Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Mari Express

Mari Express

ماڑی ایکسپریس

ماڑی ایکسپریس اپنے نام کی طرح کی ہی ٹرین تھی جس کا کام چار سو کلومیٹر کے سفر میں ہر چھوٹے بڑے اسٹیشن پر رکنا تھا۔ پنجاب کے لوگ سمجھتے تھے کہ اس گاڑی کا نام اس کی کمزور حالت اور ریلوے کے اس کے ساتھ برتے جانے والے برے سلوک کی وجہ سے ماڑی رکھ دیا گیا ہے لیکن اصل میں اس کی وجہ تسمیہ دریائے سندھ کے کنارے نواب آف کالاباغ کی اسٹیٹ کے مرکزی گاؤں "ماڑی" کی وجہ سے رکھا گیا تھا جہاں سے یہ لاہور کے سفر پر روانہ ہوتی تھی اور پورے چودہ گھنٹوں کے سفر کے بعد لاہور پہنچتی تھی۔ اس کو روٹ کے کسی بھی اسٹیشن پر کسی بھی وقت روک کر باقی تمام ٹرینوں کو گزار کر سب سے آخری ترجیح میں آگے بڑھنے کے لئے راستہ دیا جاتا۔

ماڑی میں دریا کنارے نواب صاحب کا سفید رنگی بوہڑ بنگلہ ابھی بھی موجود ہے۔ ماڑی گاؤں دریائے سندھ کے دائیں کنارے پر واقع ہے جب کہ "ماڑی انڈس" کے نام سے ریلوئے اسٹیشن انگریزوں نے دریا کے بائیں کنارے پر بنایا۔ بعد میں دریائے سندھ کے اوپر ایک انتہائی خوب صورت لوہے کا پل بنا دیا گیا۔ ماڑی انڈس پر براڈ گیج ریلوے لائن ختم ہوجاتی اور نیرو گیج لائن شروع ہوجاتی جو دریائے کرم کو درہ تنگ پر ایک اور لوہے کے پل سے کراس کرتے ہوئے آگے لکی مروت اور ٹانک تک جاتی۔

ماڑی ایکسپریس پاکستان بننے کے چالیس سال بعد تک بھی میانوالی، بھکر کا لاہور سے واحد براہ راست رابطہ تھی۔ لاہور اور فیصل آباد کی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبا، ہائی کورٹ میں پیشی پر آنے والے سائل، وکلا، ملازمت پیشہ افراد اور پنجاب سیکریٹیریٹ میں کام کے لئے آنے والے افراد کا واحد میسر ذریعہ آمدورفت ماڑی ایکسپریس ہی ہوتی تھی۔ اس ٹرین میں ایک سلیپر کلاس کا ڈبہ، ایک کارگو کا ڈبہ اور ایک ڈاک کا ڈبہ ہوتا تھا جب کہ باقی ساری بوگیاں اکانومی کلاس کی ہوتی تھیں جن کی کھڑکیاں اور دروازے اکثر فری ہونے کی وجہ سے پوری کی پوری ٹرین سرد گرم ہر قسم کے موسم کی قید سے آزاد ہوتی۔

گرمیوں میں باہر کے سخت موسم کی وجہ سے ٹرین خوب تپی ہوئی ہوتی اور اکثر جنریٹر خراب ہونے کی وجہ سے پنکھے بند ہو جاتے۔ ایسے میں مسافر فل کھڑکیاں کھول لیتے اور باہر کی ہوا کے تھپیڑے لیتے۔ تاہم مسئلہ اس وقت ہوتا جب فوراََ ہی اگلے اسٹیشن پر گاڑی طویل وقت کے لئے کھڑی ہو جاتی اور بوگیوں میں حبس بھر جاتا۔ باقاعدگی سے سفر کرنے والے تو ہاتھ سے جھولنے والے پنکھے نکال لیتے جب کہ نئے مسافر پسینے میں شرابور ہانپتے رہتے۔ کئی من چلے تو اپنے کرتے اتار لیتے۔ تاہم برقعہ پوش خواتین کو تو نقاب بھی منہ سے ہٹانے کی اجازت نہ ہوتی۔

