Saturday, 20 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Mushtaq Ur Rahman Zahid
  4. Kya Aap Pakistan Ko Madaristan Banana Chahte Hain?

Kya Aap Pakistan Ko Madaristan Banana Chahte Hain?

کیا آپ پاکستان کو مدارستان بنانا چاہتے ہیں؟

بدھ کے دن اسلام آباد میں علماء و مشائخ کانفرنس کے نام سے ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا۔ تقریب میں وزیراعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف چیف آف آرمی فیلڈ مارشل سید عاصم منیر، حکومتی وزراء و ذمہ داران سمیت ملک بھر سے مدارس کے مہتممین، مدرسین اور مختلف مکاتب فکرکے علماء کرام نے شرکت کی تقریب میں فیلڈمارشل سید عاصم منیر نےاپنے خطاب میں شرکاء کو مخاطب کرتے ہوئے یہ سوال کیا کہ کیا آپ پاکستان کو مدارستان بنانا چاہتے ہیں؟

اس سوال پر مذہبی حلقوں میں چہ می گوئیاں شروع ہوگئی ہیں اور ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک طبقہ جو پاکستان نہیں بلکہ دنیا کے سب سے بڑے مدارس بورڈ وفاق المدارس پاکستان جس کے صدر مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور سرپرست مولانا فضل الرحمن ہے اس سے تعلق رکھتا ہے ان کا یہ کہنا ہے کہ پاکستان ایک آزاد اسلامی ریاست ہے اور اسلام کے نام پر بنا ہے۔ پاکستان کے آئین میں لکھا ہے کہ اسلام پاکستان کا مملکتی مذہب ہوگا اور یہاں پر بننے والے قوانین اسلام کے مطابق ہوں گے اور اسلام کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوگی۔ ایسے ملک کے چیف آف آرمی چیف آف ڈیفنس فورسز فیلڈ مارشل کا یہ سوال کرنا کہ کیا پاکستان کو آپ مدارستان بنانا چاہتے ہیں یہ معنی خیز ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ جنرل سیدعاصم منیر نے اپنے خطاب میں کہا کہ دو ہزار سترہ اور اٹھارہ میں جب میں آئی ایس آئی چیف تھا تو اس وقت مدارس کی تعداد تیس پینتیس ہزار کے لگ بھگ تھی اور آج سات آٹھ سال گزرنے کے بعد ان مدارس کی تعداد ایک لاکھ سے متجاوز کر گئی ہے تو اس حوالے سے جنرل صاحب کا کہنا تھا کہ کیا آپ پاکستان کو مدارستان بنانا چاہتے ہیں، اس طبقے کا کہنا یہ ہے کہ شاید جنرل صاحب مدارس کی تعداد پر تشویش کا اظہار کر رہے تھے جو کہ اسلامی ریاست ہونے کے ناطے سوالیہ نشان ہے اور ان کا کہنا ہے کہ یہ سوال اگر جنرل صاحب وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے صدر مفتی اعظم پاکستان مولانا مفتی محمد تقی عثمانی اور وفاق المدارس العربیہ کے سرپرست ہونے کے ساتھ ساتھ ملک کی سب سے بڑی مذھبی وسیاسی جماعت جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان کی موجودگی میں کرتے تو شاید زیادہ بہتر ہوتا اور وہ حضرات جنرل صاحب کو اطمینان بخش جواب سے بھی نوازتے اور تسلی بھی دیتے۔

جبکہ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اگرچہ محدود اور کم افرادی قوت پر مشتمل ہے جس کے سربراہ مفتی عبد الرحیم جامعۃ الرشید والے ہیں۔ ان کا یہ خیال ہے کہ جنرل صاحب کا یہ مقصد نہیں تھا جس کو عام طور پر اخذ کیا گیا اور اس کی وضاحت مفتی عبد الرحیم نے جنرل عاصم منیر کے خطاب کے بعد مائیک پر آ کر دی اور کہا جنرل صاحب اگر پاکستان میں مدارس ایسے بنے جیسے ہونے چاھئیے تو پھر مدارستان ہی بننا چاھئیے اس پر جنرل عاصم منیر نے تالیاں بجا کر اسے درست تسلیم کیا اور پھر اقرار بھی کیا کہ اگر مفتی محمد تقی عثمانی، جامعۃ الرشید اور جامعہ اشرفیہ لاہور جیسے مدارس بنانے ہیں تو بے شک پاکستان کو مدارستان بنا لیں۔ اس طبقے کا خیال ہےکہ جنرل صاحب کا مقصد تھا اگر اس قسم کے مدارس ہوں تو پھر تو بہتر ہے کہ ان کی تعداد زیادہ ہو جائے۔

