Sunday, 24 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Karen Ge Ahal e Nazar Taza Bastiyan Abaad

Karen Ge Ahal e Nazar Taza Bastiyan Abaad

کریں گے اہلِ نظر تازہ بستیاں آباد

وسیع تر صحرائے صحارا میں زندگی کی علامت بوڑھے نیل کی چوتھی ڈھلوان پر بنائے گئے اپنے وقت کے افریقہ کے سب سے بڑے ہائیڈروپاور ڈیم کے زیریں راستے پر پانی کے بہاؤ کے اوپر کھڑے ہوکر بنائی گئی کسی ڈیم انجنیئر کی یہ پہلی ویلنٹائن ڈے فوٹو ہے۔

میروئی ڈیم دارلحکومت خرطوم سے 350 کلومیٹر شمال میں دریائے نیل پر 2009 میں مکمل ہوا۔ اس ڈیم کے نظامِ آب پاشی کے ڈیزائن پر کئی پاکستانی ماہرین نے کام کیا۔ مجھے اس ڈیم سے نکلنے والی لفٹ اری گیشن کینالز کی کمپیوٹر ماڈلنگ پر کام کرنے کا موقع ملا۔

میروئی ڈیم ایک دیو مالائی منصوبہ تھا کہ جس کے ارد گرد سلطنت کوش کے اہرام بکھرے ہوئے تھے جن میں سے کچھ اہرامِ مصر سے بھی مقابلے کی چیز ہیں۔ ان اہراموں کے اندر بڑی بڑی لمبی قبریں ہیں جن میں داخل ہونے کے لئے باقاعدہ مقفل دروازے ہیں۔ قبروں کے اندر دیواروں پر عجیب و غریب شکلوں میں جانوروں اور پرندوں کے سر اور انسانی دھڑ والی شبیہیں بنی ہیں اور ساتھ ہی سورج اور ستاروں کے طلوع و غروب کے لحاظ سے ہوا اور روشنی کی آمدورفت کے لئے راستے بنے ہوئے ہیں۔

اس ڈیم کی تعمیر پر کئی اعتراضات بھی ہوئے جیسے کہ دریائے نیل کی تاریخی چوتھی ڈھلوان پر ڈیم نہ بنایا جائے۔ یاد رہے کہ دریائے نیل پر اسوان اور خرطوم کے درمیان چھ تاریخی ڈھلوانیں ہیں جو اس دریا کے اندر بڑے جہازوں کی آمدورفت کو مشکل بناتی ہیں اور اسی وجہ سے یہ علاقہ شاید شمال میں فراعینِ مصر اور جنوب میں ایتھوپئین بادشاہوں کے حملوں کی زد سے ہمیشہ محفوظ رہا۔

دوسرا اعتراض صدیوں سے اس علاقے میں اپنی ہزاروں مال مویشیوں کے ساتھ پھرنے والے خانہ بدوشوں کے راستوں کی بندش تھا۔ تیسرا اعتراض مصر کو تھا جو کہ دریائے نیل پر اپنا حق جماتا ہے۔

ڈیم بنانے کی صورت میں مصر کی طرف سے سوڈان پر حملے کے شدید خطرات بھی تھے کیوں کہ اس ڈیم کے بننے سے مصر میں واقع اسوان ڈیم کے پانی کے ذخیرے میں کمی واقع ہوسکتی تھی۔ اسوان ڈیم اس جگہ سے پانچ سو کلومیٹر نیچے سوڈان اور مصر کی سرحد پر ہے۔ تاہم سوڈان کی قومی حکومت اپنے عزم و حوصلے، عرب دوستوں کی مدد اور ملکی وسائل سے میروئی ڈیم کو چھ سال کی مدت میں مکمل کرنے میں کامیاب ہوگئی۔

جب 2009 میں یہ منصوبہ مکمل ہوا تو چائنہ کی کسی بھی کنسٹرکشن کمپنی کا اپنے ملک سے باہر سب سے بڑا پراجیکٹ تھا۔ یہاں سے پیدا ہونے والی بجلی نے نہ صرف سوڈان کو لوڈشیڈنگ کے اندھیروں سے نجات دلوا دی بلکہ زراعت کے لئے 10 ملئین ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی اسٹوریج بھی بن گئی جوکہ صحرائے صحارا کے اندر 9 لاکھ 80 ہزار ایکڑ رقبہ سیراب کرسکتی ہے۔

منصوبے کے خدوخال

ڈیم کی بلندی 220 فٹ

ڈیم کی کل لمبائی 9 کلومیٹر

کیپیسٹی 10 ملیئن ایکڑ فٹ

ہائیڈرو پاور 1250 میگاواٹ

کل لاگت: 2.945 ارب ڈالر

کنٹریکٹر ز: چائنہ انٹرنیشنل واٹر اینڈ الیکٹرک کارپوریشن، چائنہ نیشنل واٹر ریسورسز اینڈ ہائیڈرو پار انجنینیئرنگ کارپوریشن

