Thursday, 28 March 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Zafar Bashir Warraich/
  4. Aik Naukri Ka Ishtehar

Aik Naukri Ka Ishtehar

ایک نوکری کا اشتہار

جب 1781ء میں انگریز نے کلکتہ مدرسہ، 1791ء میں سنسکرت کالج، 1793 میں بنگال میں تعلیمی ادارے کا سنگ بنیاد رکھا تو ابتدائی طور پر ان عمارتوں اور نصاب کا مقصد ویسے تو مقامی آبادی کو انگریزی زبان اور کلچر سے کسی حد تک روشناس کرانا تھا لیکن ساتھ ساتھ ایک ایسی کلاس بھی پیدا کرنا تھا، جو آگے چل کر نئے اداروں اور نو تشکیل شدہ حکومتی بندوبست کو مقامی طور طریقوں سے ہم آہنگ کر کے سنبھال اور چلا سکے۔

شروع شروع میں تو عادت کے عین مطابق ایشیائی معاشرے کے ایک بڑے طبقے نے اس تبدیلی کو قبول کرنے سے یکسر انکار کر دیا، اور اس سارے بندوبست کو پہلے مقامی کلچر کے اور پھر مذہب کے خلاف سازش قرار دے کر اس سے جان چھڑانے کی کوشش کی۔ لیکن انگریز اگر اتنا زیرک اور مستقل مزاج نہ ہوتا، تو صدیوں سے برصغیر پر چھائی حکومتوں کو ختم کر کے اگلی کئی صدیوں تک حکومت کیسے کرتا؟

لیکن جب مقامی آبادی کی اس سسٹم میں عدم دلچسپی برقرار رہی تو اسے دیکھ کر انگریز نے 1813 میں باقاعدہ ایک چارٹڈ ایکٹ کے تحت تعلیم کو حکومتی بندوبستی مشنری کا بنیادی پتھر تسلیم کرایا۔ اور اسے مقامی آبادی کے دل و دماغ میں اتارنے کے لیے کئی لاکھ روپے (اس دور میں ایک بڑی رقم) مختص کیے، تو معاشرے کے دور اندیش طبقے نے محسوس کر لیا، کہ آنے والے دنوں میں اس بدیسی دوائی کو چار و ناچار کھانا ہی پڑیگا۔

تعلیمی اداروں کی سندوں (ڈگری) کو معدے اور پیٹ سے جوڑنے کے لئے یہاں سے فارغ التحصیل ہاتھوں ہاتھ لئے گئے اور مقامی آبادی نے پہلی بار "افسر" کا لفظ سنا۔ افسر کی ٹھاٹ باٹھ دیکھ کر مقامی آبادی کی وہ اکثریت جنہیں ان اداروں سے مذہب مخالف بُو آتی تھی وہ بھی اپنے لڑکوں کو کان سے پکڑ کر ان تعلیمی اداروں میں جمع کروانے لگے۔

پھر صدیوں کے ارتقائی عمل اور تجربات نے تعلیمی اداروں اور ان کی ڈگریوں کی اہمیت سے انسان کو روشناس کر دیا، سوچ، پلاننگ، مستقل منصوبہ بندی سے سفر، تعلیم اور پھر تعلیم کو پیٹ اور معدے سے منسلک کر کے انگریز نے اپنی صلاحیت کو ثابت کر دیا، آج جس کام کے انگریز کے شروع کرنے پر ہمارے آباؤ اجداد جُز بُز ہوتے تھے، وہی کام ہم خود پوری نیک نیتی اور اپنی منتخب کردہ حکومتوں کی سرپرستی میں کر رہے ہیں۔

اتنی لمبی رام لیلا سنانے کی وجہ 7 اگست 2022 بروز اتوار کو قومی سطح پر شائع ہونے والے اردو روزنامے کا ایک اشتہار بنا۔ اس اشتہار نے مجھے صدیوں سے جاری تعلیمی سلسلے کے مستند اور معاشرتی طور پر کارآمد ہونے پر شبہے میں مبتلا کر دیا ہے۔ یہ اندرون سندھ کے ایک چھوٹے شہر پنوعاقل میں قائم ٹیکنیکل ایجوکیشن کے ادارے کا اشتہار ہے۔ جہاں کمپیوٹر سکھانے کے لیے مرد و خواتین سے درخواستیں مطلوب ہیں۔

