Khaki Sona
خاکی سونا
پنجاب میں 22,000 کلومیٹر کی لمبائی میں پچھلے ایک ماہ سے وہ خاکی سونا بکھرا ہوا ہے۔ جس میں تبت اور ہمالیہ کے گلیشئیرز اور کشمیر اور کے پی کے پہاڑوں کا عرق شامل ہے۔ یہ سونا اگر کسی اور ملک کے پاس ہوتا تو اسے یوں ضائع کرنے کی بجائے سٹاک کیا جاتا۔ اس کی سکریننگ اور صفائی کی جاتی۔ اسے ملک کے بنجر علاقوں اور صحراؤں میں بچھا کر ان کو قابلِ کاشت بنایا جاتا بلکہ اس کی برانڈنگ کرکے خوب صورت پیکنگ میں بیرون ملک کچن گارڈننگ اور فارمنگ کے لئے ایکسپورٹ کیا جاتا۔ حکومتی یا پرائیویٹ سیکٹر میں یہ کاروبار کا ایک بہت بڑا پوٹینشیئل ہے۔ جس کا خام مال ہر سو بکھرا پڑا ہے۔
پنجاب میں ایک دہائی کے بعد نہروں کی بھل صفائی کا کام اتنے بڑی سطح ہورہا ہے۔ پہلے مرحلے میں منگلا ڈیم کے زیرِانتظام نہروں کو 26 دسمبر سے 13 جنوری تک مرمت اور صفائی کے لئے بند کیا گیا، جب کہ دوسرے مرحلے میں تربیلا ڈیم کے زیرِانتظام نہروں کو 13-31 جنوری تک بند کرکے مرمت اور بھل صفائی کا کام جاری ہے۔ اس کام کی سٹیلائٹ تصاویر LIMS کے ذریعے روزانہ صبح 10 بجے مانیٹرنگ ایپ میں لوڈ ہوجاتی ہیں۔ یہ توقع کی جارہی ہے کہ نہروں کی صفائی سے تین سے چار لاکھ ایکڑ اضافی رقبے تک پانی پہنچ سکے گا۔
سندھ طاس کے دریاؤں میں چلنے والا پانی گدلا ہوتا ہے۔ اس کے اندر بہت سے مٹی کے ذرات (نمکیات)شامل ہوتے ہیں۔ اس مٹی کا کچھ حصہ تو ڈیموں کی تہہ میں بیٹھ جاتا ہے۔ جب کہ کچھ حصہ پانی کے اندر ہی گُھل کر اس کے ساتھ ساتھ دریاؤں اور بیراجوں سے ہوتا ہوا نہروں اور راجباہوں میں آ جاتا ہے۔ یہ گدلا نہری پانی پنجاب اور سندھ کے کھیتوں میں پورا سال مٹی کی ایک زرخیز پرت بچھاتا رہتا ہے اور یوں کھیتوں کی زرخیزی برقرار رہتی ہے۔
مٹی کی ایک پرت نہروں کے پیندوں اور کناروں پر بھی بیٹھ رہی ہوتی ہے۔ جو اگر ایک خاص مقدار سے بڑھ جائے تو نہروں سے یہ مٹی کھرچ کر انہیں صاف کرنا پڑتا ہے وگرنہ نہر کی کیپیسٹی کم ہوجاتی ہے اور وہ مطلوبہ مقدار میں پانی نہیں لے سکتی۔ محکمہ نہر 200 کیوسک سے زیادہ کیپیسٹی والی نہروں اور راجباہوں کی ایک تہائی لمبائی سے ہرسال چھ انچ سِلٹ ہٹانے کا ذمہ دار ہے۔
محکمہ ان نہروں پر نظر رکھتا ہے اور اگر کسی نہر کے پیندے پر چھ انچ سے زیادہ مٹی (سِلٹ silt) جم جائے تو اس کی بحالی کا منصوبہ بنا کر روٹین کے تعمیرومرمت (M&R)کے کاموں کے فنڈ سے نہر کو صاف کرلیا جاتا ہے۔ کسی بھی نہر کے پیندے پر 9 انچ سے زیادہ مٹی جمع ہونا اس کی کیپیسٹی کو متاثر کرتا ہے۔ اگر نہر بہت بڑی ہو اور جمنے والی مٹی کی مقدار بہت زیادہ ہوتو اس کے باقاعدہ سالانہ ترقیاتی کاموں (ADP)سے فنڈ لینا پڑتا ہے۔