کنسلٹنٹس: لاہمئیر انٹرنیشنل جرمنی

میروئی ڈیم کے منصوبے کی وجہ سے ہمیں قدیم بالائی نوبیہ کی تہذیب کی سلطنت "کوش" کے بارے میں جاننے اور اس کے قبل ازمسیح دور کے شاہی اہراموں والے قبرستان کو دیکھنے کا نادر موقع ملا جن کی حکمرانی کا عرصہ 593سے 355 قبل مسیح پر مشتمل ہے۔

اس سلطنت کے دارلحکومت اور قبرستان کے آثار قدیمہ موجودہ دور کے سوڈان کے دارالحکومت خرطوم سے تقریبا 200 کلومیٹر شمال مشرق میں دریائے نیل کے مشرقی کنارے پرواقع شینڈی قصبے سے 30 کلومیٹر شمال میں، "بوٹانا" کے جدید خطے میں آج بھی موجودہیں۔

ان آثار سے ایسا لگتا ہے کہ "لوہا"میروئی شہر کی آمدنی کا سب سے اہم ذریعہ رہا ہے۔ لوہے کو یہاں پگھلا کر باقی افریقہ میں برآمد کیا جاتا تھا۔ اس شہر کی بھٹیوں کو ایندھن کی فراہمی کے لئےاس زمانے میں یہاں بہت بڑے جنگلات میسر تھے۔ آج یہ سارا علاقہ ریت کا ایک صحرا ہے اور صحرائے صحارا کا حصہ ہے۔ اس حصے کو "صحرائے نوبیہ" کہتے ہیں۔

دریائے نیل کے ساتھ ساتھ تجارت میروئی شہر کی معیشت کا ایک اور اہم حصہ تھی۔ جیسے ہی میروئی دارلحکومت بنا، نئے تجارتی رستے بنائے گئے۔۔ بحیرہ احمر کی بندرگاہ بنا کر یونانی تاجروں سے مصنوعات کی درآمد و برآمد کی جاتی اور یوں اس دور میں بھی یہ تہذیب دور دراز کی منڈیوں سے منسلک تھی۔

ایک اندازے کے مطابق میروئی شہر میں 25,000 رہائشی تھے۔ کھدائی سے سڑکوں اور عمارتوں کی باقیات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑا شہر تھا۔ یہاں دریا کے کنارے پر ایک بڑی جیٹی تھی، متعدد محلات اور آمون کا ایک عظیم ہیکل کے ساتھ ساتھ آئیسس کا ایک ہیکل اور اپیڈمک کا ایک مندر تھا۔

"کوشی" باشندوں نے مصر کی تصویری زبان (ہائروگلیفس) کو چھوڑ کر اپنے الگ "میروٹک" اسکرپٹ کا استعمال شروع کیا۔ جس سے "کوشیوں" کی بڑھتی ہوئی ثقافتی آزادی کے ساتھ ساتھ ساتھ مصریوں کے زوال کی بھی تصدیق ہوتی ہے۔

میروئی کا قدیمی شاہی تدفین کا میدان جدید گاؤں" بیگاراویہ" کے ساتھ ہی بکھراپڑا ہے اور یہ کوئی چھ سو سال تک مستعمل رہا۔ "ارکنامیکو" کوشیوں کا پہلا بادشاہ تھا۔

میرو ئی میں تین قبرستان ہیں، شمالی، جنوبی اور مغربی، جس میں 100 سے زائد "اہرام" موجود ہیں۔ شمالی حصے میں بہترین اہرام ہیں، ان میں 30 سے زیادہ ہیں۔ اگرچہ زیادہ تر برباد ہو چکے ہیں، لیکن کچھ اب بھی متاثر کن حالت میں کھڑے ہیں۔ سب سے بڑا اہرام صرف 30 میٹر اونچائی پر ہے، لیکن اس کا افقی زاویہ مصر کے اہراموں کے مقابلے میں زیادہ ڈرامائی ہے جو 70 ڈگری کے قریب ہےاور اس دور میں اتنے افقی زاویے پر تعمیر واقعی ایک عجوبے سے کم نہیں۔ میرو کے اہرام "جبل برکال" کی طرح ہی تعمیر کیے گئے تھے۔ ان اہراموں میں مقتول کو انتھروپائڈ تابوت میں رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ لاشوں کو ممی کردیا جاتا تھا لیکن میروئی میں ابھی تک کوئی ممی نہیں ملی ہے۔

قدیم وجدید کا امتزاج یہ ڈیم آج مملکِ سوڈان کے لئے ایک نعمت ہے جوکہ بجلی کے ساتھ ساتھ زراعت کے فروغ میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

Check Also

Taunsa Barrage

By Zafar Iqbal Wattoo