Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Kya Hum Tayar Hain

Kya Hum Tayar Hain

کیا ہم تیار ہیں؟

انسانی تاریخ کی ہولناک جنگوں کو آپ اپنی زندگی کے آنے والے چند سالوں میں شاید بھول جائیں، کیونکہ اب اس سے بھی زیادہ شدت سے پانی پر کنٹرول کے لئے "آبی جنگیں " شروع ہو نے جا رہی ہیں۔ پانی ہوا کے بعد دوسری سب سے اہم چیز ہے، جس پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے، جس کے لئے انسان مرنے اور مارنے پر تیار ہوجاتا ہے۔ سوڈان کا مسلم آبادی والا علاقہ عظیم تر دارفور اس کی ایک مثال ہے، جو پچھلے چالیس سال سے خشک سالی سے جنم لینے والی خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے۔

تیل کے برخلاف پانی ایسی نعمت ہے جس کا کوئی متبادل نہیں۔ جس طرح پچھلی صدی تیل کی صدی تھی، اسی طرح موجودہ صدی پانی کی صدی ہے۔ پانی نے ہی اس صدی میں قوموں کے باہمی تعلقات کی نہج طے کرنی ہے۔ اس صدی کی بڑی سپر طاقتیں آبی طاقتیں ہی ہوں گی، جو کہ بلحاظ پانی کی فراہمی کے بالترتیب برازیل، روس، امریکہ، کینیڈا اور چین ہیں۔ پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ انڈیا نے پاکستان دشمنی میں ہمارے دریاؤں کے پانی کا رخ موڑ لیا ہے۔

یہ درست ہے کہ پاکستان میں بہنے والے تمام دریاؤں کے سوتے انڈیا سے پھوٹتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ انڈیا نے اپنی پہلی واٹر پالیسی سنہ 1978 میں ہی بنالی تھی، جب کہ ہمارے ہاں یہ معجزہ انڈیا سے چالیس سال بعد 2018 میں ہوا ہے۔ زراعت پر ملکی معیشت کی بنیاد ہونے کے باوجود ہم اتنا عرصہ خواب غفلت میں سوئے رہے اور دنیا کہاں سے کہاں نکل گئی۔ لہذا اب واٹر پالیسی پر عملی اقدامات کے لئے جنگ کی بجائے، جسم جان بچانے والے جذبے سے کام لینا ہوگا، ورنہ پانی کی کمی ہمارے تمام تر ڈیٹرینس کے باوجود ہماری کمر توڑ سکتی ہے۔

ہمیں پہلا خطرہ اپنے آپ سے ہی ہے۔ زرعی پیداوار پانی کی مطلوبہ مقدار میسر نہ ہونے پر کیسے برقرار رہ سکتی ہے اور ہم اپنی بڑھتی ہوئی آبادی اور کم ہوتے ہوئے پانی کے ذخائر کی وجہ سے کتنی دیر تک زراعت میں خودکفیل رہ کر معیشت سنبھال سکیں گے؟ یاد رہے کہ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت صرف تیس دن تک کی ملکی ضروریات کا پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش موجود ہے جب کہ انڈیا کے پاس تقریباً سو دن کی گنجائش ہے۔ یہ بات اس لئے بھی اہم ہے کہ انڈیا کی ضروریات ہم سے پانچ چھ گنا زیادہ ہیں۔

چین نے تو پھر دنوں کی بجائے سالوں کی ضروریات کے لئے پانی ذخیرہ کیا ہوا ہے۔ اور تو اور دہائیوں سے قحط سالی کا شکار افریقی ملک ایتھوپیا بھی دریائے نیل پر میلینئم ڈیم بنا کر اپنا پانی محفوظ کرچکا۔ عالمی اداروں کی گائیڈ لائنز کہتی ہیں کہ کسی ملک میں بارش یا برف باری سے حاصل ہونے والے پانی کے کل حجم کا چالیس فی صد تک ذخیرہ کرنے کی گنجائش ہونی چاہیے۔

جبکہ ہمارے ہاں یہ گنجائش بھی ابھی دس فی صد تک نہیں پہنچی، تو ہم کیسے پانی کی قلت والے دنوں میں اپنی ضروریات کو پورا کرسکیں گے کیونکہ ہمارے ہاں سال کا اسی فی صد سے زیادہ پانی تو موسم برسات میں ہی برس جاتا ہے۔ جسے محفوظ رکھنے کے لئے پچھلی کئی دہائیوں میں ہم نے کوئی بڑی کوشش نہیں کی۔ اب جاکر بھاشااور مہمند ڈیم پر کام شروع کیا ہے جب کہ کالا باغ ڈیم کا منصوبہ باہمی بے اعتمادی کی نظر ہو کر تقریباً داخل دفتر ہوچکا ہے۔

