فیض حمید کی سزا سے میری بے اعتنائی کی خواہش

دیانتداری سے یہ سوچتا ہوں کہ فیض حمید کے حوالے سے جو لکھنا چاہتا تھا پیر کے روز چھپ گیا ہے۔ وہ کالم بھی بنیادی طورپر اپنی اصل اوقات بے نقاب کرنے کو لکھا تھا۔ میری ذات اور صحافت کی اتنی وقعت ہی نہیں تھی کہ وہ یا ان کے تعین کردہ کوئی دھانسو افسر مجھ سے براہِ راست رابطہ کرتے۔ ان سے رابطے کے بعد جو ممکنہ دبائو ہوتا میں یقیناََ اس کا سامنا کرتا۔ بدقسمتی سے مگر مجھے حرفِ انکار ادا کرنے کا موقع ہی نہ ملا۔ فیض حمید کو ان ہی کے محکمے کی جانب سے سزا سنائی دئے جانے کے بعد جن ساتھیوں نے خود پر ڈالے دباؤ کا ذکر کیا ہے اسے پڑھتے ہوئے دُکھ کے علاوہ متعدد بار حسد بھی محسوس کیا۔
اپنے ہنر میں دانا اور یکتا نہ ہونے کے باوجود عمران خان صاحب کی حکومت کا آغاز ہوتے ہی میں پیر سے جمعرات تک شام آٹھ بجے براہِ راست (لائیو) شو کرنے والا پہلا اینکر تھا جسے ٹی وی چینل نے "مالی مشکلات" کے نام پر فارغ کردیا۔ "مالی مشکلات" اگر مجھے ذاتی طور پر بیان کردی جاتیں تو میں ازخود استعفیٰ دے کر باقی ساتھیوں کا رزق بچانے میں حصہ ڈالنے سے ہرگز نہ گھبراتا۔ "مالی مشکلات" کی داستان سنانے مگر جن صاحب کو بھیجا گیا وہ بذریعہ ہوائی جہاز کراچی سے لاہور آئے تھے۔ مجھے جب ان کے ٹی وی کے لئے شو کرنے کی پیشکش ہوئی تو یہ صاحب مذاکرات کے دوران ایک لمحے کو بھی شریک نہیں تھے۔ اس صحافتی ادارے کے "بڑے صاحب" ہی نے گفتگو فرمائی تھی۔
"مالی مشکلات" کا ذکر اس وجہ سے بھی میری کھوپڑی تسلیم کرنے سے قاصر تھی کیونکہ جنوری 2018ء میں میرا دو سالہ کنٹریکٹ ختم ہوگیا تھا۔ میں کنٹریکٹ ختم کرنے کے بعد طویل رخصت پر جانے کا خواہش مند تھا۔ لندن اور نیویارک دنیا میں میرے پسندیدہ ترین شہر ہیں۔ سوچ رہا تھا کہ ان دو شہروں میں ایک ایک ماہ گزارنے کے بعد وطن لوٹوں۔ کچھ نئے خیالات ذہن میں آئیں تو انہیں کتاب یا ڈرامے کی صورت لکھنے کی کوشش کروں۔ اس قابل نہ ہوسکا تو کسی اور صحافتی ادارے میں نوکری مل سکتی تھی کیونکہ 2018ء کے وسط میں عام انتخاب ہونا تھے اور مجھے 1984ء سے بھارتی انتخاب کی رپورٹنگ کی بدولت حاصل ہوئے تجربے کی وجہ سے انتخابی عمل پر تبصرہ آرائی کے لئے اکثر انگیج کرنے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں۔
