Science Ke Bare Musalmano Ke Tasawwurat
سائنس کے بارےمسلمانوں کے تصورات
1983 میں کویت میں اعلی سطح کی کانفرنس منعقد ہوئی، اس کانفرنس میں 17 عرب یونیورسٹیوں کے سربراہان نے شرکت کی، یہ کانفرنس بلانے کا مقصد یہ تھا کہ "دنیائے عرب میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی راہ میں حائل رکاوٹوں کی نشاندہی کی جائے" لیکن کمال تب ہوا جب پوری کانفرنس کی کارروائی پر صرف ایک ہی سوال چھایا رہا "کیا سائنس اسلامی ہے؟ " سعودی مندوبین کا موقف یہ تھا کہ "خالص سائنس معتزلہ رجحانات پیدا کرتی ہے اس لئے ایمان و ایقان کے لئے نقصان دہ ہے، سائنس ناپاک ہے کیونکہ یہ دنیاوی ہے اس لئے یہ اسلامی عقائد کے خلاف ہے" یہی وجہ ہے کہ اس کانفرنس میں سعودیوں نے سفارش کی تھی کہ "ٹیکنالوجی کو ترقی دے کر اس سے فائدہ اٹھایا جائے لیکن خالص سائنس کی حوصلہ افزائی نہ کی جائے" سائنس اور ٹیکنالوجی کے معاملے میں مسلم ممالک کہاں کھڑے ہیں یہ جاننے کے لیے اس کانفرنس کا احوال جان لینا ہی کافی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کو ناپاک قرار دینے والے عرب اپنا تیل، قدرتی گیس اور جیوٹ نکالنے کے لیے بھی سائنس کے محتاج ہیں۔
سائنس کو ناپاک کہنے یا معتزلہ رجحانات پیدا کرنے کی حامل قرار دینے جیسے نظریات دراصل مسلمانوں کی سائنسی پستی کی وضاحت کرنے کے لئے پیش کئے جاتے ہیں، اس قسم کے دلائل سے ہم دنیا کو قائل نہیں کرسکتے، یہ بھیگی دلیلیں اجتماعی عزت نفس کے زخموں پر مرہم کا کام نہیں کرسکتیں، سائنس اور سائنسدان آج دنیا کی بہت بڑی حقیقت بن چکے ہیں اور ہم چاہ کر بھی اس حقیقت کو جھٹلا نہیں سکتے، ہم نے سائنس سے دور بھاگنے اور سائنسدانوں سے نفرت کیلئے عجیب وغریب عقیدے گھڑ رکھے ہیں مثلا: چند دن پہلے ایک صاحب کہنے لگے "ہر وہ خیال، انداز، نظریہ، عادت، فکر، سوچ، فلسفہ اور سائنس جو مذہب بیزاری پیدا کرے ہمیں اس سے دور رہنا چاہیے" اکثر لوگ آپ کو یہ کہتے ملیں گے "آپ اپنے سائنس دانوں پر فخر کیجئے اور ہم اپنے عقیدوں کے تحت اکابرین اور مسلمین کی کاوشوں کو سراہتے رہیں گے"، "سائنس ملحدین کی دنیا ہے، یہ لوگ خدا کو تسلیم نہیں کرتے اور ایسے لوگ جو خدا کو نہیں مانتے ہمارا ان سے کوئی تعلق نہیں " ان کا خیال ہوتا ہے کہ "تحقیق کے بعد ان کو خدا کے وجود پر بیشمار عقلی دلائل اور نشانیاں ملتی ہیں مگر اس کے باوجود یہ خدا کو تسلیم نہیں کرتے" کچھ فرما رہے ہوں گے "سائنس قرآن کے مطابق نہیں چناچہ ہم اس کو تسلیم نہیں کرتے" ہمارا یہ "مذہبی خبط" ہے جو سائنس کو مسلم ممالک میں پروان نہیں چڑھنے دیتا، ہم چاہتے ہیں کہ سائنس کو ہماری خواہش اور ہمارے مذہب کے مطابق چلایا جائے، یہ مکمل اسلامی ہو، اس کے تمام اصول اور تمام قاعدے مذہبی بنیادوں پر تعمیر کیے گئے ہوں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اگر سائنس مذہبی بھی ہو تو آخر کس مذہب کی، کیا یہ سائنس اسلامی ہو، عیسائی ہو، یہودیت یا ہندو مذہب کی بنیادوں پر تشکیل دی گئی ہو؟ چلیں ہم اسلامی سائنس کی بات کرلیتے ہیں مگر وہاں بھی یہ کسی فرقہ کیلئے مناسب اور کسی کے لئے ناگوار ہوگی۔
