Dehshat Gard Kon?
دہشت گرد کون؟
یہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جہاں امی جان کو باسم کے بڑے بھائی نضال رازداری کے ساتھ کچھ بتا رہے تھے۔ وہ اس کمرے سے رخصت ہوئے تو ان کے ہاتھ میں ایک لفافے میں دیسی ساخت کا ایک بم تھا۔ باسم جانتا تھا وہ بہت احتیاط سے باہر سڑک پر چلیں گے اور جیسے ہی انہیں اپنے علاقے میں کوئی اسرائیلی جیپ نظر آئے گی وہ یہ بم اس پر پھینک دیں گے۔ "یہ کوئی زندگی نہیں ہے۔ میں وقار اور امن کے ساتھ جینا چاہتا ہوں۔ سکول جانا چاہتا ہوں کھیلنا چاہتا ہوں۔ " تیرہ سالہ باسم کے حلق میں آنسوؤں کا ایک گولہ اٹک گیا تھا۔
قریب ہی اس کی دو سالہ چچا زاد بہن خلیلہ کسی کاغذ کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ خلیلہ یہ مجھے دو! باسم نے ہاتھ آگے بڑھایا تو خلیلہ اسے کاغذ تھما کر آگے بڑھ گئی۔ باسم نے اپنے کرتے کی جیب سے ایک چھوٹی سی پینسل نکالی اور دیوار سے ٹیک لگا کر کاغذ پر لکھنے لگا۔ میری دادو بتاتی تھیں ہمارے زیتون کے باغ ہرے بھرے تھے، ان میں پرندے چہچہاتے پھرتے تھے۔ ہاں، وہاں پھول بھی کھلے ہوئے تھے اور تتلیاں بھی رقص کرتی تھیں۔
میرے دادا جب اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹاتے تھے تو سفید کبوتر، سبز طوطے اور بھوری چڑیاں جھانک کر جھولے میں سوئے میرے بابا کو گیت گا کر جگاتے تھے مگر پھر اک زلزلہ آیا وہ زلزلے کی تاریخ بھی اکثر بتاتی تھیں ماتھے پہ ہتھیلی اپنی رکھ کر کہتں مئی کا وہ مہینہ تھا نصف دن گزر چکے تھے، نصف آنے والے تھے۔ ہاں پندرہ تاریخ تھی بیٹا اور سال، سال 1948 تھا۔ میرے بچے سنو! 15 مئی 1948 کو اک زلزلہ ارض مقدس پر آیا تھا وہ ہر جانب تباہی ہی تباہی کی کہانی لکھ کر لایا تھا۔
مہلک ہتھیار، خنجر اور تلواریں اسلامیان فلسطین کے جسموں کے آر پار ہوتی تھیں۔ مرد و زن، بچے بڑے بوڑھے، کھیتیاں کھلیان اور جانور بیچارے امن کہیں نہ پاتے تھے۔ سپلائی لائنیں پانی کی زہر آلودہ کر دی گئیں تھیں جب دادو بتاتی تھیں ہمارے زیتون بکھر گئے تھے سب پرندے ڈر کے اڑ گئے تھے سب۔ میرے بابا کا جھولا بھی ٹوٹا پڑا تھا اک طرف۔ میری دادو اس دن کو یوم نکبہ بتاتی تھیں۔ دادو بتاتی تھیں بتاتی تھیں بتاتی تھیں اور پھر چپ ہو جاتی تھیں۔
میں آج 3 جولائی 2023 میں جنین کے پناہ گزیں کیمپ میں بیٹھا خود کو اسی زلزے کی زد میں پاتا ہوں۔ UNO کی ایجنسی انروا بتاتی ہے یہ کیمپ 0۔ 42 مربع کلومیٹر میں سمٹا چودہ ہزار فلسطینیوں کے لیے اک جیل جیسا ہے جہاں ہم نہ جیتے ہیں نہ مرتے ہیں۔ سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر تہہ بہ تہہ سیاہ راکھ تلے ہمارے ہنسنے پڑھنے اور کھیلنے کے سب خواب دبتے ہی جاتے ہیں۔ للہ میرے کان اور دل اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں سے پھٹتے جاتے ہیں۔
یہ دنیا کسے دہشت گرد بتاتی ہے؟ میں سمجھ نہیں پاتا۔ وہ جو دوسروں سے گھر اور زندگیاں چھین لیتے ہیں، امن کے داعی کہلائیں اور جو اپنی جان اور گھر کی حفاظت میں لڑیں دہشت گرد کہلائیں۔ مگر میں کچھ نہیں جانتا نہ جاننے کی کچھ خواہش ہی باقی ہے۔ میں بس ہنسنا، کھیلنا اور پڑھنا چاہتا ہوں۔
باسم! باسم خلیلہ کہاں ہے؟ چچی جان گھبرائی ہوئی باسم کو پکار رہی تھیں۔
خلیلہ ابھی تو یہیں کھیل رہی تھی میں دیکھتا ہوں باسم جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا تھا۔
کاعذ زمین پر آ گرا تھا البتہ پینسل باسم نے اپنی انگلیوں میں دبا رکھی تھی۔ وہ تیز تیز قدموں سے باہر نکلا اسرائیلی فوجیوں نے سارے علاقے پر دھاوا بول رکھا تھا۔ ہر جانب گولیوں اور گیس بموں سے فائرنگ ہو رہی تھی۔ ایمبولینسز اور صحافیوں کو جنین میں داخل ہونے سے روک دیا گیا تھا۔ ایک اسرائیلی بلڈوزر ہسپتال کے قریب گاڑیوں اور دکانوں کو تباہ کر رہا تھا۔ مگر باسم کو اس سب سے کچھ سروکار نہیں تھا اس کی نگاہیں چاروں جانب پھیلے کالے سیاہ دھوئیں میں خلیلہ کو ڈھونڈ رہی تھیں۔
"خلیلہ" وہ وہاں سامنے تھی۔ "خلیلہ، وہ تیزی سے اس کی جانب دوڑا"۔ "بھائی" خلیلہ کی آنکھوں میں دھواں اور آنسو بھرے ہوئے تھے گیس شیلنگ کے باعث اس کا دم گھٹ رہا تھا سانسیں اکھڑ رہی تھیں۔ وہ باسم کے سامنے چکرا کر گر گئی تھی۔ باسم کا اپنا دم بھی گھٹ رہا تھا سامنے سے اسرائیلی فوجیوں کی جیپ آ رہی تھی۔ خلیلہ کے قاتل۔ اس کی انگلیوں میں دبی پینسل گر گئی تھی۔ اس نے میکانکی انداز میں قریب ہی پڑے ایک پتھر کو زور سے جیپ کا نشانہ لے کر مارا۔ جیپ کے سامنے کا شیشہ چکنا چور ہوگیا تھا اور بزدل اسرائیلی دہشت گرد فوجی دہشت گردی کے جرم میں باسم کو گرفتار کر رہے تھے۔