Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umme Talha
  4. Zindagi Bas Arzi (1)

Zindagi Bas Arzi (1)

زندگی بس عارضی(1)

میری دوست کے ایک نہایت نیک، پرہیزگار اور قابل احترام استاد ہیں، انکا چھوٹا بیٹا دس سال کی عمر تک مجھ سے پڑھتا رہا ہے۔ انکی بیٹی سے اچھی سلام دعا ہے، والدہ کی وفات کے بعد اکثر اوقات میں ملنے چلے جاتے ہیں۔ اس دن بھی ہم نے بریانی بنائی سوچا رابعہ کے ساتھ مل کہ کھائیں گے۔ گھر کے سامنے پہنچے تو اونچی اونچی آواز میں قاری صاحب کے بولنے کی آواز آئی۔

میں پریشان، کہ قاری صاحب تو بہت دھیمے لہجے میں بات کرتے ہیں، آج اللہ خیر کرے۔ ابھی دروازہ کھٹکھٹانے کا، اندر جانے یا نہ جانے کا سوچ ہی رہے تھے کہ دروازہ کھول کہ قاری صاحب کا بیٹا سرخ آنکھیں لیے باہر نکلا یہ میرا ہونہار شاگرد تھا فرمانبردار، لائق، ہر لحاظ سے قابل فخر بیٹا اور شاگرد باجی جی، اندر چلی جائیں میں پریشانی کے عالم میں گھر میں داخل ہوئی۔

استاد محترم سر پکڑ کر چارپائی پر بیٹھے تھے ہم نے سلام کیا اور جھجھکتے ہوئے میں نے پوچھا، استاد محترم، آپ ٹھیک ہیں؟ میرے یہ پوچھنے کی دیر تھی کہ غصے سے بولے جسکی اولاد نافرمان ہو وہ کیسے ٹھیک رہ سکتا ہے؟ سعد نے جینا مشکل بنا دیا، سعد نے؟ میں حیران رہ گئ وہ اتنا فرمانبردار بچہ، اپکو غلط فہمی ہوئی ہو گی اپنے ذہین اور فرمانبردار شاگرد کے حوالے سے یہ الفاظ سننا میرے لیے ایک جھٹکا تھا۔ بیٹھیں۔

استاد محترم کی بیٹی آئیں اور کہا، آج اس مسئلہ کو حل کر جائیں نہ سعد پیچھے ہٹتا ہے نہ ابا جان مانتے ہیں۔ استاد محترم کی طرف دیکھا بزرگ انسان، آنکھوں سے آنسو بہ رہے، بےچینی سے ہاتھوں کو مسل رہے اتنی بےچارگی تو تب بھی نہ دیکھی۔ جب تیس سالہ رفاقت کی باوفا باوقار صابر زوجہ محترمہ کا ساتھ ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر چھوٹا، بیٹا۔

آپ جانتی ہیں میں نے کن حالات میں بچوں کو پڑھایا ان کے اخراجات پورے کیے، جو تکالیف میں نے اٹھائیں میں نہیں چاہتا میرے بچے بھی انہی حالات کا سامنا کریں، آج سعد کہ رہا ہے میں نے درس نظامی کا کورس کرنا ہے میں اجازت نہیں دے رہا، وہ گھر گھر جا کر پڑھا کر اخراجات پورے کرنا چاہتا ہے میں اجازت نہیں دے رہا میں چاہتا ہوں وہ میتھ پڑھے وہ سائنس پڑھے وہ انگلش پڑھے وہ کمپیوٹر پڑھے مگر درس نظامی نہ کرے مگر وہ نہیں مان رہا اور اگر اس نے میری بات نہ مانی تو میں اسے عاق کر دوں گا۔

قاری صاحب، میرے منہ سے بمشکل سرگوشی نکلی، یہ آپ کہ رہے ہیں؟ آپ تو کہتے ہیں ہر گھر میں ہر بچے کو دین کا علم ہونا چاہیے، ہر مسلمان گھر اسلام کا علم سیکھے آپ اپنی ہی اولاد کو اس علم سے منع کر رہے ہیں۔ ہاں کہا تھا، مگر جب علم صرف ملا کے گھر میں ہوگا، جب عام انسان اس دین کی اہمیت نہیں سمجھے گا تو ہم اسی تحقیر کا نشانہ بنتے رہیں گے جنکا سامنا میں کئی سالوں سے کر رہا ہوں۔

میں بچہ تھا، جب میرے باپ نے دین کی محبت میں مجھے مدرسے داخل کر دیا سبق یاد نہ ہوتا تو مار سے جسم پہ پڑے نشانات کو رات کو بستر میں ٹکور کرتا رہتا، بالٹی لے کر گھر گھر جا کر کھانا مانگتے، وہ دن عید کا ہوتا جب کوئی اللہ کا بندہ اپنی نذر پوری کرنے کے لیے، اپنے کالا دھن کو سفید کرنے کے لیے اچھا کھانا ہم مدرسے والوں پہ صدقہ کرتا، غرض وہ ساری تکالیف سہیں، جو دین کے راستے میں ایک طالب علم کو جھیلنی پڑتی ہیں۔

