Thursday, 18 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Mehdi Bukhari
  4. Lahu Garm Rakhne Ka Hai Ik Bahana

Lahu Garm Rakhne Ka Hai Ik Bahana

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

ملٹی سکرین سینما ہاؤس "مملکتِ خداداد" میں ہر شو ہاؤس فل، ہر کہانی ایکشن تھرلر سسپنس۔ تھیٹر نمبر ون اسلام آباد میں WWE Smackdown شو پانی کی توپ بمقابلہ انقلاب، تھیٹر نمبر ٹو پنجاب میں مریم دا کھڑاک، تھیٹر نمبر تین خیبر پختونخوا میں مولا جٹ 2.0، تھیٹر نمبر چار سندھ میں کیری آن مراد شاہ، تھیٹر نمبر پانچ بلوچستان میں آرٹ فلم "گھنگھرو ٹوٹ گئے" نمائش کے لیے پیش ہیں۔ گذشتہ ہفتے تھیٹر نمبر چھ گولڈ پلیکس میں بِگ برادر ایک مسیحا نمائش کے لیے پیش کی گئی جس نے کھڑکی توڑ رش کھینچا۔

ہر کہانی میں کوئی موڑ اگرچہ کسی کردار سے پوشیدہ بھی نہیں مگر کسی کردار کو یہ بھی نہیں معلوم کہ اگلا موڑ کون سا ہے۔ ہر کردار سب کچھ اور سب کو جاننے کا دعویدار ہے مگر کوئی کردار خود نہیں جانتا کہ اگلے سین میں کیا ہونے والا ہے۔ ایڈیٹنگ ایسی کمال کہ کچھ اندازہ نہیں ہوتا کہ کس سین میں کون کب ولن سے ہیرو اور پھر کامیڈین بن کے دوبارہ ولن یا ہیرو کا روپ دھار لے۔ کوریو گرافی اتنی شاندار کہ کسی بھی آئٹم سانگ میں مرکزی کردار اچانک سے ایکسٹرا بن جاتے ہیں اور ایکسٹرا سب کچھ پھلانگتے ہوئے مرکزی کرداروں میں تبدیل ہو کر پھر ایکسٹرا کے مقام پر پہنچ جاتے ہیں۔

یہ ایک ایسی ریاست کا سٹیج ہے جو بیک وقت خود سے اور دنیا سے نبرد آزما ہے۔ حسنِ انتظام اس قدر انہونا کہ ایک ہی اداکار دو دو تین تین کردار نبھا رہے ہیں۔ مثلاً سہیل آفریدی وزیر اعلیٰ بھی ہیں اور سٹیج شو میں شاندار اداکاری کا مظاہرہ بھی کر لیتے ہیں اور بوقت ضرورت موقعہ بھانپ کر کلٹی یا پیش بھی ہو جاتے ہیں۔ نامعلوم جماعت کے سینیٹر اور ترجمان جی ایچ کیو فیصل واؤڈا عملاً وزیر ڈانٹ ڈپٹ و دھمکی میں بدل چکے ہیں۔ ایک سانس میں تحریک انصاف کو رگیدتے ہیں اور دوسری سانس میں اس جماعت کے واسطے اپنی قربانیاں بھی یاد دلاتے ہیں۔

ایجنسیاں جعفر جن بنی ہوئی ہیں۔ بندے اٹھانے اور غائب کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ یوٹیوبرز کی مدد کرنے کو آپس میں بھی سینگ پھنسا لیتی ہیں۔ اڈیالہ کے باہر ہر منگل کی شب چند مظاہرین پانی والی توپ کے انتظار میں لگے رہتے ہیں اب آئی کہ اب آئی اور اس انتظار میں وقت گزاری کرنے کو انقلابی نعرے بھی گونجتے رہتے ہیں۔ اسلام آباد پولیس دن بھر پرچے بھی کاٹتی ہے، ناکے پر لوگوں کی سکریننگ بھی کرتی ہے اور رات کو جمع ہو کر پانی والی توپ چلانے کو پانی کے ٹینکر میں برف اور مرچیں بھی مکس کرنے کا فریضہ سرانجام دیتی ہے۔ ہر رات ٹی وی سکرینز پر چاروں صوبوں میں سے صرف ایک ون اینڈ اونلی وزیر اعلیٰ پنجاب کی پیشہ وارانہ مہارت کو اچھے سے فلما کر ان کی کارکردگی بھی نشر کی جاتی ہے اور اس کے بعد ٹی وی چینلز سیاستدانوں کو ڈس کریڈٹ کرنے کا فریضہ بھی سرانجام دیتے ہیں۔

معیشت بھی ہماری قسمت یا دل کے مریض کی اینجوگرافی مافق اوپر نیچے ہو رہی ہے۔ وزیراعظم کو نہیں معلوم کہ کل نوازشریف صاحب کے سامنے پیش ہونا ہے یا فیلڈ مارشل صاحب کے روبرو۔ الیکشن کمیشن ہر صبح کام شروع کرنے سے پہلے فال نکالتا ہے کہ آج وہ کتنا بے بس اور کتنا بااختیار ہے اور کیا چاہیے؟

پر خدا کا شکر ہے کہ ان تمام اداروں اور کرداروں کو قومی و عوامی مفاد جان سے زیادہ عزیز ہے۔ کسی کو ہوسِ اقتدار نہیں۔ ہر کوئی ریاست اور اس کے انتظام کے بارے میں فکر مند ہے۔ ہر کوئی شاندار مستقبل کا خواہاں ہے اور ہر کوئی جمہوریت کو پھلتا پھولتا دیکھنا چاہتا ہے۔ دراصل ہم سب کنٹرولڈ کیاس یا منظم افراتفری کے وال کلاک میں لگی سوئیاں ہیں۔ افراتفری میں پلی بڑھی نسلیں ہیں۔ حالات اگر خدانخواستہ معمول پر آ گئے تو روزِ حشر اقبال کو کیا منہ دکھائیں گے؟

پلٹنا جھپٹنا، جھپٹ کر پلٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

Check Also

Khooni Tehwar Ka Faisla Wapis Liya Jaye

By Abid Mehmood Azaam