پاکستان میں اس وقت مدارس کی کل تعداد کم و بیش 45000 ہے جن میں رجسٹرڈ مدارس 18000 طلباء کی تعداد تقریباً 2260000 ہے پنجاب میں رجسٹرڈ مدارس 10 سے 12 ہزار طلباء کی تعداد 650000، خیبرپختونخواہ میں رجسٹرڈ مدارس 4 سے 5 ہزار طلباء کی تعداد 13000000، صوبہ سندھ میں رجسٹرڈ مدارس 3000 طلباء کی تعداد 200000، صوبہ بلوچستان میں رجسٹرڈ مدارس 575 طلباء کی تعداد 75000، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں رجسٹرڈ مدارس 200 طلباء کی تعداد 12000، آزادکشمیر میں رجسٹرڈ مدارس 450 طلباء کی تعداد 27000، گلگت بلتستان میں رجسٹرڈ مدارس 90 طلباء کی تعداد 5000 ہے غیر رجسٹرڈ مدارس کی تعداد اس کے علاوہ ہے جن کی رجسٹریشن میں حکومت و انتظامیہ کی جانب سے غیر اعلانیہ رکاوٹیں ہیں اور بسیار کوششوں کے باوجود بھی مدارس رجسٹریشن کا قضیہ تاحال عملا حل نہیں ہوسکا۔

پاکستان ایک اسلامی ریاست ہے جبکہ ہندوستان ایک ہندو اسٹیٹ ہے اس میں مدارس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ پاکستان سے کئی گنا زیادہ اور پاکستان میں مدارس کا یہ سلسلہ کوئی نیا نہیں ہے۔ مدارس کا یہ سلسلہ قیام پاکستان سے قبل ہندوستان سے شروع ہوا ہے اور اسی ترتیب سے اس میں آبادی کے حساب سے اضافہ ہو رہا ہے جس طرح ہندوستان میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان ایک اسلامی ریاست ہونے کے ناطے اس میں یہ اضافہ زیادہ تعداد میں ہونا چاہیے بنسبت ہندوستان کے، اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ اسلام مدارس سے ہی پھیل رہا ہے اور اس کی تعداد میں جتنا اضافہ ہوگا اتنا ہی اسلام پھیلے گا اور اس کی ترویج ہوگی اور یقیناً اس میں اضافہ کوئی خطرے کی بات نہیں بلکہ باعث مسرت ہے لیکن مدارس میں دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری تعلیم پر بھی دسترس حاصل ہونا آج کل کے حالات کے حساب سے ضروری ہے اور ملک مخالف سرگرمیوں سے بھی یہ پاک ہوں۔

یقیناً ایساہی ہے تو پھر یہ تعداد پاکستان کے لیے منافع بخش ہو سکتی ہے اور شاید جنرل صاحب کا بھی یہی مقصد ہے، پاکستان کی تاریخ میں جتنے بھی آرمی چیف آئے ہیں یا گزرے ہیں سب میں میرا پسندیدہ آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ہیں کیونکہ وہ ایک حافظ قرآن بھی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ قرآن کی تفسیر و ترجمہ پر بھی کافی حد تک معلومات رکھتا ہے اور مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتا ہے۔ میری معلومات کے مطابق اس کا اپنا ذاتی ذہن بھی اسلامی اور کرپشن سے پاک ہے تو ہماری دعا ہے کہ جنرل عاصم منیر پاکستان کے اسلامی تشخص کو برقرار رکھتے ہوئے ملک کو ترقی کی طرف گامزن کرے جیسا کہ اس نے گزشتہ دنوں چیف آف ڈیفنس فورسز بننے کے بعد کہا تھا کہ آج سے پاکستان کی ترقی کا دور شروع ہوگا اللہ کرے ایسا ہی ہو۔

Check Also

Moscow Se Makka (5)

By Mojahid Mirza