سردیوں میں بوگیاں سائیبریا میں چلنے والی ٹرین کا منظر پیش کر رہی ہوتیں اور مسافر سردی سے بچنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ چپک کر بیٹھے ہوتے (صرف موافق جنس کے مسافر)۔ جرسیاں، سویٹرز، مفلرز پہنے ہوتے، چادریں لپیٹی ہوتیں۔ غالباََ انہی سخت موسمی حالات کی وجہ سے یہ رات کو سفر کرتی۔ ماڑی سے ماڑی ایکسپریس شام پانچ بجے لاہور کے لئے روانہ ہوتی اور پوری رات کے سفر کے بعد صبح سات بجے داتا کی نگری پہنچتی۔ اسی شام کو سات بجے یہ ٹرین پھر لاہور سے ماڑی کے لئے روانہ ہوتی اور اگلی صبح نو بجے ماڑی پہنچتی۔

ماڑی انڈس سے شام 5 بجے سے روانہ ہونے کے بعد پہلا بڑا پڑاؤ کندیاں جنکشن پر ہوتا تھا جہاں سے ٹرین پر نیا عملہ سوار ہوتا اور ٹرین کو نیا انجن لگتا۔ پلیٹ فارم نمبر 2 کے ٹی اسٹالوں اور ریلوے ریستوران پر خوب رش لگتا۔ اس کے بعد خوشاب اسٹیشن کی چائے پکوڑے کھانے کے بعد سرگودھا آتا اور پھر پتہ نہیں رات کے کسی وقت بذریعہ چنیوٹ پل فیصل آباد پہنچتے۔ جہاں ٹرین کا پرانہ عملہ اتر جاتا اور نیا عملہ ذمہ داریاں سنبھالتا۔ فیصل آباد سے لاہور تک کے سفر میں سرائیکی اور پنجابی مسافروں کے مابین کئی نرم گرم مکالمے ہوتے جگہ نہ ملنے پر تلخ کلامی تک ہوجاتی بلکہ ایک آدھ لڑائی بھی ہوجاتی۔

ہماری انجینئرنگ یونیورسٹی کی تعلیم کے دوران یہ ہمارا ذریعہ سفر کے ساتھ ساتھ کورئیر اور کارگو سروس بھی تھی۔ ہم لاہور اسٹیشن آکر ٹرین کے عملے کو اپنے ایمرجنسی خط پتر یا سامان دے جاتے جو اگلی صبح کندیاں میں میرے والد صاحب لے لیتے جن کی ڈیوٹی ریلوے اسٹیشن پر ہی تھی۔

ماڑی ٹرین کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ بقر عید کے دنوں میں مسافروں اور بکروں کے لئے یکساں سفر کی سہولت حاصل ہوتی۔ ہم عید پر یا سالانہ چھٹیوں میں لاہور سے کندیاں کا گروپ ٹریول کرتے جس میں لاہور کے میڈیکل کالج، انجینئرنگ یونیورسٹی، گورنمنٹ کالج اور دیگر اداروں کے طالب علم شامل ہوتے۔ راستے میں فیصل آباد سے زرعی یونیورسٹی اور پنجاب میڈیکل کالج کے ساتھی بھی شامل ہو جاتے تو محفل جم جاتی۔

پوری بوگی پر طلبا کا قبضہ ہوتا اور سارے راستے میں ہلہ گلہ ہوتا رہتا۔ باقی مسافر ہمیں کوستے ہوئے ادھر ادھر کے ڈبوں مین کھسک جاتے۔ لمبے اور واحد ذریعہ سفر ہونے کی وجہ سے ٹرین کے مسافروں کے پاس گپ شپ کا بے انتہا وقت ہوتا۔ وہ ایک دوسرے کے واقف کار بن جاتے اور ہر سفر کسی نئی دوستی کے آغاز پر ختم ہوتا۔ کئی بچوں کے رشتے طے ہوتے، فصلوں کے سودے ہوتے اور کئی معاشقے پروان چڑھتے۔

نوے کی دہائی میں سڑکوں کے بہتر ہونے سے لاہور کے سفر کے لئے میانوالی سے پہلے ایک دو ڈائریکٹ مزدا سروس شروع ہوئی، پھر بڑی بسیں میدان میں آئیں۔ اس صدی کے شروع میں موبائل آنے کے بعد لوگوں کے پاس سفر کے لئے اور بھی وقت اور اسٹیمنا کم ہوا اور یوں آہستہ آہستہ دہائیوں سے اس روٹ پر چلنے والی ماڑی ایکسپریس کی اہمیت بھی کم ہوئی۔ بلور صاحب نے وزیر ریلوے بنتے ہی پچاس سال سے زیادہ عرصے سے چلنے والی اس روایتی ٹرین کو بند ہی کر دیا۔

Check Also

Jo Tha Nahi Hai Jo Hai Na Hoga

By Saad Ullah Jan Barq