Friday, 19 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Javed Ayaz Khan
  4. Allah Wala, Khamosh Wafa Ka Akhri Isteara

Allah Wala, Khamosh Wafa Ka Akhri Isteara

اللہ والا، خاموش وفا کا آخری استعارہ

کسی عام آدمی کی پہچان کروانا کسی بھی لکھاری لیے بہت زیادہ محنت طلب ہوتا ہے کیونکہ اس کا کوئی سماجی کردار یا "امیج" پہلے سے لوگوں کے ذہنوں میں موجود نہیں ہوتا۔ دنیا میں کچھ لوگ ظاہراََ معمولی ہوتے ہیں مگر ان کی روحیں اتنی بلند ہوتی ہیں کہ وقت خود جھک کر ان کی عظمت کا اعتراف کرتا ہے۔ آج میں ایک ایسے ہی شخص کو خراج عقیدت پیش کر رہا ہوں جو نہ تو میرا رشتہ دار تھا نہ میرے حسب نسب کا حصہ لیکن جس نے میرے والد کے لیے وہ کچھ کیا جو ہم سگے بیٹے بھی نہیں کر پائے۔

پہلی مرتبہ میں نے اسے بچپن میں دیکھا تو وہ بڑا خوبصورت اور خوش لباس نوجوان چوہدری محمد اسلم تھا جو سعودیہ سے تازہ تازہ واپس آیا تھا۔ کہتے ہیں کہ سعودیہ میں بطور الیکٹرک سپروائزر ہوا کرتا تھا۔ ایک معزز خاندان سے تعلق کی بنیاد پر جلد ہی شہر میں مقبول ہوگیا اور بطور الیکٹریشن کام کرتا دکھائی دیا پھر کچھ دنوں بعد سایکل مرمت کرتا دکھائی دیا لیکن اپنی خوش اخلاقی اور اردو اور انگریزی میں دلکش گفتگو کی باعث لوگوں میں مقبول ہوگیا اور ہر فن مولا کہلانے لگا۔ کسی کام کے لیے اللہ والا انکار نہ کرتا۔

اسلم اللہ والا۔۔ ایک ہنستا مسکراتا سیدھا سادہ شخص جس کے ماتھے پر سعودی عرب میں کام کرنے کی محنت کی لکیریں ابھری ہوئی تھیں، ہاتھوں پر سائیکلوں کے مرمت کی باعث کالے نشان پڑ چکے تھے، جیب میں بجلی کے تاروں کی کھچڑ ی ایک پیچ کس ربڑ کے دستانے اور پرانا سا پلاس اور دل میں اپنے "صاحب" یعنی میرے والد کی محبت کا طوفان تھا کبھی وہ سعودیہ میں سپروائزی کرتا تھا کبھی پھر الیکٹریشن اور کبھی وہ سایکل کا مستری اور کبھی کچھ اور لیکن اس کی اصل پہچان اس کی وہ اباجی کی طویل خدمت تھی جو اس نے بےلوث، بے غرض اور بے بدل کی اور خود کو پیکر وفا بنا لیا۔ پھر جب وہ بطور سوشل ورکر اباجی زیر سایہ آیا تو سب کچھ بھول گیا۔ وہ سائے کی طرح ہروقت ساتھ ساتھ رہتا جہاں جہاں اباجی جاتے ساتھ ہوتا۔ اس نے خود کو اباجی کے وقف کردیا تھا صبح سے شام تک ان کی تنہائی کا ساتھی ان کی صحبت میں رہ کر چوہدری محمد اسلم سے وہ "اللہ والا" بن گیا۔ جو اباجی کے دفتر کا کارندہ بھی تھا، ان کا معاون بھی تھا، ان کی تنہائی کا ساتھی بھی اور ان کا ہمدرد اور غمگسار بھی تھا۔ خدمت انسانیت کے سفر میں اباجی کے ساتھ دل وجان سے شامل ہوگیا۔