نہروں کی صفائی سالانہ بندش کے دوران کی جاتی ہے جوکہ دسمبر اور جنوری میں تین سے چار ہفتے کے لئے ہوتی ہے۔ صرف پنجاب کے اندر ان نہروں کی لمبائی 23,000 میل سے زیادہ ہے اور ان کی پانی لینے کی کیپیسٹی 150,000 کیوسک ہے۔ اتنے طویل و عریض نظام کی صفائی کتنا مشکل کام ہوگا، جہاں پر ہم لوگ اپنے گھر اور گلیاں تک صاف نہیں رکھ سکتے۔
بھل صفائی کے دوران ابتدائی طور پر نہروں سے سِلٹ نکال کر نہر کے کناروں پر ہی ڈال دی جاتی ہے تاہم اگر مٹی کی مقدار زیادہ ہوتو لوگوں کو معاوضہ دے کر کچھ سٹوریج ایریا میں مٹی ڈال دیتے ہیں۔ نہروں سے نکالے گئے گاد (silt) اور تلچھٹ (Sediment) کو فضلے کے طور پر ٹھکانے لگانے کے بجائے بہت سے فائدہ مند استعمال میں لایا جاتا سکتا ہے۔ جن میں سے کچھ درج ذیل ہیں۔
زرعی زمینوں کی زرخیزی:
یہ گاد اور تلچھٹ نامیاتی مادے اور غذائی اجزاء سے بھرپور ہوتی ہیں۔ جو انہیں کمزور مٹی میں ترمیم کرکے زرعی استعمال کے لیے زرخیز بناتے ہیں۔ پاکستان کے رقبے کا پانچواں حصہ صحراؤں پر مشتمل ہے اور اگر یہ کام ایک منظم طریقے سے کیا جائے تو یہ صحرا گلزار بن سکتے ہیں۔ مزید برآں اس مٹی کو سائنسی بنیادوں پر سکریننگ اور صفائی کرکے خوب صورت پیکنگ میں خلیجی ممالک اور مغرب میں ایکسپورٹ کیا جاسکتا ہے۔
زمین کی بحالی:
مٹی اور تلچھٹ کو زمینی کٹاؤ یا زمینی انحطاط سے متاثرہ علاقوں میں زمین کو دوبارہ ٹھیک کرنے کے لیے بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ زمین کی زرخیزی کو بحال کرنے اور مٹی کو بہتر کرنے کے لیے اسے کمزور زمین پر پھیلایا جا سکتا ہے۔
تعمیر:
بعض صورتوں میں، گاد اور تلچھٹ کو تعمیراتی منصوبوں میں استعمال کیا جا سکتا ہے، جیسے اینٹ، بلاکس، یا کنکریٹ اور سڑک کی تعمیر میں ایک جزو کے طور پر۔
ماحولیاتی بہتری:
گاد اور تلچھٹ ماحولیاتی بہتری کی کوششوں میں مدد کر سکتے ہیں، جیسے نشیبی علاقوں کو بھرنا یا دریا کے کناروں اور ساحلوں کو مستحکم کرنا۔
تحقیق اور تجزیہ:
سائنسدان اور محققین کسی علاقے کی ارضیاتی تاریخ اور ماحولیاتی حالات کے بارے میں جاننے کے لیے تلچھٹ کے نمونوں کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں۔
تاہم نہروں سے نکالے گئے بھل کے استعمال کے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ اس کی مٹی کی کیا خصوصیات ہیں یا یہ زہریلے مادوں سے آلودہ تو نہیں ہوگئی۔ اس مقصد کے لئے اس مٹی کی لیبارٹری سے مناسب جانچ پڑتال اور ٹیسٹنگ کرانا ضروری ہے، کیونکہ ہمارے ہاں آبادی والے علاقوں میں سیوریج اور صنعتوں کا پانی بھی بعض اوقات نہروں میں ہی چھوڑ دیا جاتا ہے۔ لوگ اپنا کچرہ تک نہروں میں پھینک دیتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس مٹی کے استعمال میں قانونی اور ماحولیاتی ہدایات کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