Naye Subah O Sham Paida Kar
نئے صبح و شام پیدا کر
دیگر صوبوں کی طرف سے کسی بھی بڑے ڈیم منصوبے کی مخالفت اور موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر اب پنجاب کو بھی دہائیوں پرانی واٹر مینیجمنٹ چھوڑ کر نئی راہیں سوچنا ہوں گی اور پاکستان کے پانی تقسیم معاہدے کے اندر رہ کر کچھ نیا کرنا ہوگا، کچھ جدت لانا ہوگی۔
ایسے منصوبے بھی ہیں جو کہ پنجاب اپنے تسلیم شدہ پانی کے حصے کے اندر رہتے ہوئے بنا سکتا ہے تاکہ اس کی پانی کی ضریات پوری ہو سکیں۔ مثلاً
1- دریائے سواں پر ایک بڑا ڈیم بنا کر نہر کے ذریعے موجودہ پائی خیل لفٹ اری گیشن سکیم، میانوالی لفٹ اری گیشن سکیم اور دامن موہاڑ کی دوتین لفٹ اری گیشن اسکیموں کو پمپ کی بجائے قدرتی بہاؤ سے پانی فراہم کرنا۔
لفٹ / پمپ آر گیشن اسکیمیں اکثر ناکام ہو جاتی ہیں اور مہنگی بھی پڑتی ہیں کیونکہ ایک تو پمپ بجلی یا ڈیزل سے چلتے ہیں دوسرا ان کی مرمت پر کافی خرچہ آتا ہے تیسرا پمپ مشینری کو چلانے اور رواں رکھنے کے کئے مطلوبہ تیکنیکی مہارت رکھنے والا عملہ ملنا مشکل ہوتا ہے۔ قدرتی بہاؤ سے نہری پانی کی فراہمی ایک قابل عمل سستا ترین ذریعہ ہے۔
2-دریائے جہلم پر خوشاب ریلوے پل سے نیچے سیلابی نہر بنا کر منگلا کے اسپل وے سے بہنے والے پانی کو صحرائے تھل کے سارے مشرقی حصے میں لاتعداد بیرون دریا پانی کے وسیع تالاب بنا کر بھر لینا جو کہ نہ صرف خوشاب سے نیچے دریائے جہلم سیلاب کی شدت کو کم کریں گے بلکہ جمع شدہ پانی بعد میں آب پاشی کے لئے بھی کام آئے گا۔ تھل میں زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوگی۔ صحرائے تھل کا مشرقی حصے سارا بارانی ہے اور یہاں پانی آنے سے کم ازکم اس سال کی فصل زبردست کاشت ہوگی۔ یہ منصوبہ ماحولیاتی اور پائیداری کے لحاظ سے ایک سبز منصوبہ ہوگا۔
3۔ منگلا ڈیم کی کانشی پاکٹ پر سائیڈ سپل وے کی تعمیر اور سیلاب کے دوران مین سپل وے کی بجائے کانشی سپل سے پانی کو گزار کر مجوزہ روہتاس ڈیم کو بھر لینا۔ روہتاس ڈیم سے پانی واپس دریائے جہلم میں آسکتا ہے یوں منگلا ڈیم جب ڈیڈ اسٹوریج پر پہنچے تو روہتاس ڈیم کا پانی استعمال کیا جاسکتا ہے اور اس سے سستی بجلی بھی بنائی جا سکتی ہے.
4- دریائے ستلج پر انڈیا میں آخری کنٹرول پوائنٹ فیروز پور (حسین والا) ہیڈ ورکس ہیں جہاں سے ستلج میں پانی کا آخری قطرہ بھی کشید کرلیا جاتا ہے۔ اس سے اوپر دریائے ستلج ہمیشہ تر رہتا ہے۔ قدرتی طور پر دریائے ستلج فیروز پور ہیڈ ورکس پر پہنچنے سے پہلے پاکستان کے کافی اندر ایک سرپرائز چکر قصور کی یونین کونسل سیہجرہ میں لگاتا ہے اور پھر مڑ کر انڈیا میں فیروز پور ہیڈ ورکس چلا جاتا ہے۔ اس جگہ پر زیرزمین ڈیم یا ریتلا ڈیم تعمیر کرکے انڈیا میں دریائے ستلج کی ہمیشہ رہنے والی نمی (زیر زمین پانی) کو اپنے استعمال کے لئے کشید کیا جاسکتا ہے۔
5۔ پوٹھوہار میں دریائے بنہاں کے آخری دہانے پر ایک بڑا ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنا جس سے ہزاروں ایکڑ اراضی سیراب ہوسکتی ہے۔
ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں۔۔