Autophagy Aur Roza, Jism Aur Rooh Ki Dohri Tajdeed
آٹو فجی اور روزہ، جسم اور روح کی دوہری تجدید

انسانی جسم ایک حیرت انگیز کائنات ہے جس میں ایسے ایسے راز پوشیدہ ہیں کہ صدیوں کی تحقیق کے باوجود سائنس آج بھی حیرت کے سمندر میں تیر رہی ہے۔ انہی رازوں میں سب سے چونکا دینے والا عمل آٹو فجی ہے۔ وہ قدرتی نظام جس کے ذریعے جسم اپنے اندر موجود کمزور، خراب، بیمار یا بیکار خلیوں کو توڑ کر انہیں توانائی اور نئے خلیات میں تبدیل کرتا ہے۔ اس عمل کو 2016 میں جاپان کے سائنس دان ڈاکٹر یوشینوری اوسومی نے دریافت کیا اور اسی تحقیق پر انہیں نوبل انعام ملا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ حیاتیاتی حقیقت آج سائنس کی بڑی دریافت ہے، لیکن اس کی بنیاد چودہ سو سال پہلے انسانیت کے سامنے روزے کی شکل میں پیش کر دی گئی تھی۔ روزہ وہ عبادت ہے جو بظاہر سادہ دکھائی دیتی ہے مگر درحقیقت انسان کے جسم، ذہن، روح، ارادے اور اخلاق، سب کو یکساں طاقت بخشتی ہے۔ یہ صرف کھانے پینے سے رک جانے کا نام نہیں بلکہ اندرونی صفائی، ذہنی تازگی، جذباتی توازن، جسمانی شفا اور روحانی بالیدگی کا مکمل نظام ہے۔ آج جدید سائنس آٹو فجی کے ذریعے یہی کہہ رہی ہے کہ انسان کو وقفہ دینا، بھوک برداشت کرنا اور محدود وقت تک غذا سے دور رہنا جسم کا ایسا علاج ہے جو دوائیوں سے زیادہ طاقتور ہے۔
روزہ آٹو فجی کے عمل کو تیز کرنے والی سب سے فطری اور مؤثر صورت ہے۔ جب انسان بارہ سے سولہ گھنٹے تک کچھ نہیں کھاتا تو جسم اضطراری طور پر خراب خلیات کو توڑنا شروع کرتا ہے اور انہیں توانائی کے طور پر استعمال کرتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جب جسم اندرونی صفائی کا عمل شروع کرتا ہے۔ سوزش گھٹتی ہے، خون صاف ہوتا ہے، انسولین متوازن ہوتی ہے اور خلیوں کا فضلہ ختم ہونے لگتا ہے۔ یوں سمجھ لیں کہ روزہ جسم کے اندر وہ صفائی کرتا ہے جو گھروں میں سالانہ صفائی بھی نہیں کر پاتی۔ کینسر کے خطرات کم ہوتے ہیں کیونکہ جسم خراب پروٹین اور ٹوٹے ہوئے خلیاتی اجزا کو خود ہی ختم کرنے لگتا ہے۔ دل کے لئے روزہ فائدہ مند ہے کیونکہ چربی گھلتی ہے، برا کولیسٹرول کم ہوتا ہے اور خون کی نالیاں کھلتی ہیں۔ دماغ کے لئے روزہ نعمت ہے کیونکہ آٹو فجی نیورانز کو نئی زندگی دیتی ہے، یوں انسان ذہنی طور پر زیادہ مستعد اور توانا ہوتا ہے۔ حیرت ہوتی ہے کہ روحانی عبادت کا ظاہری فائدہ جسمانی صحت کی شکل میں سامنے آتا ہے اور اس کے سائنسی شواہد آج پوری دنیا میں موجود ہیں۔
نبی کریم ﷺ نے پوری زندگی روزوں کو اختیار کیا اور امت کو اس کی تلقین فرمائی۔ "صوموا تصحّوا" یعنی روزہ رکھو صحت پاؤ۔ یہ وہ حدیث ہے جس پر آج پوری دنیا کی تحقیق مہرِ تصدیق ثبت کر رہی ہے۔ آپ ﷺ نے نہ صرف فرض روزے رکھے بلکہ نفلی روزوں کی بھی ایسی سنت قائم کی جو آج کی انٹرمٹینٹ فاسٹنگ کی مکمل تصویر دکھاتی ہے۔ سوموار اور جمعرات کے روزے، ایامِ بیض کے روزے، محرم، شعبان اور رمضان کے روزے، یہ سب وہ اوقات ہیں جن میں انسان طبعی طور پر ایسے وقفے پیدا کرتا ہے جو آٹو فجی کو فعال کرنے کے لئے مثالی ہیں۔ آج سائنس کہتی ہے کہ ہفتے میں دو دن کا روزہ بہترین انٹرمٹینٹ فاسٹنگ ہے۔ یہ پیغام سائنس نے 21ویں صدی میں دیا، لیکن اس کی عملی مثالیں 7ویں صدی میں مدینہ کی گلیوں میں روشن تھیں۔ انسان جب بھوک برداشت کرتا ہے تو اس کا ارادہ مضبوط ہوتا ہے، جذبات میں ٹھہراؤ آتا ہے، دل نرم ہوتا ہے، نیت شفاف ہوتی ہے، غصہ کم ہوتا ہے۔ یہی وہ اخلاقی آٹو فجی ہے جو انسان کے باطن میں بسے ہوئے زہریلے جذبات کو توڑ کر اسے ایک اچھا انسان بنا دیتی ہے۔ گویا جسم اور روح دونوں کا فاسد مادہ ایک ساتھ گھلتا جاتا ہے۔