میرے تایا نے اپنے بیٹے کواچھے سکول میں داخل کروایا وہ پڑھ لکھ کر ایک اچھے ادارے میں سرکاری ملازم ہوا میں مدرسے سے فارغ التحصیل ہو کر اسی مدرسے میں پڑھانے لگا تنخواہ کے نام پر کھانا اور عید کے عید لباس دیا جاتا رہا میرا کزن سرکاری ملازم لگ گیا گھر پکا ہو گیا۔ اچھے اور اونچے خاندان میں رشتہ ہو گیا، ہاں ایک فرق یہ بھی آیا کہ خاندان کی عوتوں میں اسے لازمی بلایا جاتا رہا جب کہ ہمارے گھر ساتھ ساتھ تھے ہر شادی پہ اسے دعوت نامے عزت و تکریم سے پیش کیے جاتے۔

جب کہ ابا جان کو دروازے سے ہی شادی میں آنے کا سرسری سا پیغام دیا جاتا۔ وقت گزرتا گیا والد صاحب ہارٹ اٹیک سے وفات پا گئے تایا نے یہ کہ کر مکان پر قبضہ کیا کہ تمہاری بہن کی شادی پر قرضہ لیا تھا یا وہ ادا کرو یا گھر دو میں ایک مدرسے کا استاد اتنی بڑی رقم کہاں سے لاتا خاموشی سے مدرسے واپس آ گیا۔ ایک استاد محترم کی نیک سیرت صاحبزادی سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوا زندگی میں اس حد تک آسانی آئی کہ رہنے کو مدرسے میں کمرا مل گیا کھانا ابھی بھی مدرسے کے طعام خانہ سے ملتا تھا۔

اللہ نے جب پہلی اولاد سے نوازا تب فکر ہوئی کہ آمدن میں اضافہ کیا جائے۔ مدرسے کو خیر باد کہا کرایہ پر گھر لیا سکولوں میں گیا اچھا تعلیمی ریکارڈ تھا سوچا ہاتھوں ہاتھ لیا جاؤں گا مگر اسلامیات کی آسامی اردو کے اساتذہ کے ہاتھوں بھری جا چکی تھیں۔ کہیں نوکری پہ رکھا گیا تو تنخواہ اتنی قلیل کہ رہائش اور خرچہ ناممکن، آخر سوچا کہ ٹویشن پڑھانا شروع کروں۔

سارا مہینہ جوتیاں گھسا کر پہلی ٹویشن اتنی ملی کہ اگلے مہینے کے لیے جوتے لے سکوں سوچا ایک ٹویشن سے کام نہیں بننے والا سکول سے واپس آتا ٹویشن پر ٹویشن پڑھاتا رہتا، ہاں رات نو بجے تک پڑھانے کا اتنا فائدہ ہوا کہ زندگی کی گاڑی رواں ہو گئ، ساتھ ساتھ کسی مسجد میں امامت کا پتہ کرتا رہا، ہاں جو پڑھایا ایمانداری سے پڑھایا مگر جنہوں نے پڑھوایا وہ خود انصاف کا درس بھول گئے۔

جب بھی کسی کے دروازے پہ جاتا کتنا کتنا وقت دروازے پہ انتظار کرتا رہتا جب صاحبزادگان کا موڈ بن جاتا اندر بلایا جاتا بعض لاڈلے بچوں کو پڑھانا جان جوکھوں میں ڈالنا ہوتا، میں جب مدرسے سے فارغ التحصیل ہوا تو ایک وعدہ کیا تھا کہ بچوں کو دین سے محبت سکھاؤں گا انہیں دیں کی قدر سکھاؤں گا ہمارا دیں اتنا سستا نہیں مار سے نہیں محبت اور عقیدت سے پڑھاؤں گا کہ ہم اپنے گمشدہ عہد کو دوبارہ حاصل کر سکیں۔

مگر میرے حوصلے ہر بار یہ ماڈرن ازم کے مارے لوگ توڑ ڈالتے، میں نے شروع شروع میں گھر کے مرد حضرات کو بٹھانا شروع کیا، ابھی میری بات شروع ہوئی کہ والد محترم نے بچوں کے سامنے کہا، قاری صاحب، آپ بس بچوں کو جلدی سے قرآن پڑھا دیں اب اتنا وقت نہیں ہوتا کہ ان باتوں پہ بحث کریں، میں حیرت سے انکا منہ تکتا رہ گیا کہ اس دین کے لیے ایک مسلمان کے پاس وقت نہیں جب کہ یہی صاحب جم کلب میں کئ کئ گھنٹے گزار دیتے ہیں۔

Check Also

Pakistani Ki Insaniyat

By Mubashir Aziz