Wednesday, 27 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Umar Farooq
  4. Alam e Islam Ke Jaiyad Ulma Bhi Nirale Hain

Alam e Islam Ke Jaiyad Ulma Bhi Nirale Hain

عالم اسلام کے جید علماء بھی نرالے ہیں

مسلم دنیا کے جید علماء کی فکری بلوغت اور استدلال کی نوعیت دیکھ کر مجھے انتہائی حیرت ہوئی، عمران خان کیونکہ اکثر ریاست مدینہ کا راگ آلاپتے رہتے ہیں چنا چہ آج بھی ریاست مدینہ کے ماڈل کو سمجھنے اور اس کی کامیابی کے عناصر کا جائزہ لینے کی خاطر متحدہ عرب امارات، ملائیشیا، ترکی کے علماء اور آکسفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامیات کے ڈین کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا، وفد کے سامنے یہ سوال رکھے گئے آخر ایسے کونسے اقدامات تھے جن پر ریاست مدینہ استوار کی گئی؟ ایک عام، اور چودہ سو سال پہلے کے زمانے میں رائج علوم سے ناواقف شخص نے کس طرح ایک عظیم رہبر اور مفکر کی شکل اختیار کرلی؟

وہ کونسے کام جن کے نتیجہ میں اسلام دنیا کا دوسرا بڑا مذہب بن گیا؟ لیکن کمال اس وقت ہوا جب اسلامی دنیا کے جید علماء بھی بصیرت سے عاری اور انتہائی کج رو نکلے، معاف کیجئے گا لیکن یہ کیسا تجزیہ کہ آپ آج کی دنیا، آج کے علوم کی اہمیت کو یکسر مسترد کرکے فقط روحانیت یا مذہبی احکامات کی بنیاد پر ایک عظیم ریاستی ماڈل کی تشکیل دینا چاہتے ہیں؟ مثلا ملائیشیا کے ایک صاحب فرماتے ہیں " آج کے مسلمانوں کے زوال کی وجوہات روحانی اور قلبی ونظری فکر سے عاری ہونے میں مضمر ہیں، مسلمانوں کو جب تک تعلیم کے ساتھ ساتھ روحانی علوم سے آگاہی اور اخلاقی اقدار سے مسلح نہیں کیا جائے گا، ہم کسی بھی صورت اسلام کا پرچم بلند نہیں کرسکیں گے"

گویا آپ کی نظر میں عصر حاضر میں بلند مقام تک رسائی روحانیت سے وابستگی کے ذریعے حاصل کی جاسکتی ہے تاہم یہ صاحب یہ نہ بتاسکے کہ ابن عربی کو آخر شہنشائیت کا مقام کیوں نہ مل سکا؟ یا مجدد الف ثانی نے ہندستان پر حکومت کیونکر نہ کی؟ صوفیوں کا معیشت سے کیا تعلق ہے بھئی؟ دوسری طرف اسلام کے اپنے نامور ترین شخص غزالی نے انھیں روحانی ملاؤں کے بخیے ادھیڑ دیے تھے؟ ابن خلدون یونیورسٹی ترکی کے ایک صاحب فرماتے ہیں " مسلمانوں کو تحصیل عروج کیلئے بہرحال سنت سے مراجعت کرنی ہوگی اور ریاست کو اس کیلئے مؤثر کردار ادا کرنا ہوگا تاہم یہ جناب اس چیز کی وضاحت نہ فرماسکے کہ آخر کس سنت کی طرف؟

کیونکہ مسلمان آج بھی جہاد کی سنت پر نہ صرف عمل پیرا ہیں بلکہ یہ لوگ اب مقام عشق میں اس قدر آگے نکل چکے ہیں کہ ان کے نزدیک اب یارسول یا حبیب کے اسٹریکرز پھاڑنے والے بھی قابل گردن زنی ہیں یہ ایک الگ بات کہ چاہے خود پورے کے پورے اسلام کو روند ڈالیں خیر ایک اعتراض یہ بھی "جن اخلاقی قدروں اور روحانی مرتبوں کا ڈھنڈوارا یہاں پیٹا جاتا ہے یورپ امریکہ، جاپان، چین، انگلستان جیسے ممالک ان سے عاری ہونے کے باوجود بے تحاشہ ترقی کررہے ہیں " کیوں؟

بقول اہل مشرق یورپ میں زنا کاری بھی عام، یہ لوگ اپنی ماؤں تک کو جھنبھوڑدیتے ہیں، ہر طرف شراب کا دور دورہ ہے، خاندانی نظام مکمل طور پر درہم برہم ہے، ان کے ہاں لوگ احساس وجذبات کی کیفیات سے عاری ایک مصنوعی روبوٹس سی زندگی گزارتے ہیں، اسلام ہو یا پھر دنیا جہاں کے مذاہب کے خلاف کھلی بغاوت کا اعلان کر رکھا ہے تاہم اس کے باوجود میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں آخر ان کی ریاستیں اتنی مضبوط اور خیرہ کن ترقی کیوں کرتی چلی جارہی ہے۔ سولر پاکر پروب سورج کو چھونے کیلئے تیار، انسانی ڈی این اے کو توڑ کر مکمل طور پر انسانی وجود بدلنے کی تیاریاں کی جارہی ہیں۔

ناسا مریخ پر قدم دھرنے کو تیار، چین دنیا جہاں کی معیشتیں نگلنے کو بے تاب لیکن اس کے باوجود یہ لوگ سمجھتے کامیابی کا راز سنت میں مضمر یا پھر روحانی قدروں کی تکمیل کرکے، لیکن اتفاق ہے کبھی انھیں اسلامی چوغہ اتار کر نظام جدید کا تجزیہ کرنے کا موقع ملے! مگر کیوں؟ جس شخص نے ساری عمر متعصب بن کر گزاردی وہ آخر تھرتھراتے جسم کے ساتھ آزاد خیالی، سائنس، سائنسدان، تحقیق، بے باک سوال کی اہمیت اور عقائد کی بے جا پابندیوں سے آزادی کی ضرورت کو کیوں محسوس کرے گا؟

کسی ملک کی ترقی کی بنیاد مذہب تو یقینا نہیں ہوسکتا کیونکہ حقیقت میں تو اسی مذہب کی کوکھ میں پلنے والا تعصب ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہوجاتا ہے اور مسلمانوں کو ترقی کے لئے بہرحال اس تعصب سے آزادی حاصل کرنی ہوگی چونکہ اسی نے ہمیں سائنس، آزاد تعلیم جس میں عقیدے نہ ہوں جو سوال کی اجازت دیتی ہو سے دور رکھا ہے رسل نے کہا تھا "عقیدت ہر طرح کی دانش کی موت کا سبب ہے" اور ہماری موت کا سبب یقین کریں یہ عقیدت ہی ہے، اسلام تو ویسے ہی اندھی تقلید سے نہ صرف منع کرتا ہے بلکہ قرآن کریم میں ساڑھے پانچ سو سے زائد آیات علم وفکر دانش و دانائی کی اہمیت پر زور دیتی نظر آتی ہے لہذا اس اسلام کی طرف لوٹیں اور علم کی شمعائیں روشن کریں تاکہ مسلمان دنیا سے قدم بہ قدم کندھے ملا کر چل سکیں

Check Also

Kash Mamlat Yahan Tak Na Pohanchte

By Nusrat Javed