روزہ صرف جسم کو نہیں بلکہ انسان کی عادتوں اور سوچ کو بھی بدلتا ہے۔ زیادہ کھانے کی عادت انسان کو بیماریوں میں دھکیلتی ہے، جبکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ آدمی کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرتا۔ آج سائنس کہتی ہے کہ پیٹ کا بھرا ہونا نہ صرف آٹو فجی کو روکتا ہے بلکہ بڑھی ہوئی سوزش، کمزور قوتِ مدافعت، ڈپریشن اور دل کی بیماریوں کا سبب بنتا ہے۔ یہ بھی ثابت ہو چکا ہے کہ رات گئے کھانا آٹو فجی کو تقریباً ختم کر دیتا ہے، جبکہ نبی ﷺ رات کا کھانا ہلکا اور سادہ رکھتے تھے اور جلد کھاتے تھے۔ یہ وہ حکمت ہے جس کی تصدیق آج جدید تحقیق اپنے مقالوں میں کرتی ہے۔ انسان جب سادہ طرزِ زندگی اور کھانے پینے میں نظم پیدا کر لیتا ہے تو اس کے خلیات بہترین انداز میں کام کرتے ہیں۔ کھانا اگر وقت پر ہو، کم ہو، صاف ہو اور ضرورت کے مطابق ہو تو جسم خود بخود صحت کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔
آٹو فجی اور روزہ انسان کو ایک ایسا متوازن نظام دیتے ہیں جس میں جسم، ذہن اور روح تینوں ایک ترتیب میں آ جاتے ہیں۔ یہ ترتیب انسان کو اس کی اصل قوت سے جوڑتی ہے۔ روزہ انسان کو یہ سکھاتا ہے کہ مسائل، خواہشات اور کمزوریاں سب وقتی چیزیں ہیں، اصل اہمیت ضبط، صبر، نیت اور نظم کی ہے۔ آٹو فجی جسم کو نظم دیتی ہے، روزہ انسان کو نظم دیتا ہے۔ آٹو فجی خلیات کی مرمت کرتی ہے، روزہ کردار کی مرمت کرتا ہے۔ آٹو فجی زہریلے مادے نکالتی ہے، روزہ زہریلے خیالات نکالتا ہے۔ دونوں ایک ساتھ مل کر انسان کو مکمل بناتے ہیں، دنیاوی طور پر بھی اور روحانی طور پر بھی۔ یہی وجہ ہے کہ روزہ صرف ایک عبادت نہیں بلکہ زندگی کا فلسفہ ہے، صحت کا نظام ہے اور فطرت کے قریب رہنے کا ایک راستہ ہے۔ آج جب دنیا بیماریوں، دباؤ، بے ترتیبی اور ذہنی انتشار میں مبتلا ہے، تو اسلام کا دیا ہوا یہ نظام اس کے لئے ایک پناہ گاہ ہے۔
اگر انسان روزے کی روح سمجھ کر اس پر عمل کرے، کھانے پینے میں سادگی لائے، وقت کا نظم قائم کرے اور اپنے جسم کو وقفہ دے تو آٹو فجی پوری قوت سے کام کرتی ہے اور زندگی کے ہر پہلو میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔ جسم ہلکا محسوس ہوتا ہے، ذہن صاف ہوتا ہے، نیند بہتر ہوتی ہے، مزاج خوشگوار ہوتا ہے، وزن کم ہوتا ہے، قوتِ مدافعت مضبوط ہوتی ہے اور اندر ایک نئی توانائی بیدار ہوتی ہے۔ اسلام نے عبادت کے ذریعے انسان کو جو صحت کا اصول دیا ہے، سائنس اسے خلیاتی زبان میں بیان کر رہی ہے۔ حقیقت ایک ہی ہے، بس زاویے بدل گئے ہیں۔ روزہ محض ایک مذہبی فریضہ نہیں بلکہ انسان کے لئے خدا کا عطا کردہ وہ تحفہ ہے جس میں جسمانی صحت، ذہنی سکون، روحانی بلندی اور خلیاتی تجدید کا پورا نظام موجود ہے۔ آٹو فجی اس حقیقت کا سائنسی نام ہے اور روزہ اس کا عملی نمونہ۔