پاکستان کے کونے کونے میں اباجی کے ہمراہ جاتا اور اباجی کی بے لوث ذاتی خدمت کو اپنا شعار بنا لیا۔ اباجی کی درویشی نے اسے روحانی طور پر ان سے منسلک کردیا۔ پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کے لیے اباجی کی کامیابیوں کے پیچھے اس کی خدمت بھی کار فرما رہی۔ بڑے بڑے وزیروں اور افسوں کے ساتھ تصاویر آج بھی موجود ہیں۔ اباجی اسے پاکستان سوشل ایسوسی ایشن کا خاموش اور گمنام مجاہد کہتے تھے۔ اس قدر فرمانبردار کہ ایک مرتبہ اباجی نے کسی بات پر غصہ ہو کر کہا "اللہ والے" ان سب کاغذات کو آگ لگا دو تو اللہ والے نے "جی سر" ایک سیکنڈ لگایا اور ان کے حکم کی تعمیل کردی جس میں بڑے قیمتی اور تاریخی کاغذات اور نایاب تصاویر بھی شامل تھیں۔

اسی دوران میری والدہ کی وفات کے بعد جب گھر کا سکوت اور اباجی کی تنہائی ایک ناقابل بیان خاموشی بن چکی تھی تب اسلم اللہ والا کا اصل روپ سامنے آیا۔ اس نے ایک نوکر کی طرح نہیں بلکہ ایک فرزند کی طرح ان کے بڑھاپے کا ہاتھ تھاما۔ اباجی کی بیماری کے دوران تلخ باتیں، چڑچڑا پن، بڑھاپے کی بےصبری، وقت کی تلخی۔۔ سب کچھ وہ "یس سر" اور "آپ درست فرمارہے ہیں" جیسے جملوں کے نرم پھائے سے سہہ جاتا تھا۔ اس کی زبان میں شکایت کا ذائقہ تو تھا ہی نہیں اور انکار تو اس کی سر شت شامل ہی نہیں تھا۔ صرف تسلیم، صرف تابعداری اور صرف وفا ہی وفا دکھائی دیتی تھی۔ لوگوں کی نظر میں ایک نشئی اور چرسی سمجھا جانے والا یہ بظاہر معمولی سا انسان ہمارے اباجی کی آنکھوں کا تارا بن کر گوہر نایاب ہوگیا۔ اس کی خدمت کے عطر میں جو خوشبو تھی وہ ہم آج بھی محسوس کرتے ہیں۔

محمد اسلم اللہ والا اباجی کے پاس آکر صرف "اللہ والا " بن کر رہ گیا لوگ اس کا اصل نام بھول گئے۔ اس کے سر پر اباجی کا ہاتھ اور اللہ والے کے ہاتھ اباجی کے کندھوں پر سایہ بن کر رہے۔ ان کی دوائیں، خوراک، وضو وغسل، لباس، کھانا چھوٹے موٹے غصے، جسم دبانا، مالش کرنا، بال بنانا، ناخن کاٹنا، ان کے کانپتے ہاتھوں اور جسم کو سہارا دینا، ان کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں پوری کرنا، حکیم افتخار صاحب کے کلینک کے پھیرئے سب کچھ اس نے ایسے سنبھالا جیسے وہ اس کی اپنی جان کا ہی معاملہ ہو۔ وہ خادم نہ تھا دیوانہ تھا اباجی کی ذات کا دیوانہ ان کا عاشق انکی محبت میں خود فنا کر دینے والا انوکھا مجذوب بھی تھا۔ وہ واقعی "اللہ والا" ہی تھا۔ میرے اباجی کہا کرتے تھے کہ اللہ نے میری مدد کے لیے ستر ہزار فرشتے متعین کر رکھے ہیں جو میری ہر معاملہ میں مدد کرتے ہیں۔ میں نے ایک مرتبہ ان سے پوچھا اباجی کبھی آپ نے ان میں سے کوئی فرشتہ دیکھا بھی ہے تو کہنے لگے کیا تمہیں "اللہ والا" دکھائی نہیں دیتا؟

زندگی کے آخری برسوں میں ہم مصروف تھے دنیا داری میں الجھے تھے اور شایدان سے دور بھی بہت تھے تو اللہ والا ایک دربان، ایک خدمت گار، ایک فرشتہ بن کر ہمارے والد کے ساتھ کھڑا رہا۔ نہ وقت دیکھا نہ موسم، نہ معاوضہ۔۔ صرف وفا کی کمائی اس کا نصب العین رہا۔ نہ کھانے کی فکر نہ پہننے کا ہوش بس چائے کی پیالی اور سگریٹ کے کش لیتا رہتا لیکن کبھی اباجی کے سامنے بیٹھ کر نہ کھاتا نہ پیتا اور نہ کبھی سگریٹ کو ظاہر ہونے دیتا۔ جب بھی اباجی کی طبیعت خراب ہوتی دوڑتا ہوا حکیم صاحب کو بلا لاتا دوائی خود دیتا۔