"مالی مشکلات" کی زد میں آئے ادارے نے مگر مجھے فارغ نہیں ہونے دیا۔ یہ تاثر بھی دیا کہ انتخابی عمل کے سال میں وہ مجھے کھونا نہیں چاہیں گے۔ میری تنخواہ میں اضافے کا فیصلہ بھی ہوا۔ اضافے سمیت نئی تنخواہ کا چیک آیا تو مجھے یہ محسوس ہوا کہ شاید چینل والے اس گماں میں مبتلا ہیں کہ میں بہتر تنخواہ کی تلاش میں کسی اور چینل جانے کا سوچ رہا ہوں۔ اس تاثر کو جھٹلانے کے لئے میں نے نہایت سختی سے اصرار کیا کہ میں پرانی تنخواہ پرہی کام کرتا رہوں گا۔ میرے جونیئر ساتھیوں کی تنخواہ مگر بڑھنا چاہیے اور وہ بڑھادی گئی۔
دریں اثناء 2018ء کے عام انتخاب آگئے۔ چند دیگر ساتھیوں سمیت مجھے انتخابی نشریات میں حصہ لینے کے لئے کراچی بلوالیا گیا۔ سکرین پر لیکن مجھے بہت کم وقت دیا جاتا۔ انتخابی نتائج آنا شروع ہوگئے تو ان پر تبصرہ آرائی کیلئے بھی مجھ سے گریز اختیار کرنے کو ترجیح دی گئی۔ عمر تمام صحافت کی نذر کرنے کی بدولت یہ سمجھنے کے لئے مجھے کسی "استاد" کی ضرورت نہیں تھی کہ من مانے نتائج حاصل کرنے کی گیم لگ چکی ہے۔ میری تبصرہ آرائی اس گیم میں گند ڈال سکتی تھی اور یہ واقعہ فقط میرے ساتھ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ دیگر کئی چینلوں کے نامی گرامی صحافی بھی 2018ء کے انتخابی نتائج کے حوالے سے ہوئی نشریات کے دوران سکرینوں سے غائب نظر آئے۔ جبلی طور پر مجھے پیغام مل گیا۔ اسی باعث جب اسلام آباد واپسی کے لئے ہم ایئرپورٹ جانے کے لئے ٹیکسی میں بیٹھے تو میں نے اپنے ہمراہ گئے دو عزیز ترین دوستوں کو یہ "اطلاع" دی کہ میرے ان کے ساتھ کام کرنے کے دن گنے جاچکے ہیں۔
میری سوچ اس وقت برحق ثابت ہوئی جب عمران خان کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے ایک ہفتے بعد ہمارے چینل کے ایک جونیئر کارندے میرے کمرے میں آئے۔ ان صاحب کے بارے میں "مشہور" تھا کہ وہ "ان" کے پیغامات مالکوں اور کارکنوں تک پہنچاتے ہیں۔ اِدھر اُدھر کی ہانکنے کے بعد انہوں نے ہونٹوں پر مجرمانہ مسکراہٹ کے ساتھ مجھے آگاہ کیا کہ "شکایت آرہی ہے کہ آپ بیلنس پروگرام نہیں کررہے۔ برائے مہربانی احتیاط سے کام لیں"۔ میں نے ان سے فقط یہ عرض کیا کہ جن صاحب کو "شکایت" ہے انہیں میرا فون نمبر دے دیں۔
وہ رخصت ہوئے تو میں نے فواد چودھری صاحب کو فون ملایا۔ ان کے تایا چودھری الطاف حسین مرحوم کے ساتھ میرے دیرینہ اور خاندان کے رکن جیسے مراسم تھے۔ فواد چودھری عمران حکومت کے وزیر اطلاعات تھے۔ سچی بات ہے انہوں نے دوسری گھنٹی پر ہی فون اٹھالیا۔ میں نے ان سے "شکایتوں" کا ذکر کیا تو انہوں نے بیزار کن بے اعتنائی سے جواب دیا کہ وہ صحافیوں کے خلاف شکایتوں والے دھندے میں نہیں الجھتے۔ میرے ایک ساتھی نے کابینہ کے رکن شفقت محمود صاحب کے ساتھ میرے خلاف آئی "شکایتوں" کا ذکر کیا تو انہوں نے وزیر اعظم عمران خان سے اس کا ذکر کرنے کے ارادے کا اظہار کیا۔ میں نے نہایت ادب سے انہیں اپنے مسائل میں مداخلت سے روک دیا اور چند ہی دن بعد مجھے "مالی مشکلات" کی بنیاد پر فراغت کی چٹھی مل گئی۔