اس اشتہار میں امیدواروں کی اہلیت بیچلر ڈگری کے ساتھ ساتھ کمپیوٹر ڈپلومہ مانگی گئی ہے۔ جبکہ کسی بڑے ادارے سے 3 تا 5 سالہ تجربہ بھی اس سِیٹ کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے۔ اس اشتہار کی اچھی بات یہ ہے کہ اس میں ماہانہ تنخواہ بھی درج کر دی گئی ہے۔ اور تنخواہ رکھی گئی ہے بیس ہزار روپے۔ میں نے پہلی بار تنخواہ پڑھی تو مجھے یقین نہیں آیا لیکن میں نے دو تین بار پورے دھیان سے صفر کے ہندسے گنے تو وہ بیس ہزار ہی لکھا تھا۔

کیا بیس ہزار تنخواہ پانے والا اپنے گھر کا نظام چلا سکے گا؟

اگر اس کا مکان کرائے کا ہو، اسکے دو چار بچے اور ایک عدد بیوی ہو یا اسکے بوڑھے ماں باپ بھی چارپائی پر دوائی کا انتظار کر رہے ہوں، یا خود اسے نوکری پر جانے کے لئے روز صاف کپڑے درکار ہوں، یا اسکے بچے کبھی کبھی کے ایف سی، مکڈونلڈ تو چھوڑ ٹھیلے والے برگر کا تقاضہ ہی کر دیں، یا اسکے بچے میٹھی عید پر نئے کپڑوں اور بڑی عید پر چھوٹے موٹے بکرے کا تقاضہ کر دیں۔

یا اسکی موٹر سائیکل (اگر ہو تو) روزانہ پیٹرول کے چند قطرے مانگ لے اور نہ ملنے پر ضد کر جائے، یا اسکی بیوی کبھی کبھار اپنے پچھلوں کو ملنے کا تقاضہ کر دے، یا اسکا دل سال دو سال میں کبھی مری وغیرہ یا کسی پر فضا مقام پر جانے کے لئے مچل جائے، یا اسکے بیوی بچے مہینے میں ایک بار بکرے یا کسی اور جانور کے گوشت کی عیاشی مانگ لیں، یا ہر مہینے بجلی کا بل اسکا منہ نہ چڑائے۔

اگر یہ تمام اور دوسری معاشرتی ذمہ داریاں نہ ہو تو سمجھ میں آتا ہے کہ یہ تنخواہ بہت بڑی رقم ہے۔ ہاں اگر اس اشتہار میں اس بات کا اضافہ کر دیا جاتا کہ خبردار امیدوار شادی شدہ نہیں ہونا چاہئیے اور مستقبل میں بھی اسکا ایسا کوئی غلط ارادہ نہ ہو، درویش صفت ہو، فاقہ کشی میں بھی چار پانچ سال کا تجربہ رکھتا ہو تو اس سے آدھی تنخواہ میں بھی اچھے فرمانبردار امیدوار مل سکتے تھے۔

انسانی جسم میں لگا یہ پرزہ جسے ہم پیٹ کہتے ہیں، کم بخت ہر چار چھہ گھنٹے بعد کچھ نہ کچھ مانگتا رہتا ہے۔ اب اس میں گندم چاہے ٹنڈو آدم کی جائے یا کسی امریکی زرعی فارم کی اسے کوئی مطلب نہیں۔ کیونکہ اگر یہ خالی ہو تو دوسرے تمام جسمانی پرزے بیکار ہو جاتے ہیں اور اگر یہ بھرا ہوا ہو تو ہر پرزے کی شان نرالی ہوتی ہے۔ ترنگ، امنگ، چستی، رومانیت، حساسیت سب اسی بھرے پیٹ کے اتار چڑھاؤ سے منسلک ہیں۔

پھر اگر کوئی تعلیمی ڈگری کسی کے پیٹ کے عذاب کو ٹالنے اور خاندان کی گاڑی دھکیلنے سے انکار کر دے تو سالوں کی تپسیا اور کئی راتیں کالی کر کے حاصل کی گئی ایسی تعلیمی ڈگری کا کیا فائدہ؟

Check Also

Shah e Iran Ke Mahallat

By Javed Chaudhry