دوسری طرف صورت حال یہ ہے کہ لے دے کر جو پانی ہم ذخیرہ بھی کر لیتے ہیں، تو اس کا آدھا بے دردی سے ضائع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کی پانی کی کل ضرورت کا نوے فیصد تک زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس میں ہم ڈیڑھ دوسو سال پرانے فلڈ اری گیشن کے نظام سے آدھا پانی فصل تک پہنچنے سے پہلے ہی ضائع کر دیتے ہیں، جبکہ دنیا ہائی ایفی شی اینسی اری گیشن سے بھی آگے بڑھ کر "مائیکرو" ار گیشن تک پہنچ چکی ہے۔ جس میں ہر پودے کی انفرادی ضرورت کا پانی ڈیجیٹل طریقے سے اتنی مقدار میں ڈرپ کردیا جاتا ہے۔

ذخیرہ شدہ پانی کو ضائع کرنے سے ہی ہماری تسلی نہیں ہوتی، بلکہ ہم تو زمینی پانی کو بھی بے تحاشا اور بے قاعدہ پمپنگ کرکے بے دریغ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمارے ملک میں زیرزمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔ شہری علاقوں میں آبادی کے دباؤ کی وجہ سے اور زیادہ ابتر صورت حال ہے۔ کوئٹہ شہر اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہا ہے، جہاں سے ماہرین کے مطابق نقل مکانی شروع ہوسکتی ہے۔

کراچی میں کربلا جیسی صورتحال ہے اور آپ کا لاہور، پشاور اور راولپنڈی اسلام آباد تیزی سے کوئٹہ بننے کی جانب گامزن ہیں۔ اندرون لاہور کے علاقوں میں زیرزمین پانی تقریباً پانچ چھ سو فٹ سے بھی زیادہ نیچے جاچکا۔ حکومت کی تبدیلی کے باوجود بھی ہماری عملی کوششیں ابھی تک بارش کے موسم میں لاہور کےلکشمی چوک میں لمبے بوٹ پہن کر فوٹو سیشن کرنے تک ہی محدود ہیں۔ ہم ساتویں ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود کراچی کے گجر ناکے تک کو صاف نہیں کرسکتے۔

حکومتوں کو کوسنے والی ہم عوام بھی اس ناقابل معافی جرم میں برابر کے شریک ہیں، جو صاف پانی کو گھروں میں کفایت شعاری سے استعمال کرنے اور اس کی بچت یا دوبارہ قابل استعمال بنانے کی طرف بالکل دھیان نہیں دیتے۔ صنعتوں میں غیر قانونی طور پر پانی کا بے تحاشا استعمال اور آلودہ پانی کو بغیر کسی ٹریٹمنٹ کے ندی نالوں اور جوہروں میں پھینکنے کا گھناؤنا کھیل کھیلا جارہا ہے، جس سے صحت کے کئی مسائل جنم لے کے ہیں۔ قصور اور سیالکوٹ کا زیرزمین پانی کافی حد تک خراب ہوچکا۔

پانی جیسی بنیادی ضرورت سے نظر ہٹا کر ہم آئی ٹی یا ایمیزون میں جہاں تک آگے بڑھ جائیں، زراعت جیسے سیکٹر کی پانی کی ضرورت پوری کئے بغیر ملکی معیشت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو نہیں سنبھال سکتی۔ عملی اقدامات کا وقت ہے۔ ملک میں واٹر ایمرجنسی نافذ کرکے پانی کو ذخیرہ کرنے کے لئے ہر سطح اور ہر علاقے میں ڈیم بنائے جائیں۔ بارش کے پانی کو شہری علاقوں میں بھی سٹور کیا جائے۔

نیلے پانی کے تمام استعمال کو ری سائیکل کرکے دوبارہ استعمال کیا جائے۔ گھروں، دفتروں اور فیکٹریوں میں واٹر لوڈ شیڈنگ اور واٹر مینیجمنٹ کروائی جائے اور اس سب کے لئے واٹر گورننس بہترکی جائے۔ آبی جنگیں اگلا موڑ مڑ رہی ہیں۔ اپنے آپ کو بچانے کا وقت بہت کم رہ گیا ہے۔ آئیے ہم سب سے پہلے اپنی ذات پر استعمال ہونے والے پانی کے ایک ایک قطرے کے لئے اپنے آپ کو جواب دہ بنائیں۔ کیا ہم تیار ہیں؟

Check Also

School Ka Intikhab

By Wasim Qureshi