صحافی ایک ادارے سے فارغ ہوں تو اس سے بڑھیا یا کم تر ادارے سے ملازمت کی پیشکش آہی جاتی ہے۔ عمران خان کے پورے دورِ اقتدار کے دوران مگر کسی بھی ادارے سے ایسی پیش کش نہ آئی۔ فقط نوائے وقت کی مدیر محترمہ رمیزہ نظامی مصر رہیں کہ چاہے کچھ ہوجائے مجھے یہ کالم لکھنے کے علاوہ "دی نیشن" کے لئے پریس گیلری بھی لکھنا ہوگی۔ میں نے ان کی ضد کا احترام کیا۔ میرے کالموں سے حاکمانِ وقت یقیناََ خوش نہیں تھے۔ میری مدیر نے مگر ایک بار بھی کسی دبائو کا مجھ سے تذکرہ نہیں کیا۔
وقت کبھی رکتا نہیں اور 2018ء کے بعد اکتوبر2021ء آہی گیا۔ فیض حمید کو ٹرانسفر کرنے کی گیم لگی۔ وہ گیم کامیاب ہوگئی تو پیغام مل گیا کہ اگلی باری کس کی ہوسکتی ہے۔ دیوار پر لکھی "باری" کے منتظر چند ٹی وی چینلوں نے مجھ سے رابطہ کیا۔ ان کا خیال تھا کہ سابق وزیر اعظم کے دور میں ہوئے تلخ تجربات کے بعد میں ممکنہ "باری" یقینی بنانے میں بڑھ چڑھ کر حصہ ڈال سکتا ہوں۔ جی نے مگر مان کر نہ دیا۔ عمران حکومت کی تحریک عدم اعتماد کی بدولت فراغت کے کئی ماہ گزرجانے کے بعد ایک ٹی وی چینل پر تین مہینوں کے لئے کام کیا۔ مزہ نہ آیا تو گھر بیٹھ گیا۔ جولائی 2023ء سے ایک اور چینل کے لئے شو کررہا ہوں۔ طبی مسائل مگر بڑھ رہے ہیں۔ دیکھئے کب تک؟
کالم کے اختتام کے قریب پہنچتے ہوئے ہاتھ باندھ کر التجا کروں گا کہ فیض حمید انفرادی حیثیت میں کچھ بھی نہ تھے۔ اقتدار کے سفاک کھیل کے اہم ترین کرداروں میں مگر بہت نمایاں رہے۔ انہوں نے عمران خان اور قمر جاوید باجوہ کے ساتھ مل کر جو گیم لگائی وہ مگر پٹ گئی۔ اب اس کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کی ذات سے مجھے کوئی ذاتی بغض نہیں۔ ویسے بھی انہوں نے مجھے کبھی براہ راست رابطے کے قابل ہی نہ سمجھا تھا۔ اختیارات کے عروج کے دنوں میں لیکن انہوں نے صحافت کی اجتماعی ساکھ کو تباہ کرنے کے جو رحجانات متعارف کروائے ہیں ان کا ازالہ کم از کم میری بقیہ عمر میں ہوتا نظر نہیں آرہا۔ ان کو دی گئی سزا صحافتی وقار کا احیاء کرنے میں قطعاََ مددگار ثابت نہیں ہوگی۔ دو ٹکے کا رپورٹر ہوتے ہوئے میں ان کی سزا کے حوالے سے لہٰذا بے اعتنائی ہی اختیار کرسکتا ہوں۔

