Hum Hi Ibn e Qasim O Motasim Hain (1)
ہم ہی ابن قاسم و معتصم ہیں (1)
اس نے کتاب سے نگاہ ہٹا کر کھڑکی سے باہر دیکھنے کی کوشش کی، تاحد نگاہ اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ وہ کچھ دیر اندھیرے میں چاند، ستاروں اور جگنوؤں کی آس لگائے گھورتی رہی مگر پھر اس کی شکست خوردہ نگاہیں پلٹ کر ایک بار پھر کتاب کی سطروں پر مرکوز ہوگئیں۔
مگر یہ کیا؟ یہ کیسی کتاب تھی؟ اس کا وجود صفحوں میں لپٹتا ہوا دور کہیں ماضی میں پہنچ گیا تھا۔
یہ ایک بازار تھا، لوگ جگہ جگہ ٹولیوں میں کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ "ابو القاسم کو یہاں آئے دو سال ہو گئے ہیں"۔ ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا۔ "ابو القاسم! ابوالقاسم تو رسول اللہ ﷺ کی کنیت ہے"۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ آنکھیں نجانے کیوں بھیگ گئیں۔
"ہاں! اس کی آمد کے بعد تو اوس اور خزرج آپس کی دشمنی بالکل ہی بھول گئے ہیں۔ بس یہ تو بے وقوفوں کی طرح اس پر ایمان لے آئے ہیں"۔
"اوس اور خزرج"، " انصار مدینہ"، اس نے خود کلامی کی۔
میں کس دور میں، کہاں پہنچ گئی ہوں؟ اس نے ہتھیلیوں سے اپنی آنکھیں ملیں اور گھوم پھر کر اس جگہ کا جائزہ لینے لگی۔ یہاں سناروں اور لوہاروں کی دکانیں تھیں۔
"اچھا! تو یہ یہودی قبیلے بنو قینقاع کا بازار ہے اور میں چودہ سو برس پیچھے ماضی میں ہوں"۔
وہ ابھی یہی سوچ رہی تھی کہ ایک پردہ دار خاتون ایک سنار کی دکان میں داخل ہوئیں۔ سنار نے نگاہ خاتون پر ڈالی تو حیا کی یہ جھلک شیطان کے پیروکار کو اچھی نہ لگی۔ "ذرا چہرے سے نقاب تو ہٹاؤ"۔ اس نے خاتون کو گھورتے ہوئے کہا۔
صدیوں پہلے بھی حق و باطل کی یہی کشاکش تھی جو آج بھی جاری ہے۔ انہیں کے جانشین ہیں جو کبھی عزت مآب مروا الشربینی کو شہید کرتے اور کبھی مسکان خان کو ستاتے نظر آتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں دور جدید جھلک رہا تھا۔
"نہیں!" خاتون کے لہجے کی قطیعت میں جیسے یہ پیغام چھپا تھا۔
مثالِ سیپ میں موتی، مجھے رب قیمتی سمجھے
مجھے اپنی قدر افزائی پہ مغرور رہنے دو
مجھے مستور رہنے دو
ارے یہ کیا، خبیث سنار نے چپکے سے خاتون کی چادر کا کونا کسی چیز سے باندھ دیا تھا۔
اففففف، وہ جیسے ہی اٹھیں، چادر اتر گئی اور وہ بے پردہ ہوگئیں۔ آس پاس کھڑے یہود کا قہقہہ فضا میں بلند ہوا۔ ان خاتون کی بے بسی پر جہاں اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئی تھیں وہیں قریب سے گزرتے ایک مسلمان کی غیرت بھی جوش کھا گئی تھی۔
مسلمان عورت جنس ارزاں نہیں اس امت کا مرکز ہے، اس کی قوت اور طاقت ہے، امت نے حق کے سپاہی اس کی گود میں پروان چڑھانے ہیں، اس کا مقام بلند تر ہے، جو ہاتھ اس کی بے حرمتی کے لیے بڑھیں گے، کاٹ دیے جائیں گے۔
موقع پر موجود مسلمان اس خبیث یہودی سے لڑ گیا تھا۔ اللہ اللہ! امت کی عصمت کے لیے اس نے جان لے بھی لی تھی اور دے بھی دی۔ مسلمانوں اور یہودیوں میں تصادم ہوگیا تھا، خبر پیغمبر برحق تک پہنچ گئی تھی۔ وہ ﷺ آئے تھے یہود بنو قینقاع کو سمجھانے، مگر ہٹ دھرمی اور ضد میں تو دشمن خدا حد سے بڑھتے ہی چلے جا رہے تھے۔ اعلان جنگ ہوگیا تھا۔ وہ جو خود کو میدان حرب کہتے تھے مسلمانوں کے خوف سے پندرہ دن قلعہ بند رہنے کے بعد سہولویں دن ہتھیار ڈال چکے تھے۔ دختر اسلام کی چادر کھینچے کی پاداش میں سرزمین مدینہ ان کے پاؤں تلے سے کھینچ لی گئی تھی۔
