Berozgari
بے روزگاری
تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی طرح بے روزگاری کا مسئلہ بھی چند ترقی یافتہ ممالک کو چھوڑ کر پوری دنیا کا مسئلہ ہے۔ بے روزگاری ایک ایسا زہر ہے جو کسی فرد کو نہیں بلکہ پورے سماج کو متاثر کرتا ہے اور تواتر کے ساتھ بڑھتی ہوئی بے روزگاری سماجی انتشار کو جنم دے رہی ہے۔ اپنی ابتدا سے ہی انسان نے پیداواری کام کے ذریعے فطرت پر قابو پایا۔ آج تک کی تمام تر تاریخ انسانوں کی مجموعی محنت کی تاریخ ہے۔ چاہے وہ محنت سائنس میں ہو، فن میں ہو یا ادب میں۔ ماضی کے تمام ترسماجوں میں محکوم طبقے سے جیری محنت کرا کے حاکم طبقے نے اپنی طاقت اور دولت میں اضافہ کیا مگر سرمایہ داری ایک ایسا نظام ہے جس میں لوگوں کو جبری طور پر کام سے بے دخل کیا جاتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ زرائع پیداوار کی بے پناہ ترقی ہے۔ شکار کے زمانے سے لے کر قرون وسطی کے ذرعی معاشروں تک، بے پناہ افرادی قوت کی ضرورت کی وجہ سے بیکاری اور بے روزگاری سے نا آشنا تھے۔ تب روزگار کی شکلیں بے ظلمانہ، غیر انسانی اور اور غلامی پر مبنی تھیں۔ لیکن سرمایہ داری کے اندر بھی کوئی پرکشش، قابل فخر اور باعزت روزگار نہیں ہے۔ سرمایہ داری نے زرائع پیداوار اور آلات پیداوار کو وسیع پیمانے پر اتنی ترقی دی کے آج انتہائی کم انسانی محنت کے ساتھ سماج کی تمام تر ضرورتوں کو آسانی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ لیکن منڈی کی معیشت کہ تسلط کے اندر یہ ذرائع پیداوار قطا سماجی کی ضرورتوں کی تکمیل کے لئے استعمال نہیں ہوتے بلکہ ان کا مقصد منافع بٹورنا ہوتا ہے۔ آج کا بحران، ماضی کے بحرانوں سے زیادہ گہرا ہے اور سرمایہ داری کے غیر میں موجود تضادات کی غمازی کرتا ہے۔
1930ء کی دہائی کے معاشی بحران میں بے روزگار ہونے والوں کو جنگ اور اس کے بعد کی بحالی کے ذریعے استعمال میں لایا گیا مگر آج کی سرمایہ داری میں کبھی پہلی جیسی بحالی ممکن نہیں اور نہ ان معاشی حالات میں جن سامراج کسی جنگی مہم کا آغاز کرسکتا ہے۔ منافع کی معیشت کبھی بے روزگاری کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتی۔ امریکی معیشت میں اپنے عروج کی انتہاؤں کے دوران میں 1953ء میں بھی پانچ فیصد بےروزگاری پائی جاتی تھی۔ 1934ء تک روزگاروں کو باقاعدہ رجسٹر کرکے روزگار دینے کا عمل پایہ تکمیل کو پہنچا اور پانچ سالہ منصوبوں نے بے روزگاری کا مکمل خاتمہ کر دیا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی پیمانے پر15 سال کے زائد عمرکے افراد میں سے 1991ء میں 62 فیصد لوگوں کو روزگار مہیا کرتا تھا لیکن 2014 میں 59.7 فیصد لوگوں کے پاس روزگار تھا۔ ان 23 سالوں میں جہاں جدید ٹیکنالوجی میں بڑے پیمانے پر ترقی ہوئی وہیں لوگوں کو روزگار ملنے کے بجائے ان کا روزگار چھینا گیا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق 2008ء سے ایک دہائی پہلے دنیا میں 12 کروڑ افراد بے روزگار تھے۔ آئی ایل او کے مطابق 2009ء میں 20 کروڑ لوگ افراد بے روزگار تھے۔ اگر ہم اس قسم کا جبری کام کرنے والوں اپنی صلاحیت سے کم تر کام کرنے والوں اور نوکری نہ ملنے پر مجبورا اپنا کام دھندہ کرنے والوں کو شامل کرے تو ڈیڑھ ارب لوگ عالمی سطح پر بے روزگار ہیں۔ سپین میں 24 فیصد لوگ بے روزگار ہے جبکہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 10 فیصد سے زیادہ ہے۔ امریکہ میں ہر ماہ جتنی نوکریاں پیدا ہوتی ہیں اس سے زیادہ تعداد میں لوگ بے روزگار ہو جاتے ہیں۔ پچھلے آٹھ سالوں میں جو نئی نوکریاں پیدا ہوئیں ان میں زیادہ تر غیر مستقل اور عارضی ملازمتیں ہیں۔ ماضی کی طرح مستقل ملازمتیں اب قصہ ماضی ہو چکی ہیں۔
پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جن کی آبادی کا زیادہ تر حصہ 18 سے 28 کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ زیادہ تر بے روزگاری کا شکار بھی یہی نوجوان ہیں جو مہنگی مہنگی ڈگریاں ہاتھوں میں دفتروں کی خاک چھان رہے ہیں۔ پاکستان کے صرف 5 بڑے بزنس اسکولوں ہر سال 2000 کے قریب طلبہ و طالبات اپنی تعلیم مکمل کرتے ہیں۔ اور ہر سال تقریبا 15 لاکھ تعلیم یافتہ یا کم تعلیم یافتہ نوجوان حصول روزگار کے لیے محنت کی منڈی میں داخل ہوتے ہیں لیکن نہ سرکار کے پاس اور نہ ہی پرائیویٹ اداروں میں اتنی سکت ہے کہ ان کو کھپایا جا سکے۔ پاکستان کی رسمی معیشت کے اندر حقیقت میں اتنی سکت نہیں ہے کہ ان تمام نوجوانوں کو نوکری دی جا سکیں۔ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کا تناسب 6 چھ فیصد سے کم ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق یہ تناسب 8.6 فیصد ہے ایسے لوگوں کو بھی روزگار کے دائرے میں شمار کیا گیا ہے جو برائے نام کام کر رہے ہیں۔ دہاڑی دار محنت کش ہیں۔ اپنی اہلیت سے کم کام کرتے ہیں یا ٹھیلا وغیرہ لگاتے ہیں۔
آج نوجوانوں سے آگے بڑھنے کا، اپنی صلاحیتوں کو تعمیراتی انداز میں بروئے کار لانے کا ہر راستہ چھین لیا گیا ہے۔ مثبت سرگرمیاں معدوم ہو چکی ہیں۔ تعلیمی اداروں کے اندر جیل خانوں جیسا ماحول ہے طلباء سیاست پر پابندی ہے۔ پارک اور گراؤنڈ قبضہ مافیہ کے نشانے پر ہے۔ ان کی جگہ ظالم اور بے حسی لے چکے ہیں۔ اس سرطان کا کوئی وقتی علاج نہیں ہے۔ ایک مکمل سرجری درکار ہے۔ بے روزگاروں کے اس بارود کو ایک چنگاری درکار ہے۔ ان حالات میں ان نوجوانوں کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے جو اس نظام کی حرکیات کو سمجھتے ہیں اور انقلابی نظریات کی بنیاد پر ایک متبادل کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