اعزازی آوارہ گرد (4)

دیسی مرغ کڑاہی سے یاد آیا۔ یہ ہر کھانا بھی اپنے مفلر سے میچ کرکے کھاتے ہیں۔ سوپ میں کافی کچھ ملا کر جب مفلر جیسا رنگ آئے گا تو پھر سو سو سوپ کی آوازیں بھی آئیں گی مگر اسے صابر شاکر بن کر ختم کرنا بھی ہوتا ہے۔ دسترخوان سے صرف ایک ڈش کا انتخاب کرتے ہیں اگر زیادہ ہوں تو سب کو ایک پلیٹ میں ڈال کر مکس کرکے ان کی قرعہ اندازی کرتے ہیں اور پھر ان میں سے ایک کا انتخاب اسی وقت کر لیتے ہیں جب وہ خود ہی"متحدہ" ہو جاتا ہے اور اس کے بعد پھر وہاں "کھانا جنگی"کا سماں ہوتا ہے یا کسی"گھٹنا" کے رونما ہونے کا ڈر یا کم از کم کھانا گھٹنے کا خوف۔
وہ بھی دن تھے جب انہوں نے اپنے سیکریٹری سے کہا میرا موبائل لے آؤ اوروہ موبائل وین اٹھا لایا۔ اسے کہنے لگے آ ج کل تم میرے سگنل پوری طرح نہیں اٹھا رہے۔ ان میں زمانے کی ماریں کھا کھا کر شروع سے ہی بڑی will power آ چکی ہے لیکن کچھ weird حالات کی وجہ سے W سائلنٹ ہوگیا ہے۔ اس کی وجہ "وومن" نہیں warnings ہیں۔ اس لئے آج کل کچھ بیمار بیمار سے لگتے ہیں جبکہWکے ری ایکشن نے کام دکھانا شروع کر رکھا ہے۔ ہنستے ہیں تو آنسو آ جاتے ہیں اور روتے ہوئے دانت نکال لیتے ہیں مگر اپنی اسی "ill power" سے بھی سے صحت مندانہ کام لیتے رہتے ہیں وہ ایسے کہ رپورٹرز باوجود ان کی طبیعت کی خرابی اور ill"تماس" کے، ٹھرمامیٹر کی بجائے مائیک ان کے آگے دھر دیتے ہیں۔
پچھلے دنوں حلقے کے ایک باقاعدہ مریض کو کہنے لگے تمہیں جب بھی میں فون کروں تو آگے سے کہتے ہو"میں مری گیاں یا میں مری جاتے جاتے بچا ہوں" لوگ مری جانے سے پہلے بیمار ہوتے ہیں تم مری جا کر بیمار ہو جاتے ہو ویسے تم مجھے کوئی"غیر مرئی" قوت لگتے ہو۔۔ اب تم کہو گے کہ تم اس بات پر کیوں مری جا رہے ہو "مریں" بیمار ہونے سے پہلے، مجھے بتاتے ہوئے تجھے موت پڑتی تھی کیا! بندہ کم از کم ایک فون ہی مار لیتا ہے۔ ویسے تیری یہ عادت مرتے دم تک نہیں جانے کی۔۔ چلو ٹھیک ہے اب کچھ دن یہاں رہو تم کون سا چار دن دوائیاں کھانے سے مارے جاؤ گے۔
مجھے ڈر ہے تمہارا حال کہیں کمالے ڈینگی اور گوگے گردواری والانہ ہو جائے (یہ دونوں مریض انہیں بیماریوں سے وفات پا چکے ہیں) واپسی پر اسے کہنے لگے کہ لوگوں کے مرنے جینے پر جانا میری پرانی عادت ہے مگر تم پر تو خدا کی مار کا مارکہ لگا ہوا ہے۔ آنکھوں والے ہسپتال گئے تو تمام مریضوں کے گلے میں موتیے کے ہار ڈالنا شروع کر دیے وہ اس لئے کہ چلو بیماری کے خلاف ویکسین ہی سہی۔ کچھ ایسی چالوں سے ہی بلا کے ہم پلہ کھڑے تھے۔ وقار مجروح کہتا ہے یہ ادبی سیاست کے جسم پر ایسا ابھار ہیں جسے ہنسی ونسی میں پھنسی کہتے ہیں۔
