Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tehsin Ullah Khan
  4. Ittefaq Itna Khoob Soorat Nahi Hua Karte

Ittefaq Itna Khoob Soorat Nahi Hua Karte

اتفاق اتنا خوب صورت نہیں ہوا کرتے

میں جب جب اسٹرونومی کے قریب ہوتا جارہا ہوں، تب تب اللہ تعالی کی ذات پر میرا ایمان مزید مضبوط ہوتا جارہا ہے۔ حالانکہ اسٹرونومی پڑھنے والے زیادہ تر ملحد ہی ہیں، لیکن مجھے ہر بار ایسا لگتا ہے، کہ اس خوب صورت نظام کا بنانے والا موجود ہے اور وہی یہ سارا نظام چلا رہا ہے اس مضمون میں صرف دو ہی چیزوں سے میں یہ بات ثابت کرسکتا ہوں کہ یہ نظام خود کار نہیں ہے بل کہ اس کا باقاعدہ ایک خالق موجود ہے۔

مجھے پورا یقین ہے کہ مکمل مضمون پڑھنے کے بعد اکثر "ملحدین" خود بھی یہ کہنے پر مجبور ہو جائیں گے کہ یہ نظام خودکار نہیں بلکہ اس کا خالق موجود ہے اور وہی اس کو چلا رہا ہے۔ اس "مضمون" کو آپ نے صرف پڑھنا نہیں بلکہ اس کو اپنے پاس محفوظ بھی کرنا ہے، تاکہ بوقت ضرورت کام آسکے۔ میں کوشش کروں گا کہ مضمون بہت ہی سادہ اور عام فہم رہے تاکہ عام قارئين بھی اس سے استفادہ کر سکیں۔ تو آئیئے چلتے ہیں مضمون کی طرف۔

ناسا کے مطابق ہماری زمین کی گولائی چالیس ہزار کلو میٹر جبکہ قطر تقریبا بارہ ہزار چھ سو ستاون 12657 کلو میٹر ہے۔ ہماری زمین کے گرد چھ مختلف Layers موجود ہیں۔ یہ چھ تہیں مختلف گیسوں سے بنی ہیں۔ ہر ایک تہہ کا اپنا ایک کام ہے اور یہ ہمارے لیے مختلف اہم کام سرانجام دے رہی ہیں۔ اگر یہ تہیں نا ہوتیں تو ہم زمین پر ایک دن بھی زندہ نہیں رہ سکتے تھے۔ بلکہ زمین پر کسی بھی جاندار کے لئے اس کے بغیر زندہ رہنا نا ممکن تھا۔ ان چھ تہوں کے مختلف نام ہیں۔ پہلی تہہ کو "ٹروپو سفیئر" کہتے ہیں۔ یہ زمین سے بارہ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔۔ اور اس کی "موٹائی" 8 کلو میٹر سے لیکر 14 کلو میٹر تک ہوتی ہے اوپر آپ جتنے بھی جہاز دیکھتے ہیں وہ اس تہہ کے اندر ہی اڑتے رہتے ہیں اور کبھی اس تہہ سے باہر نہیں نکل سکتے۔

دوسری تہہ کو سٹراٹو سفئیر کہتے ہیں۔ یہ زمین سے پچاس کلو میٹر کی دوری پر ہوتا ہے۔ اسکی موٹائی 35 کلو میٹر تک ہوتی ہے۔ اس تہہ میں اوزون لئیر ہوتی ہے جو ہمیں خطرناک بالائے بنفشی "Ultraviolet" شعاعوں سے "بچاتی" رہتی ہے۔ زمین سے تقریباََ 85 کلو میٹر کی دوری پر "میزو سفئیر" تہہ موجود ہے۔ اس تہہ کی موٹائی تقریبا 25 کلو میٹر تک ہوتی ہے۔ اس میں ہم سانس نہیں لے سکتے یہ لئیر مختلف گیسوں پر مشتمل ہے۔ لیکن اکسیجن کا نام و نشان نہیں ہوتا۔

اسکے بعد چوتھی تہہ تھرمو سفئیر کہلاتی ہے۔ اسکی موٹائی بہت زیادہ یعنی 510 کلو میٹر تک ہوتی ہے۔۔ تھرموسفئیر میں بہت زیادہ گرمی پڑتی ہے۔ تھرموسفئیر کی درجہ حرارت تقریبا 4600 فارن ہائیٹ تک ہوتی ہے۔ اس تہہ میں آواز بھی سفر نہیں کرسکتی کیوں کہ یہاں ہوا نہیں ہوتی، جو آواز کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاسکے۔

