فروری تک وقفے وقفے سے برف باری ہونا ایک معمول رہا ہے۔
شمالی علاقوں میں سردیوں میں پڑنے والی برف وہ سفید تیل ہے۔ جو پاکستان کی معیشت کے انجن کو سارا سال چالو رکھتا ہے۔ یہ برف پنجاب اور سندھ کی فصلوں کے لئے درکار آدھے سے زیادہ پانی فراہم کرتی ہے۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں 7,000 سے زیادہ گلیشیئرز ہیں۔ قطبین کو چھوڑ کر یہ علاقہ دُنیا کے چند بہت بڑے گلییشیئرز کا گھر ہے۔ پاکستان کے پانیوں کا سارا دارومدار دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں پر ہے۔ دریائے سندھ تبت کے گلیشئیرز میں سے نکلتا ہے جسے ایشیا کے پانیوں کی ٹینکی کہتے ہیں۔
پاکستان کے شمالی پہاڑی علاقے 22 ہزار اسکوائر کلومیٹر کے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں۔ جس کے ایک تہائی حصے پر گلیشیئرز پڑے ہوئے ہیں۔ یہ گلیشیئرز پاکستان کے ڈیپ فریزر ہیں۔ جو اپنے اندر 2200 ملیئن ایکڑ فٹ سے زیادہ پانی فریز کئے ہوئے ہیں۔ یہ حجم پاکستان کی پانی کی کل سالانہ ضروریات سے 10 گُنا سے بھی زیادہ ہے۔
سردیوں میں شمالی پہاڑی علاقوں کے 70 فیصد علاقے (15 ہزار اسکوائر کلومیٹر) پر برف پڑ جاتی ہے۔ جوکہ پگھلتے ہوئے گرمیوں میں بھی ڈھائی ہزار اسکوائر کلومیٹر پر پڑی ہوتی ہے۔ گلیشیئرز اور برف کے پگھلنے کی وجہ سے دریائے سندھ میں سارا سال پانی چلتا رہتا ہے۔
دریائے سندھ اور اس کے معاون دریاؤں کا طاس پاکستان کے دوتہائی رقبے پر پھیلا ہوا ہے اور پاکستان کی زرعی ضروریات کا 95 فیصد پانی فراہم کرتا ہے۔ جس کا نصف برف اور گلیشیئرز پگھلنے سے آتا ہے۔ یوں یہ پاکستان کی معیشت کی شہ رگ ہے۔
اس سال شمالی علاقوں میں برف باری نہ ہونے یا بہت کم مقدار میں ہونے کا سیدھا سیدھا مطلب دریائے سندھ میں پانی کے بہاؤ میں خوف ناک کمی ہے۔ جس سے ملک میں فصلیں متاثر ہونے کا خطرہ ہے، کیونکہ ہمارے پاس اس کے متبادل کے طور پانی کے کوئی اور ذخیرے موجود نہیں۔
اس پر مستزاد کہ پاکستان میں موسمِ سرما میں ہونے والی بارشیں بھی اس سال ابھی تک نہیں ہوئیں حالانکہ محکمہ موسمیات کا اب تک کا ریکارڈ بتاتا کہ موسم سرما کی آدھی بارشیں دسمبر کے مہینے میں ہو جاتی تھیں۔ موسمِ سرما کی بارشوں کے بغیر میدانی علاقے کی فصلوں کی نشونما شدید متاثر ہوگی اور پیداوار کم ہوگی۔
موسمیاتی تبدیلی کا اژدہا ہمیں غذائی قلت کی طرف کھینچ رہا ہے۔ ہمیں ان تبدیلیوں کو سمجھ کر ان کے اثرات سے نپٹنا ہوگا جس میں پانی کو محفوظ کرنے کے طریقوں پر کام کرنا، آبپاشی کے جدید طریقے اختیار کرنا، زیرزمین پانی کا ریچارج اور دریاؤں کی قدرتی گزرگاہوں کی بحالی شامل ہے۔
سب سے اہم یہ کہ ملکی معیشت میں زراعت پر انحصار کم کرنا ہوگا، صنعت و حرفت کا حصہ بڑھانا ہوگا، صرف انسانی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے درکار فصلیں اگانا ہوں گی اور پانی کی آلودگی پر قابو پانا ہوگا۔