کسی کو بریلوی سائنس پسند ہوگی اور کسی کو دیوبندی سائنس، کوئی وہابی سائنس پر اعتراض کررہا ہوگا اور کوئی شیعہ سائنس کا متقاضی ہوگا، کسی ایک فریق کی بات مان لینے کی صورت میں سائنسدان باقی دنیا کے تمام مذہبی ٹھیکیداروں کو ناراض کر بیٹھیں گے اور اس ناراضگی کی صورت میں آپ کی وہابی یا دیوبندی سائنس دنوں کی مہمان ثابت ہوگی! گویا معلوم ہوا "اگر آپ نے سائنس کا ستیاناس کرنا ہے تو اس کو "مذہبی عبایہ" میں سجادیں، ہمیں اس بات کی سمجھ کیوں نہیں آتی "مذہب اور سائنس دو الگ الگ شعبے ہیں، ان دونوں کے کام کرنے کے طریقہ الگ ہیں " آپ ان دونوں کو الگ ہی رہنے دیں، ہم جب بھی سائنس کو مذہب یا مذہب کو سائنسی رنگ دینے کی کوشش کریں گے ہمیں شدید ناکامی کا سامنا کرنا پڑے گا، کیوں؟ کیونکہ مذہب ابدی اور غیر متغیر صداقتوں پر مبنی ہوتا ہے، ان صداقتوں میں آئندہ آنے والی نسلیں نہ تو کوئی اضافہ کرتی ہیں اور نہ ہی انھیں مسترد کرتی ہیں، مذہبی نقطہ نظر کے مطابق علم کو جامد تصور کیا جاتا ہے جبکہ سائنس عقل کی حاکمیت کو تسلیم کرتی ہے، سائنس کے استدلال کرنے کی بنیادیں "روایاتی" نہیں بلکہ "تجرباتی" ہوتی ہیں، اس میں کسی چیز کو ثابت کرنے کے لئے کسی بڑی شخصیت کا سہارا نہیں لیا جاتا بلکہ اسے کٹھن تجربات سے گزار کر ثابت یا رد کیا جاتا ہے، اور یہ یاد رکھیں سائنس علم حاصل کرنے کا وہ طریقہ ہے، جس کو انسان نے ہزاروں سالوں کی محنت کے بعد ایجاد کیا ہے اور اسی سائنس کے بل بوتے پر انسان لافانی اور عبقری بننے کی تیاریوں میں مصروف ہے تاہم اس سے ہمیں یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ سائنس اور مذہب دو ایسے شعبے ہیں جن کو آپس میں گڈ نہیں کیا جاسکتا۔
پرویز امیر علی ہود بھائی اپنی کتاب "مسلمان اور سائنس" میں 1984 کا ذکر کرتے ہوئے اس دور کی حکومت کے بارے میں لکھتے ہیں "اس دور کی حکومت معاشرے کی ہر چیز کو اسلامی بنانے کی دھن میں لگ گئی حتی کہ سائنس بھی اس عمل سے محفوظ نہ رہ سکی، پاکستان کے سائنسی اداروں میں اعلی عہدوں پر فائز افراد اس کام کے بہت بڑے حامی تھے، انہوں نے بڑی دیدہ دلیری سے اوٹ پٹانگ دریافتوں کا دعوی کیا مثلا آئن سٹائن کے نظریہ اضافیت کے ذریعے یہ دریافت کیا کہ جنت ہم سے دور بھاگتی جارہی ہے اور اس کی رفتار روشنی کی رفتار سے ایک سینٹی میٹر فی سیکنڈ ہے، پھر ایک ڈاکٹر صاحب پاکستان اٹامک انرجی کمیشن کے ڈائریکٹر تھے فرمانے لگے کہ انہوں نے قرآن شریف کے مطالعے سے یہ معلوم کیا ہے کہ جنات ایک آزاد اور آتشی مخلوق ہیں جن میں بے پناہ توانائی پوشیدہ ہے لہٰذا وہ تجویز کرتے ہیں کہ اس آتشی قوت کو ایندھن کے طور پر استعمال میں لایا جاسکتا ہے تاکہ تیل کے بحران کا مستقل حل نکالا جاسکے، ان نتائج کو منعقدہ بڑی بڑی بین الاقوامی کانفرنس میں پیش کیا گیا" یہ تھی ہماری اسلامی سائنس جس سے ہم نے جنت اور توانائی کے مسائل حل کیے اور پوری دنیا سے خوب داد سمیٹی اور اس بے مثال سائنسی ترقی کی بدولت آج ہم مانگنے پر مجبور ہیں۔
جدید دور میں کسی بھی قوم یا ملک کی ترقی کا دارومدار سائنس اور تکنیکی اہلیت پر ہے اور ہماری یہ اہلیت دوسری جنگ عظیم کے بعد سے آج تک ماند پڑی ہوئی ہیں، دوسری جنگ عظیم کے بعد جس دنیا کی تشکیل ہوئی اس میں منتشر اور شکستہ ذہن مسلمانوں کا کوئی کردار نہیں تھا اور آج ایک مرتبہ پھر جب دنیا بدلنے جارہی ہے تو اس میں بھی ہمارا کوئی کردار نہیں! کیا یہ صورتحال ہمیشہ ایسے ہی رہے گی؟ بالکل نہیں! اب حالات بہت تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں، عزت نفس پہ پڑنے والی ہر چوٹ مسلمانوں میں سائنسی شعور اجاگر کرنے کا سبب بن رہی ہے، لوگ سائنس کی اہمیت اور ضرورت سے واقف ہونے لگے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں اور تیز ہونا ہوگا، ہمیں جلد ازجلد جاگنا ہوگا کیونکہ جب تک ہم ایک قدم اٹھاتے ہیں اس وقت تک دنیا ہم سے سو قدم مزید آگے نکل چکی ہوتی ہے۔