پانچویں تہہ کو آئینو سفیئر کہتے ہیں۔ یہ دن کے وقت بڑھتا اور رات کے وقت گھٹتا رہتا ہے۔ سورج کی روشنی جب اس پر پڑتی ہے تو وہاں پر موجود گیس کے ایٹموں سے الیکٹرانز نکال دیتی ہے۔ اس طرح وہ آئینز بن جاتے ہیں۔ اس وجہ سے اس تہہ کو آئینو سفیئر کہتے ہیں۔ یہ تہہ ہم ریڈیو سگنلز کے لیے استمعال کرتے ہیں۔ یہ تہہ چونکہ ریڈیو ویوز کو منعکس کرتی ہے۔ اس وجہ سے اس تہہ کو ہم "کمیو نیکیشن" کے لیے استمعال کرتے ہیں۔

جبکہ سب سے آخری اور چھٹے تہہ کا نام "ایگزو سفئیر" ہے۔ اس میں امریکہ کا "ISS" زمین کے "گرد" گھوم رہا ہے، گو کہ پوری کائنات میں ایسے لا تعداد سیارے موجود ہیں، جب کہ نظام شمسی میں بھی زمین کے علاوہ سات اور سیارے ہیں۔ لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ ان تمام میں سے کسی ایک کے اردگرد بھی ایسی کوئی تہیں نہیں ہیں۔ تو یہ مہربانی صرف زمین پر ہی کیوں؟ اگر زمین سے صرف ایک ماہ کے لیے ان تہوں کو ہٹادیا جائے، تو زمین پر سارے لوگ کینسر کی وجہ سے مرجائیں گے۔ لیکن ان تہوں کا ایک اور کام بھی ہے جو ان سب سے بڑھ کر ہے۔ تاہم اس کا ذکر میں سب سے آخر میں کروں گا۔ لہذا آپ نے مضمون کو اینڈ تک پڑھنا ہے۔

ہماری زمین نا تو سورج کے بہت قریب ہے، اور ناہی بہت دور ہے۔ اگر زمین "سورج" کے مزید قریب ہوتی۔ تو درجہ حرارت بہت ہی زیادہ ہوتا، جس کی وجہ سے زمین پر پھر زندگی ممکن نہیں تھی، کیونکہ عام طور پر زمین پر رہنے والے جاندار زیادہ درجہ حرارت پر زندہ نہیں رہ سکتے، ہماری زمین سورج سے بہت دور بھی نہیں ہے ورنہ نیچون کیطرح بہت ٹھنڈی ہوتی، اور زمین پر جاندار زیادہ ٹھنڈک بھی برداشت نہیں کرسکتی، بلکہ نظام شمسی میں ہم بہت ہی پروفیکٹ جگہ پر ہیں، لیکن ان سے بھی اہم چیز مشتری ہے اگر ہماری زمین مشتری سے دور ہوتی، تو زمین پر پھر بھی زندگی ممکن نہیں تھی، اب آپ لوگ سوچ رہے ہوں گے کہ مشتری کا یہاں کیا کام ہے؟ آئیئے پہلے ہم مشتری کے بارے تھوڑا بہت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

مشتری سورج سے 77 کروڑ اور 80 لاکھ کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔ زمین سورج کے گرد ایک چکر 365 دنوں میں مکمل کرتی ہے، جب کہ مشتری سورج کے گرد ایک چکر تقریبا بارہ 12 سالوں میں مکمل کرتا ہے۔ مشتری اپنے axis پر ایک چکر 9 گھنٹے، 50 منٹ اور 30 سیکنڈ میں مکمل کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے، کہ مشتری پر تقریبا پانچ گھنٹے دن اور پانچ گھنٹے رات ہوتی ہے۔ مشتری ہمارے نظام شمسی کا سب سے بڑا سیارہ ہے اور مکمل گیس سے بنا ہے۔ یہ اتنا بڑا ہے کہ ناسا فلکیات دانوں کا ماننا ہے کہ اس میں تقریبا تیرہ سو زمینیں سماسکتی ہیں۔

زمین کا ڈائی میٹر تقریبا 12657 کلو میٹر، جب کہ مشتری کا ڈائی میٹر تقرہبا ایک لاکھ اور 40 ہزار کلو میٹر ہے، اس سے آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ سیارہ مشتری کتنا بڑا ہوگا۔ ناسا کے تازہ ترین رپورٹ کے مطابق مشتری کے 95 چاند ہیں۔ جو سارے چاند مشتری کے گرد اپنے اپنے دائرے میں تقریبا پچھلے چار ارب سالوں سے گھوم رہے ہیں اور اب تک کسی ایک چاند نے غلطی سے بھی اپنے "راستے" سے بھٹکنے کی جرات نہیں کی۔ مشتری سورج سے پانچویں نمبر پر ہے۔ یعنی عطارد، زہرہ، زمین، مریخ اور اس کے بعد پانچویں نمبر پر مشتری ہے۔