ہم جو اولاد تھے مشغول زندگیوں میں الجھے رہے اور وہ ہر لمحہ اباجی کے ساتھ سائے کی طرح ساتھ رہا۔ نہ کبھی شکایت کی، نہ کبھی بدلہ مانگا بس ایک بات بار بار کہتا "خان صاھب نے مجھے زندگی دی تھی اب میں ان کی زندگی کے لیے جیتا ہوں" وہ ہمارے والد کا "خادم خاص" تھا وہ سگریٹ یا کوئی اور نشہ ضرور کرتا ہوگا لیکن اسکی اباجی سے محبت کا نشہ، وفا کا نشہ اور انسانیت کا نشہ اس پر غالب آجاتا تھا۔ بڑھاپے کی سب سے بڑی ایذیت تنہائی ہوتی ہے اور وہ ان کے اس درد کا دارو بن کر ان کی تنہائی کا ساتھی بن گیا اور دو ہی لفظ دوہراتا "یس سر" یا "آپ درست فرما رہے ہیں" شاید دنیا کے ترازو میں وہ ہلکا تھا مگر اللہ کے میزان میں وہ بہت بھاری اور بڑا تھا۔

ہم نو بہن بھائیوں کی کمی اس ایک نے پوری کردی اور یقیناََ اس نے خدمت کو عبادت سمجھ کر ہمارے حصے کا کام کرکے ثابت کیا کہ خدمت کے لیے خونی رشتہ ہی ضروری نہیں ہوتا یہ تو عطا اور توفیق ہے رب جسے چاہے بخش دئے۔ اس کی یہ سعادت بہت بڑی ہے کہ اباجی کے آخری لمحات میں وہ ہی اباجی کے ساتھ تھا۔ بےشک اللہ والوں کی خدمت کے لیے ہی "اللہ والے" ہی مقرر ہوتے ہیں۔ اس کی آنکھوں کے آنسو شاید خشک ہو چکے تھے۔ عجیب بےیقینی کی کیفیت شکار تھا۔

اتنے مانوس صیاد سے ہو گئے
اب رہائی ملی بھی مر جائیں گے

اباجی کی وفات نے اس سے گویا زندگی ہی چھین لی وہ مایوس اور اداس اور تنہا تنہا پاگلوں کی طرح پریشان پھرتا تھا۔ مجھے کہتا کہ اباجی کے بغیر دل نہیں لگتا۔ ہمیں سب کو اندازہ تھا کہ یہ اب زیادہ دیر زندہ نہیں رہے گا کیونکہ وہ اباجی کے ساتھ رہنے کا وہ اسقدر مانوس اور عادی ہو چکا تھا کہ ان کے بغیر خود کو ادھورا سمجھتا تھا۔ اباجی کی وفات کے بعد بھی وہ عادتاََ گھر کا چکر لگاتا رہا اور پھر کچھ ہی دنوں میں وہ بھی اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔۔ اللہ تعالیٰ "اللہ والے" کو ان لوگوں کے ساتھ جنت نصیب کرئے جن کی خدمت اس نے دنیا میں کی اور جن کے لیے اس نے اپنی زندگی وقف کر دی۔

گو ہم شایداللہ والے کا حق ادا نہ کرسکے اور نہ ہی شاید کیا ہی جاسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے دل سے ہمیشہ دعائیں نکلتی ہیں کیونکہ اس نے وہ کام کیا جو اولاد کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے اور دکھ یہ ہے کہ وہ کام دنیا کی مصروفیات کی باعث شاید ہم اولاد ہوکر بھی نہ کر سکے۔ وہ بےشک انسان کے روپ میں اباجی کے ستر ہزار فرشتوں میں سے ایک فرشتہ ہی تھا۔ ہماری زندگی کی سات دھائیاں گز رچکی اور ہم نہیں جانتے کہ جب ہمیں ایسی مدد کی ضرورت ہوگی تو ہمارئے فرشتے کون ہو نگے؟ یا پھر ہم اس قابل ہونگے بھی کہ ہماری مدد کو فرشتے آئیں؟

Check Also

Ezazi Awara Gard (4)

By Ali Raza Ahmed