1.  Home
  2. Blog
  3. Zafar Iqbal Wattoo
  4. Aabi Saal Nama 2022 (1)

Aabi Saal Nama 2022 (1)

آبی سالنامہ 2022 (1)

ہم پاکستان کی آبی تاریخ کے شاید سب سے ظُلمی سال کو الوداع کہنے جا رہے ہیں۔ جس کے پہلے چھ ماہ پانی کی کمی سے لوگ اور جانور مرتے رہے تو اگلے چھ ماہ بارشی سیلابی پانی کی زیادتی سے، اس سال کی شروعات ہی تاریخ کی بدترین خشک سالی سے ہوئی۔ تربیلا ڈیم 22 فروری کوئی ڈیڈ لیول پر آگیا تھا۔ محکمئہ موسمیات کے مطابق اس سال مارچ اور اپریل کے مہینوں میں۔

ملک بھر معمول سے 62 فی صد سے لے کر 74 فی صد تک کم بارشیں ہوئیں اور یہ مہینے گزشتہ چھ دہائیوں کے اب تک کے سب سے زیادہ گرم مہینے تھے۔ گرمی کی شدت کا اندازہ لگائیں کہ مئی میں ژوب کے پاس ضلع شیرانی کے ہزاروں ایکڑ پر پھیکے زیتون اور چلغوزوں کے باغات میں آگ بڑھک اٹھی، جس پر کئی ہفتوں کی کوشش کے بعد ہی قابو پایا جاسکا۔ 10 کلومیٹر لمبائی کا علاقہ راکھ کا ڈھیر بن گیا۔

ہزاروں درخت جل گئے اور اس زیادہ جنگلی حیات مر گئی۔ مارچ اپریل میں ہی سندھ اور پنجاب جے کاشتکار پانی کی کمی کی وجہ سے سڑکوں پر آگئے تھے۔ جب نہروں میں ضرورت کا صرف ایک چوتھائی پانی چل رہا تھا اور خریف کی فصل خصوصاً گندم پانی کی کمی کی وجہ سے تباہی سے دو چار تھی۔ دوسری طرف مئی میں چولستان اور ڈیرہ بگٹی میں لمبی خشک سالی سے پانی کے ٹوبے، کنڈ اور تالاب خشک ہو چکے تھے۔

اور جانوروں کے ریوڑ کے ریوڑ پیاس سے مر رہے تھے اور ان علاقوں کی انسانی آبادی خطرے کو بھانپتے ہوئے ہجرت پر مجبور تھی۔ پیر کوہ میں تو کئی انسانی اموات بھی ہوئیں۔ تاہم سوشل میڈیا پر اس مسئلے کے اجاگر ہونے سے ریسکیو 1122 اور کئی فلاحی تنظمیں متحرک ہوئیں اور ہنگامی بنیادوں پر ان علاقوں میں ٹینکرو سے پانی پہنچایا گیا، یاد رہے کہ پاکستان کا 17 فی صد سے زیادہ زمینی رقبہ صحرا پر مشتمل ہے۔

جس میں صحرائے تھل، چولستان، تھر، نوشکی اور خاران کے علاقے شامل ہیں، جہاں انسان اور جانور خشک سالی سے متاثر ہوئے۔ جہاں ایک طرف خشک سالی اور گرمی کی شدت زور پر تھی وہیں، محکمئہ موسمیات نے اپریل کے آخر میں اس سال ایک ظالم مون سون آنے کی پیش گوئی کر دی تھی۔ جسے زیادہ سنجیدگی سے نہ کیا گیا۔ مئی کے آخر (22مئی) میں چولستان میں تیز بارش اور ژالہ باری ہوئی۔

اور روہیلوں نے اس کا استقبال جشن منا کر کیا۔ تحفظ ماحولیات کی وزیر شیریں رحمان نے بھی 19 جون کی پریس کانفرنس میں اس سال معمول سے زیادہ بارشیں اور 2010 سے بھی بڑا سیلاب آنے کی خبر سنا دی، لیکن خشک سالی کے ماحول میں اس اعلان کو توجہ نہ دی گئی۔ پاکستان میں تمام متعلقہ محکمے ہر سال مون سون کی آمد سے پہلے اپریل مئی تک مون سون سے نپٹنے کے اپنے اپنے منصوبے بنا کر حکومت کو جمع کروا دیتے ہیں۔

لیکن ملک میں اُس وقت جاری سیاسی سرکس کی وجہ سے معمول کا یہ کام بھی صحیح طریقے سے نہ کیا گیا۔ جون کے آخر میں ملک سے سب بڑے شہر کراچی میں طوفانی بارشوں سے سیلابی صورت حال پیدا ہوگئی۔ ہر طرف جل تھل ہوگئی اور پورے شہر کی آبادی کئی دنوں اپنے گھروں میں قید ہوگئی، کیونکہ سڑکوں پر بارش کا پانی کھڑا تھا۔

انہی دنوں میں کراچی میں امان خان کاکاخیل ستون نیکی والے ابھر کر سامنے آئے جو کراچی میں بارشی پانی سے زمینی پانی کو ری چارج کرنے کے انتہائی سادہ اور کسی حد تک بالکل بنیادی مگر بے حد مفید طریقے سے خشک کنوؤں کو تر کرنے کے مشن پر نکلے ہوئے تھے۔ جب ملک کراچی کے ڈوبنے کو دیکھ رہا تھا تو جون کے آخر اور جولائی کے شروع میں میانوالی میں کوہِ نمک اور ڈی جی خان میں کوہِ سلیمان پر ہونے والی۔

طوفانی بارشوں سے پہاڑی نالوں میں آنے والے سیلابی ریلوں نے تباہی مچا دی۔ کرک، لکی مروت اور ڈی آئی خان کے پہاڑوں کے دامن کے علاقے بھی طوفانی ریلوں کی زد میں آگئے، لیکن سرکار ابھی تک بھی سوئی ہوئی تھی اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھ رہا تھا۔

Check Also

Exceptional Case

By Azhar Hussain Bhatti