مشتری کا سب سے بڑا چاند گانیمید ہے، گانیمید ہمارے نظام شمسی کا بھی سب سے بڑا چاند ہے۔ مشتری سیارے کا ایک چاند "یورپا" ہے، اور ناسا فلکیات دانوں کا کہنا ہے کہ اس پر زندگی کے کافی ٹھوس شواہد ملے ہیں۔ یورپا زمین سے قریب ترین واحد ایسی جگہ ہے، جس پر سائنسدانوں کو زندگی کے آثار ملے ہیں۔ مشتری کا "چاند" یورپا کی اوپری سطح یعنی کرسٹ کے نیچے پانی کے ایک بڑے ذخیرے کی موجودگی کا بھی پتہ چلا ہے۔

مشتری کے رداس تقریبا 69911 کلومیٹر ہے، نظام شمسی میں مشتری کا دن سب سے چھوٹا ہوتا ہے۔ مشتری پر ایک دن میں تقریباً 10 گھنٹے لگتے ہیں۔ اسکا خط استوا سورج کے گرد اپنے مداروی راستے کے حوالے سے صرف تین ڈگری تک جھکا ہوا ہے۔ اس کا سادہ مطلب یہ ہے کہ مشتری سیاہ تقریباً سیدھا گھومتا ہے اور اس کے موسم اتنے زیادہ نہیں ہوتے جتنے دوسرے سیاروں پر ہوتے ہیں۔ چار بڑے چاندوں اور بہت سے چھوٹے "چاندوں" کے ساتھ مشتری ایک قسم کا چھوٹا نظام شمسی بناتا ہے۔ کیونکہ مشتری کے 95 چاند ہیں۔ ناسا کے بین الاقوامی فلکیاتی یونین کی جانب سے تقریبا 57 چاندوں کو سرکاری نام دیے گئے ہیں۔ جبکہ باقی چاندوں کے ناموں کا انتظار ہے، کیوں کہ ان کو ابھی مخصوص نام نہیں دیے گئے ہیں۔ مشتری کے چار 4 سب سے بڑے چاندوں یوروپا، گانمید، آئیو اور کالیستو ہے۔

مشتری کو پہلی بار مشہور ماہر فلکیات "Galileo Galilei" نے دوربین کے ابتدائی ورژن کا استعمال کرتے ہوئے دیکھا تھا یہ چار 4 چاند آج گیلیلین سیٹلائٹس کے نام سے جانے جاتے ہیں، اور یہ ہمارے نظام شمسی میں سب سے زیادہ دلکش مقامات ہیں۔ آئیو نظام شمسی میں سب سے زیادہ آتش فشاں فعال مجسم مانا جاتا ہے۔ جب کہ گانمید نظام شمسی کا سب سے بڑا چاند ہے۔ زندگی کے اجزاء کے ساتھ مائع پانی کا سمندر یوروپا کی منجمد کرسٹ کے نیچے موجود ہےسولر سسٹم کے سب سے بڑے گیس جائنڈ سیارہ مشتری کے رازوں کو جاننے کے لئے ناسا نے پانچ اگست 2011 کو "جونو" خلائی مشن بھیجا گیا۔ جونو مشن کا مقصد مشتری کی کور، اوریجن اور ایولوشں کو جاننا تھا، تقریبا 1740 ملین کلومیٹر اور 5 سال کے طویل سفر کے بعد جو نو اسپیس کرافٹ سال 2016 کو مشتری کے قریب پہنچ گیا۔ ناسا کا جونو اسپیس کرافٹ کو مشتری کے گرد تقریبا 34 چکر کاٹنا تھا۔ جو بعد میں بڑھا کر 76 کے قریب کردی گئے، کیونکہ ایک جونو میں یہ صلاحيت موجود ہے، کہ ان کو ہم کسی بھی حدتک بڑھا سکتے ہیں۔ اس جونو مشن نے مشتری کے چاند یوروپا کے سطح پر برف کے بڑے بڑے سمندر ڈھونڈ لئے۔۔ جو ایک بہت بڑا کارنامہ ہے۔

