Jabir Asiri
جابر اسیری

یاداشت تو کبھی بھی ایسی اچھی نہیں رہی کہ عین موقعے پہ کوئی موقع محل بات یاد آ جائے، جو تھوڑی بہت کسر باقی رہ گئی تھی وہ کرونا (کوویڈ) نے پوری کر دی۔ اب اگر بندہ یاد آجائے تو اس کا نام یاد کرنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہوتا۔ کسی پرانے مضمون میں ایک محفل کا ذکر کیا تھا جس میں کوئلے سے ہاتھ جلنے کا معاملہ تھا۔ شاید اتنے سے اشارے سے پوری بات یاد نہ آئے تو احتیاطاً پورا واقعہ ہی دہرا لیتے ہیں۔ کیونکہ دانائے راز کہتے ہیں کہ چنگیاں گلاں کُڑی مُڑی کرنیاں چاہیدیاں (اچھی باتیں بار بار کرنی چاہئیں)۔
واقعہ کچھ یوں ہے کہ کسی جگہ محفل جمی تھی اور سب اپنے اپنے حصے کا گیان لینے والے پہنچے ہوئے تھے۔ وہیں پہ اک درویش صفت نے پوچھا، میاں یہ بتاوَ کہ دو بندے اگر دھیان لگائے، دھونی جمائے بیٹھے ہوں اور ان دونوں کے ہاتھ پہ سلگتا انگارہ رکھ دیا جائے۔ پھر ایک تو ہڑبڑا کے چیخ پڑے اور دوسرا اسی آسن ہی میں بیٹھا رہے تو ان دونوں میں سے کون سا بندہ ہوش مند ہے۔ تو فوراً جواب دیا کہ جو چیخ پڑا وہی تو ہوش میں ہے کہ درد کا احساس ہی تو زندگی کی علامت ہے۔ دوسرا تو اللہ جانے کس خیال میں اور کس کے خیال میں غرق ہے۔ ایویں ہاتھ جلا لیا۔
تو درویش نے جواب دیا کہ جو اپنی مستی و بیخودی میں ڈوبا ہوا ہے، جو اپنے "محبوب" کے خیال میں مستغرق ہے، وہی تو ہوش مند ہے کہ وہ اپنے "محبوب" کا اصل رنگ و روپ دیکھ چکا ہے، اسے ایسی لو لگی ہے کہ اس کا دھیان کسی اور طرف نہیں بہکتا۔ وہ اپنے من میں جو جوت لگائے بیٹھا ہے وہی اس کے جیون کا حاصل ہے اور جیون سے بڑھ کے عزیز بھلا اور کیا ہوگا؟ تو اس دن ہوش مندی کا ایک نیا مفہوم سمجھ آیا۔
اسی محفل میں دوسرا سوال بھی آن پڑا تھا کہ اگر لمبی مسافت کا سفر درپیش ہو تو بذریعہ ہوائی جہاز جانا چاہو گے یا سڑک سے فاصلہ ناپو گے؟ پہلے سوال کے جواب نے جو چانن کیا تھا اس سے سب سے پہلے تو فوری جواب سے گریز کیا۔ اپنی ناقص عقل و خرد کے گھوڑے دوڑائے کہ اس میں کوئی نکتہ ضرور ہوگا ورنہ یہ سوال پوچھا نہ جاتا۔ تھوڑا مزید دماغ پہ زور دیا کہ کہیں کوئی ارتعاش ہو، کوئی گمک ملے تو ایک بیانیہ ذہن میں آیا کہ بذریعہ سڑک ہی ٹھیک ہے کہ معلوم ہوتا رہے کہ کہاں سے گزرے، وہاں کی بودوباش کیسی تھی، وہاں کے کھابے کس ذائقے کے تھے۔ جہاز سے گئے تو بالا ہی بالا پہنچ جائیں گے، پتا ہی نہیں چلے گا کہ کہاں سے گزرے، کہاں اترے۔
موصوف جواب سے بہت خوش ہوئے کہ جلد ہی سبق سیکھ لیا اور بہت دعا دی۔ شاید وہ کوئی قبولیت کی گھڑی تھی کہ ایسے ایسے سفر کر گئے کہ خود پہ حیرت ہوتی ہے۔ اب تو ڈاکٹر صاحب کے بقول کہ پندرہ سو کلومیٹر سے کم تو سفر ہی نہیں لگتا۔
ایسے ہی ایک سفر کے پڑاوَ میں اک مقامی ساتھی ملا۔ پورا نام تو مقامی روایات کے مطابق لمبا چوڑا تھا، بس یہ "جابر اسیری" ہی یاد رہ گیا۔ فوراً ہی دماغ میں لغوی تراکیب گھوم گئیں۔ عربی والے "جابر" (طاقتور، درست رکھنے والا) سے تو سبھی واقف ہیں اور فارسی کے "اسیر" (قیدی، بندھن میں جکڑا ہوا) سے بھی کم وبیش زیادہ تر کی واقفیت ہے۔ دونوں ہی ایک دوسرے کے متضاد لگے کہ وہ کیسا جابر ہوگا جو اسیر ہوگا اور اُس اسیر کے کیا چرچے ہوں گے جو جابر ہوگا۔
چونکہ اس دنیا کو مومن کے لئے قید خانے سے تشبہیہ دی گئی ہےتو ہم اس دنیا میں رہنے والے کو اسیر (پابندیوں میں جکڑا ہوا) کہہ سکتے ہیں اور خالقِ کائنات جو وحدہ لا شریک ہے، جو الصمد ہے، جو طاقت و قدرت کا اصل سرچشمہ ہے وہی تو جابر (سارے نظام کو درست رکھنے والا) کہلانے کا حق رکھتا ہے۔ خود کو اسی "جابر" کا "اسیر" بنانے ہی میں عافیت ہے۔ اس کی بنائی گئی پابندیوں (اسیری) میں رہیں گے تو وہ اپنے فضل و کرم، اپنی جودوسخا، اپنے لطف و عنائیت، اپنی رحمت و شفقت سے ہماری زندگیاں اور ہماری زندگیوں سے متعلقہ سب معاملات کو درست کر دے گا۔
یا جابر! تیرا ہی اسیر ہوں میں
ٹوٹ کر بھی تیری رحمت کا فقیر ہوں میں