ایک دن حلقے کا ووٹر ان کے پاس آیا اور کہنے لگا میرے پاس رہنے کو ایک ہی کمرہ ہے جس میں میرے چھ بیوی بچے ابا جی اماں اور میرا بھائی رہتے ہیں۔ میں بہت مشکل میں ہوں میں کیا کروں۔ انہوں نے اپنا مفلر منہ پر لپیٹ کر اسے کہاکہ مجھے چھوٹے موٹے کاموں میں نہ الجھایا کرو میں بڑا ویژنری ہوں لیکن ایک بڑے کام کا لیڈرانہ اور بنی روڈ کا مشہور دیسی اور ہینڈ میڈ ٹوٹکہ تجھے بتاتا ہوں۔ ابھی جاؤ چھ عدد دیسی انڈے اور ایک مرغی مرغے کا جوڑا خرید کر اپنے "متحدہ" کمرے میں رکھو۔ وہ دو دن بعد دوبارہ آیا اور کہنے لگا ابھی بھی حالات ویسے کے ویسے ہی ہیں۔ اِنہوں نے دوبارہ اُس سے کہا اب ایک بکری بھی خرید کر ساتھ رکھو۔ چند دن بعد وہ دوبارہ آیا اور کہنے لگا مصیبتیں پہلے سے بھی بڑھ گئی ہیں۔
فوری کہنے لگے جاؤ ایک وچھا بمعہ کٹا بھی خرید کر ساتھ رکھو کیونکہ معاشی تبدیلی کا یہی ایک ٹوٹکہ ہے۔ چند دن بعد وہ نیلا پیلا ہو کر دوبارہ ان کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اب تو بات میری خودکشی تک پہنچ چکی ہے اور میرے ابا ناراض ہو کر علیحدہ نعرے بازی کرتے ہیں۔ ویسے میں نے ان کا فوری "سدِباپ" تو کر دیا تھا اور انہی حالات میں اپنی مرغی اور مرغا ان کی غذا میں شامل کر چکا ہوں۔ اس کی بات سن کر فوراً کہنے لگے۔ واپس جاؤ اور جو سب سے پہلے خریدا تھا واپس اسی طرح ان کو بیچنا شروع کرو۔ کچھ دن بعد وہ سب کچھ بیچ کر انہی قدموں پر واپس آیا تو بہت خوش تھا اور کہنے لگا! صاحب! اب کافی سکون ہے۔ میرا ووٹ ہمیشہ کے لئے آپ کا۔
ایک فولادی انسان کے طور پر مشہور ہیں مگر مقناطیس سے خوف زدہ ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ بھی فولاد سے بنا ہوتا ہے اور وہ فولاد کو اپنی جانب کھینچتا ہے۔ بقول وقار مجروح پھر یہ فولادی نہیں "فالودی" ہیں فولادی آدمی تواس لئے مشہور ہیں کہ مخالفوں کو لوہے کی سلاخوں کے پیچھے دیکھ کر خوش ہوتے ہیں۔ ویسے بھی انسان اگر صاحب روزگار ہو بااختیار ہو اور ساتھ وقت سازگار بھی ہو تو پھر وہ اپنے سنگھار، ہتھیار اور سگار کے جلوے بھی دکھاتا ہے ورنہ پھر بے یار و مددگار نظر آتا ہے۔۔
ان کے ہم مزاج سیاسی ادبی اور قریبی لوگوں نے سبزیوں اور پھلوں سے متاثر ہو کر کچھ ایسے ہی ملکوں میں پناہ لینا شروع کر دی ہے جن سے سبزیوں اور پھلوں کا تاثر ملتا ہے۔ خبریں آرہی ہیں کہ فلاں مسمی نے "مالٹا" میں پناہ لے لی ہے اور کوئی اسپین کے Grenada میں۔ پنڈی سے ہی ہمارے ایک شیخ صاحب نے شمالی امریکہ کے ملک Chile جانے کا قصد کیا ہے۔ دانشوروں کے مطابق صرف انہوں نے ہی بالکل صحیح ملک چنا ہے کیوں کہ یہ مسمی شیخ "چلی" میں ہی صحیح جچ پائیں گے کیونکہ یہ اپنے حلقے میں جہاں بھی انہیں موقع ملے اپنے قریبی دوستوں کو امپور ٹڈ مرچیں لگاکر ان کو اعزازی آوارہ گرد بنا دیتے ہیں۔
آج کل یہ ایک سیاسی پارٹی سے بھی ناراض دکھائی دیتے ہیں کہتے ہیں ہر زلزلے اور سیلاب میں مدد کے لئے پہنچنے والی جماعت میرے لئے ابھی تک کچھ نہ سکی حالانکہ میرے اوپر بھی ایک افتاد نازل ہے اور اس کا "حل" بھی انہی کے پاس ہے۔