یہ تو رہی مشتری کی مختصر تعریف، اب ہم رزلٹ نکالنے کی طرف چلتے ہیں۔ چونکہ اس مضمون سے ہمیں پتا چلا کہ مشتری کا قطر زمین سے کافی زیادہ ہے۔ اس لیے ماس بھی زیادہ ہوا، اور جو ہم سے زیادہ دور بھی نہیں ہے اور یہ دونوں باتیں زمین پر موجود تمام جانداروں کے لیے انتہائی ضروری تھیں مگر کیسے؟ نیوٹن لاء کے مطابق جس باڈی کا ماس زیادہ ہو تو اسکا کشش ثقل بہت زیادہ ہوگا، یہ فزکس کا ایک مانا ہوا قانون ہے اب چونکہ مشتری کا ماس زیادہ ہے اور زمین کے قریب بھی ہے۔ اس وجہ سے مشتری زمین کی طرف آنکھ اٹھانے والے ہر آوارہ "دم دار ستارے" اور سیارچے "Asteroid" کو اپنی طرف کھنچ لیتی ہے، یا پھر کسی اور جانب دھکیل دیتی ہے تاکہ زمین پر کوئی آنچ نہ آنے پائے۔ یوں سمجھ لیں، کہ کائنات کے خالق نے "زمین" کی حفاظت کی ذمہ داری مشتری سیارے کو سونپ رکھی ہے اس لیے تو علامہ محمد اقبال کہتے ہیں کہ

ہر چیز سے ہے تیری کاری گری ٹپکتی
یہ کارخانہ تُو نے کب رائیگاں بنایا

چونکہ ہم جانتے ہیں، کہ مشتری اور زمین دونوں سورج کے گرد مسلسل گھوم رہے ہیں اور دوران گردش کبھی کبھی مشتری زمین سے دور چلی جاتی ہے۔ اب ایسے میں خلائی پتھروں سے زمین کی حفاظت کیسے ہوتی ہے تو اس کے لئے بھی خالق نے بندوبست کیا ہوا ہے۔

ناسا سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ روزانہ لاکھوں شہابیئے زمین کے مدار میں داخل ہوتے ہیں۔ جن کی رفتار کافی زیادہ ہوتی ہے یعنی بندوق کی گولی سے 50 گنا زیادہ۔ ان کے مطابق اگر ان شہابیوں زمین پر صرف ایک ماہ تک بھی مسلسل بارش ہوئی تو زمین پر کچھ بھی نہیں بچے گا۔ سب کچھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجائے گا۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ زمین کی سطح سے 50 میل تک ایک حفاظتی پردہ "اوزون" لگا ہوا ہے۔ یہ پردہ مختلف گیسوں کا مجموعہ ہے۔ چنانچہ جو بھی شہابیہ زمین کے مدار میں داخل ہوتا ہے، وہ جل کر راکھ ہو جاتا ہے۔ سائنس ہمیں صرف اس تہہ کی حقیقت تو بتا سکتی ہے، لیکن یہ نہیں بتا سکتی کہ اس تہہ کو کس نے بنایا ہے؟ وہ یہ نہیں سوچتی، کہ اس کو بھی اسی ذہین ترین ہستی نے بنایا ہے جو "کائنات" میں شہابیوں کے قانون کا بھی بنانے والا ہے۔ وہ ہستی چاہتی ہے کہ زمین پر میری مخلوق سکون سے رہ سکے اور میری "تخلیقات" پر غور کرے اور پھر میری معرفت حاصل کرے۔

چنانچہ ہمیں جان لینا چاہیے، کہ اگر "زمین نظام شمسی" کا سب سے بڑا سیارہ ہوتا، تو پھر ہم سب کا بچنا مشکل تھا جب کہ مشتری کو یہ امتیازی خصوصیت حاصل ہے، کہ وہ زیادہ تر "ایسٹرائڈز" کو زمین کی بجائے، خود سے ٹکرا دیتی ہے۔ اب اگر زمین کا سائز مشتری سے بڑا ہوتا پھر یہ کام یقینا زمین کی ذمہ داری بنتی، اور اسطرح ہمارا بچنا مشکل ہوجاتا، لیکن اللہ تعالی زمین کا سائز بہت ہی پرفیکٹ بنا رکھا ہے اور مشتری نظام شمسی کا واحد ایسا سیارہ ہے جس نے یہ کام اپنے ذمہ لے رکھا ہے اور ابھی تک اپنی اس ذمہ داری کو بخوبی نبھا رہی ہے۔ اگر کسی کو لگتا ہے کہ یہ سب کچھ ایک خوبصورت اتفاق کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ تو یقینا اسے کسی "ماہر طبیب" سے "رجوع" کرنے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ اتفاق کبھی بھی اتنا خوب صورت نہیں ہوا کرتے"۔۔

Check Also

Hikmat e Amli Ko Tabdeel Kijye

By Rao Manzar Hayat