ہوا سے کتاب کے ورق الٹ گئے تھے اور ان اوراق نے اسے واپس حال میں لا پھینکا تھا۔ کرسی کی پشت سے ٹیک لگائے وہ تھوڑی دیر جھولتی رہی۔ مسلمان عورت اپنے گھر کی ملکہ ہے، گھر اس کا مورچہ اور انسانوں کی تربیت اس کا اولین فریضہ، انسان بناؤ تم جیسے
تہذیب بھی ویسی بنتی ہے
تہذیب ہے عورت کے بس میں
وہ کیسی نسلیں جنتی ہے
وہ کیسے مرد بناتی ہے
وہ کیا اخلاق سکھاتی ہے
کیا جذبے آخر گھول کے وہ
بچے کو دودھ پلاتی ہے
کس کیفیت کی مستی میں
وہ میٹھی لوری گاتی ہے
مسلمان عورت ہونا جہاں ایک بہت بڑا اعزاز ہے وہیں یہ اعزاز ایک بھاری ذمہ داری کا متقاضی بھی ہے۔ انسانوں کو انسان بنانے کی ذمہ داری۔ اس کی نگاہیں ایک بار پھر کھلی کتاب کے صفحے پر بکھری لکیروں پر آن ٹھہری تھیں، عجب کتاب تھی اوراق نے اسے لپیٹ کر پھر کہیں لا پھینکا تھا۔
عجیب منظر تھا۔۔ زناٹے دار تھپڑ کی گونج کے ساتھ ایک فریاد بلند ہوئی تھی۔۔
"ہائے خلیفہ معتصم تم کہاں ہو؟"
فریاد کے بلند ہوتے ہی تمسخر بھرے قہقہوں سے فضا بھر گئی تھی۔
قہقہوں کے اختتام پر فریاد بلند کرنے والی کو ایک اور تھپڑ رسید کیا گیا اور مذاق اڑاتے ہوئے کہا گیا: "معتصم باللہ اس پکار کا کیوں کر جواب دے سکتا ہے! آیا وہ چتکبرے گھوڑے پر سوار ہوکر تیرے پاس آئے گا اور تیری مدد کرے گا؟"
"خلیفہ معتصم!" پکارنے والی خلیفۃ المسلمین کو پکار رہی تھی اور بھلا کیوں نہ پکارتی؟ آخر ایک بیٹی اپنے تحفظ کے لیے باپ ہی کو تو آواز دیتی ہے اور خلیفہ امت واحدہ کے لیے مثل باپ ہی تو ہے۔ وہیں کہیں ایک گھڑ سوار بھی موجود تھا جو اسی کی طرح اس واقعہ کا چشم دید گواہ تھا۔
"میں اس مظلومہ کی پکار خلیفہ تک پہنچاؤں گا"۔ گھڑ سوار بغداد کی جانب اڑا چلا جا رہا تھا۔
وہ بھی اس کے ساتھ لمحوں پر سفر کرتی خلیفہ کے دربار میں تھی۔
واقعہ سن کر خلیفہ کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا تھا۔ اس نے رخ عموریہ کی جانب موڑا اور پختہ عزم سے کہا: "میں تیری آواز پر حاضر ہوں اے میری بیٹی، معتصم تیری پکار کا جواب دینے آرہا ہے"۔
خلیفہ کے حکم پر عموریہ کے لیے بارہ ہزار چتکبرے گھوڑے تیار کروائے جا چکے تھے اک لشکر جرار عموریہ کی سمت بڑھ رہا تھا۔ قریبا 55 دن کے محاصرے کے بعد عموریہ مسلمانوں کے پرچم تلے تھا۔
مسلم خاتون کو تھپڑ کا قصاص کیا دلوایا گیا گویا عالم رنگ و بو میں رنگ و خوشبو بن کر یہ پیغام ہر سمت سفر کر گیا کہ امت محمدیہ ﷺ اپنے گھر کے قلعے کی نگہبان کی نگہبانی کرنا خوب جانتی ہے۔
کتاب کے اوراق نے ایک چمکتا دمکتا منظر دکھا کر اسے پھر حال میں پہنچا دیا تھا۔ وہ ایک بار پھر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ کیسی سیاہ رات تھی؟ ہر جانب گہرے اندھیرے کا راج تھا۔ اسے وحشت ہونے لگی۔ اس کی نگاہیں پلٹ کر پھر اوراق میں سے روشنیاں تلاش کرنے لگیں۔
دربار سجا ہوا تھا۔ راجا کے سامنے ہیرے و جواہرات اور قیمتی تحائف لائے جا رہے تھے۔
"عالی جاہ! یہ سب تحائف گورنر حجاز حجاج بن یوسف کے لیے آپ کے حکم پر تیار کروائے گئے ہیں"۔ ایک مشیر نے ادب کے ساتھ راجا کو بتایا۔
"ہممم، تحائف خوب ہیں اور ہونے بھی چاہئیں۔ ہم گورنر حجاز کے ساتھ اپنے مراسم مضبوط کرنا چاہتے ہیں"۔
"یہ تحائف ان تک کیسے پہنچائے جائیں گے؟" راجہ نے استفسار کیا۔
"کچھ مسلمان خاندان حج بیت اللہ کے لیے بحری جہاز سے جا رہے ہیں ان کے ساتھ بجھوائے جائیں گے"۔ مشیر نے مستعدی سے جواب دیا۔
"خوب، انہیں کے ساتھ پچھلے دنوں جو مسلمان خاندان بحری حادثے کا شکار ہوئے ہیں ان کی عورتیں اور بچے بھی سوار کروا دو کہ وہ عراق اپنے عزیز و اقارب سے جا ملیں"۔ لنکا کے راجہ نے حکم نامہ جاری کرتے ہوئے دربار برخاست کر دیا تھا۔