Manji Thok De
منجی ٹھوک دے
پہلے ہی ہمارے باسمتی چاول کو انڈیا والوں نے ٹریڈ مارک کروالیا۔ اب ہماری واحد اور اصلی مقامی ایجاد صرف بان والی منجی ہی بچ گئی ہے جسے نہ صرف حکومت کو ٹریڈ مارک کروا لینا چاہئے بلکہ عالمی سطح پر اس کی برآمد کے لئے بھر پور مہم چلاکر انڈیا کی منجی ٹھوک دینی چاہئے۔
اس آئٹم کی خوبی یہ ہے کہ یہ ہر سائز، لمبائی، چوڑائی، گہرائی میں بن جاتی ہے اور ہر طرح کے سلیپنگ پوسچر کے لئے فِٹ ہے۔ سنگل، ڈبل اور ملٹی پل بندوں کے استعمال کے لئے یکساں مفید ہے۔ انتہائی ہوا دار اور ہلکی پھلکی۔ ماحولیاتی آلودگی سے پاک اور رینیوایبل۔ نسل در نسل چلنے والی آئٹم ہے۔
بان والی منجی کی بنائی بھی ایک آرٹ ہے۔ ہم نے اپنے دادا جان اور والد محترم کو اس کی بنائی خود کرتے دیکھا۔ انہوں نے ہمیں بھی اس کی بنائی سکھانے کی بھرپور کوشش کی لیکن ہم اس وقت ڈیجیٹل سکل سیکھنا چاہتے تھے لہذا ہماری نالائقی کو بھانپتے ہوئے بنائی کے دوران ہمیں "کتے" کو آگے کرنے کی ڈیوٹی دی جاتی اور ساتھ میں ایک پایہ بھی اٹھاتے تاکہ نیچے سے بان کا پِنہ نکالا جاسکے۔ ساتھ ہی ہم رسیاں کھنچتے اور گنتے تھے۔ بان کو پانی لگاتے۔ بٹے بل کھولتے۔ بان کے گولے بناتے۔
چارپائی کی دوائن کھینچنا ایک باقاعدہ آرگینگ ورزش ہے لیکن رسیاں گن اور کھینچ کھینچ کر ہمارے ہاتھوں میں جلن شروع ہوجاتی ہے۔ ہمارے ہاں روایت تھی کہ شام کے بعد چارپائی کی دوائن نہیں کسنی چاہئے۔ ہم سردیوں کی دوپہر کو چارپائی پر بیٹھ کر مونگ پھلی یا کینو وغیرہ دھوپ میں کھا کر دھوپ اور چارپائی کے مزے لیتے۔
چارپائی کے حوالے سے کئی ضرب المثل مشہور ہیں جیسے "منجی تلے ڈانگ پھیرنا" یا پھر گانا کہ
"میں منجی کتھے ڈاواں۔ میں کیڑے پاسے جاواں"۔
اور اسی طرح ایک پہیلی ہے کہ
"چار پڑے چار کھڑے
ایک ایک کے منہ میں دو دو پڑے"۔
پرانے زمانے میں لکڑی کی چارپائی بنائی جاتی تھی جس کے لئے اخروٹ یا ٹاہلی کی لکڑی استعمال ہوتی تھی اور یہ بہت ہی مضبوط اور بھاری ہوتی تھیں۔ دادا کے زمانے کی چارپائی پوتا استعمال کرتا تھا۔ لیکن آج کل دیہات میں بھی سٹیل کی چارپائی استعمال ہوتی ہے کیونکہ لکڑی کی چارپائی بہت مہنگی ہے۔ اب تو شہروں میں چند ایک دیسی ہی بچے ہیں جنکے بیڈرومز میں ابھی بھی چارپائیوں کا وجود ہے۔
کراچی میں شائد اس کا رواج نہ ہو لیکن پنجاب کے دیہات میں اب بھی چارپائی استعمال ہوتی ہے۔ جی ٹی روڈ پر سفر کرتے ہوئے ایسے ہوٹل کئی ملتے ہیں جہاں چارپائی اور کاؤ (گول) تکیہ ہوتا ہے اور پھر چارپائی پر بیٹھ کر کھانا کھاتے ہیں۔
چارپائی کی بناوٹ میں اہم میٹیرئیل بان ہے جس کی کئی قسمیں ہیں جیسے کوندر کا بان، مزیری کا بان (کھجور کے پتوں سے بنایا گیا)، منج والا بان، دھاگے سوتر والا بان، پلاسٹک ڈوری اور پٹیاں وغیرہ۔ ہمیں تو کوندر کا بان پسند ہے کہ وہ چبھتا نہیں۔ بچپن میں مزیری کے بان کی چارپائیاں زخمی کر دیتی تھیں۔
رنگین پائے اور چمڑے کے بان والی چارپائی (منجی) کا کبھی لطف لیا ہے آپ نے۔ یہ منڈی بہاوالدین کی مشہور چارپائی سمجھی جاتی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ڈی جی خان میں دنیا کی سب سے بڑی چارپائی ہے جہاں چھوٹی موٹی بارات کو کھانا کھلایا جاسکتا ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ یہ ورثہ اگلی نسل کو منتقل کرنے کے لئے ڈیرہ غازی خان میں ایک چارپائی ٹریننگ انسٹیٹوٹ فوری طور پر قائم کرنا چاہئے۔ ممکن ہو تو اس کی آن لائن کلاسز کرائی جائیں۔
اور ہاں جاتے جاتے سن لیں کہ اب Amazon پر بھی دستیاب ہے جس کی کم سے کم قیمت 200 ڈالر ہے۔ اس سے مہنگی آپ جتنے مرضی ڈالروں کی لے لیں۔