Khuda Ki Mojoodgi Ya Adam Mojoodgi Asal Masla Nahi (2)
خدا کی موجودگی یا عدم موجودگی اصل مسئلہ نہیں(2)
ایک پراسرار اور مروج عقائد کے مطابق کسی برتر ہستی کی موجودگی یا عدم موجودگی میری نظر میں اس وقت تک ایک غیر اہم سوال ہے جب تک ہمیں یہ معلوم نہ ہو کہ خدا کو ماننے یا نہ ماننے سے ہماری ذاتی زندگی پر کیا اثر پڑے گا؟ جہاں سائنس دانوں کا ایک طبقہ خدا کا منکر تو وہیں بہت بڑی تعداد حامیان خدا بھی موجود ہے، فلسفہ آج تک ہمیں کوئی شافی جواب نہیں دے سکا لیکن باوجود اس کے کہ خدا ہے یا نہیں اس سے اہم یہ جاننا ہے کہ خدا کو ماننے یا انکار کرنے سے میرا کیا بگڑ رہا ہے یا اس سے میری ذات کو کیا نفع ہوگا؟
آپ یہ خام خیالی ذہن سے نکال دیں کہ آپ نے خدائی ہستی کو سائنسی پیرامیٹرز میں اتار کر ثابت ہوتے ہوئے دیکھ کر تسلیم کرنا ہے، سائنس آج تک خدائی وجود تلاش نہیں کرسکی لہذا جو مل ہی نہیں سکا اس کی پیمائش کیسی؟ یقینا آنے والی دو تین صدیوں میں انسانی اذہان بڑے بڑے سوالوں کے جواب تلاشنے میں کامیاب ہوجائیں گے اور یہ بھی معلوم کرلیں گے کہ ہماری کائنات کا "محرک اول" کون تھا؟ کس نے روح، وجدان، جذبات اور سوچ کی تخلیق کی؟ کیا کوئی آسمانی اور کائناتی نظام کا منتظم بھی موجود ہے یا نہیں؟
آپ سب سے پہلے تو یہ ذہن نشین کرلیں ہمارے سائنس دان خدا کے خلاف نہیں ہیں، ان لوگوں کی خدا سے کوئی ذاتی دشمنی بھی نہیں اور نہ ہی سائنس دانوں کا خدا سے ازلی جھگڑا چل رہا ہے، یہ لوگ خدا کو ماننے سے انکار بھی نہیں کرتے تاہم یہ اس کو ماننے سے پہلے عقل کی گہرائیوں سے ثابت ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں، یہ خدا کے وجود کو دیکھنے کے متقاضی ہیں یا پھر ایسے شواہد کے متلاشی جن کی وساطت سے خدائی وجود کو تسلیم کرنے میں موجود تمام رکاوٹیں دور ہوجائیں چناں چہ ایک ایسی ہستی جس کے ہونے یا نہ ہونے پر "سائنس اور فلسفہ" بیحد پیچیدگیوں کا شکار ہوکر کوئی حتمی جواب دینے سے قاصر ہوجائیں وہاں ایک عام اور آزاد خیال انسان کے لئے لازم ہوجاتا ہے وہ ایک کونے میں کھڑا ہوکر حتمی جواب کا انتظار کرنے کے بجائے سوچے" کیا خدا جیسی ہستی موجود ہے یا نہیں؟ اور اگر موجود ہے تو اس کو تسلیم کرنے سے اس کی اپنی شخصیت کو کیا فائدہ پہنچتا ہے؟ اور اگر خدا واقعی موجود نہیں ہے تو اس کی غیر موجودگی کا اقرار کرکہ اس کی ذاتی زندگی پر کیا اثر پڑتا ہے؟
گویا اس کے لئے خدا کے وجود پر دلالت کرنے یا نہ کرنے والے ثبوتوں کو تلاش کرنے کے بجائے، خدا کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کی صورت میں اپنی ذات، شخصیت اور زندگی میں پیدا ہونے والے اثرات پر غور وفکر کرنا زیادہ اہم ہوجاتا ہے لہذا اسے چاہیے کہ وہ "سبجیکٹیو" سوالات میں وقت ضائع کرنے کے بجائے "آبجیکٹیو" چیزوں پر تفکر کرے اور ان پر غور وفکر کرنے کے بعد اگر اس کا وجدان، اس کی روح(فطرت کا نام بھی دے سکتے ہیں) یا یہ کائنات اس کو اس چیز پر قائل کرنے کی کوشش کرے کہ خدا جیسی ہستی موجود ہے تو پھر وہ دل کی گہرائیوں سے اس ذات کو اس یقین کے ساتھ تسلیم کرلے کہ 'خدا ہماری زندگی کا جیسا بھی نقشہ کھینچے گا وہ بہرحال میرے حق میں بہتر ہوگا' اور اگر وہ خدا کو تسلیم کرنے میں کسی کشمکش یا ذہنی الجھن کا شکار ہوجائے تو اپنی ذاتی زندگی پر پڑنے والے اثرات کی جمع منفی کرکہ اس کا انکار کردے کیونکہ خدا کا ہونا یا نہ ہونا ہمارے لئے ہے اور اگر اس کے نہ ہونے سے ہماری زندگی پر کوئی خاص اثر نہیں پڑتا تو سیدھا انکار کرنے میں پریشانی کیسی؟
آخر میں چند ایک باتیں عرض کرنا چاہوں گا" ہم جنھیں منکرین خدا کہہ کر پکارتے ہیں ان کے ہاں بھی چند تصورات کسی نہ کسی صورت تسلیم کیے جاتے ہیں، مثال کے طور بہت سے علماء فلسفہ کائناتی نظام کو "فطرت یا نیچر" کہہ کر پکارتے ہیں، جرمنی کے مشہور فلسفی فریڈرک ہیگل نے اس کو "ورلڈ اسپرٹ" کا نام دیا، سائنس دانوں کے ہاں اس کو "آفاقی اصول یا کائناتی قوانین" کہہ کر تسلیم کیا جاتا ہے، آئن سٹائن نے خدا کو"محرک اول" کی شکل میں بیان کیا لہذا یہ یاد رکھیں خدا کو ماننے کے لئے ایسی کوئی شرائط وضوابط موجود نہیں کہ مسلمانوں کے ہاں جو "تصور خدا" رائج ہے فقط خدا کو اس تصور یا عقیدے ہی کے مطابق تسلیم کیا جائے بلکہ یہ بھی خدا کے اقرار کی ایک شکل ہی ہے چناں چہ کون کیا ہے؟ اس کے عقائد کیا ہیں؟ اور وہ کیا سوچتا اور مانتا ہے ان چیزوں پر بحث کرنے سے گریز اور کھلم کھلا فتوے صادر کرنے سے گریز کیا کریں۔