Mayoos Nao Jawan
مایوس نوجوان
اس نے تولیہ چارپائی پر پھینکا اور موبائل پر لیٹ کر یوٹیوب اور انسٹاگرام پر ریلز اور شارٹس دیکھنے لگا۔ اسے آج گھر پر بیٹھے پورا مہینہ ہوگیا تھا جبکہ نوکری اس نے اس لیے چھوڑ دی کیونکہ اس کا اب کام میں دل نہیں لگتا تھا۔ اسے تو کاروبار کرنا تھا لیکن کس چیز کا؟ یہ ایک سوال ہی تھا۔ پیچھے سے ایک آواز اس کے کانوں میں آئی کہ وآصف بیٹا! ادھر آؤ یہ ککر کی ربڑ لگوانی ہے یہ تو لگوا لاؤ۔
اچھا امی لگوا لاتا ہوں اس نے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئےکہا۔ بیٹا کتنے دن ہو گئے ہیں میں تمہیں روز کہ رہی ہوں ایک بار میں بات کیوں نہیں سنتے! یار کیا ممی ابھی تو اٹھا ہوں آپ بھی صبح صبح شروع ہو جاتی ہیں یہ کہہ کر وہ اٹھا اور کانوں میں ہیڈ فون لگا کر کمرے میں جاکر لیٹ گیا! اس وقت وآصف آج کل کے ایک نوجوان کی بھرپور عکاسی کر رہا ہے جو مزاج کا تیز اور دماغی طور پر فرسٹریٹڈ معلوم ہوتا ہے جس کی زندگی کا مقصد اس سے بہت دور چلا گیا۔
یہ ایک فلم میں چلتے پھرتے وہ خاموش اداکار کی طرح ہے جس کو صرف سین بھرنے کا کام دیا گیا ہے۔ یہ اور اس جیسے نوجوان ایسے بے مقصد زندگیاں کیوں گزار رہے ہیں اور کیا ان کی زندگیوں کو lethargic کرنے میں اردگرد موجود آگہی اور انفارمیشن جسے اس لئے بنایا گیا تھا کہ انسانی زندگی کی مدد کرے اور اسے پھلنے پھولنے اور بڑھنے کے مواقع فراہم کرے کہیں وہی آگہی تو واصف جیسے نوجوانوں کو کھا تو نہیں گئی؟
میرا تعلق چونکہ ابلاغ اور مواصلات کے شعبے سے ہے، اور بطور ایک ابلاغ کے طالبعلم واصف کے مسئلہ کا حل آپ کے سامنے رکھنے کی جسارت کروں گا۔
میڈیا کے استعمال سے متعلق Uses & Gratification Theory کا خلاصہ یہ کہتا ہے کہ لوگ میڈیا کو اپنی ضروریات کے پورا ہونے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ لفظ "Gratification" کا مطلب تسکین ہے جو کہ اپ کی خواہشات کی تکمیل کا نام ہے۔ گویا آج کا جدید دور اور اس کا میڈیا آپ کے مطابق کام کر رہا ہے جس کی واضح مثال نیٹ فلکس اور میٹاورس ہے جس نے بنی نو انسان کے لیے بہت آسانی کر دی ہے۔
یہ بات بہت حد تک درست ہے کہ معاسرے کے چند طبقات میڈیا کو اپنے روزمرہ کی مصروف زندگی میں تھوڑی دیر کے لیے فرار حاصل کرنے کو استعمال کرتے ہیں گویا یہ آپ کو تھوڑی دیر کے لیے تسکین پہنچانے میں مدد دیتا ہے۔ جیسا کہ ایک مشہور امریکی فلاسفر اور سوشل سائنٹسٹ ابراہم میزلو (Abraham Maslow) نے اپنی مشہور تھیوری Hierarchy of Needs میں انسانی ضروریات کو پانچ درجوں میں تقسیم کیا اور یہ بتایا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انسانی خواہشات کی تسکین کن مراحل سے گزرتی ہے۔ یوزز اینڈ گریٹیفیکشن تھیوری بھی انہی نظریات پر بات کرتی ہے اور جس پہلو کا ذکر سب سے زیادہ ملتا ہے وہ Escapism یعنی فرار پسندی ہے جو کہ ہمارا اصل موضوع بحث بھی ہےکہ کیسے آج کا میڈیا لوگوں میں فرار پسندی کو تیزی سے ڈال چکا ہے جس کا نتیجہ واصف جیسے بے پناہ کرداروں کا جنم ہے جو فرسٹریٹڈ اور بے مقصد زندگی گزار رہے ہیں۔
آج کا میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا انسان پر تین طریقوں سے اثر ڈال رہا ہے سب سے پہلے تو آج کے میڈیا کا کنٹینٹ سامعین کی توجہ کا دورانیہ کم کر چکا ہے آپ خود دیکھیں کہ آج کا نوجوان جلدی بیزار اور اکتا جاتا ہے کیونکہ اس کی سوچ آج کا میڈیا پروگرام ہی اس طرح کر رہا ہے کہ اسے چھوٹے اور جلدی کی عادت ہوتی جا رہی ہے۔ وہ کم وقت میں زیادہ کا متلاشی ہوتا جا رہا ہے اور اسی وجہ سے محنت اور صبر جیسے افعال جو پہلے انسانوں میں پائے جاتے تھے اب صرف کتابوں اور تحریروں کی زینت بن چکے ہیں۔
دوسرا، سوشل میڈیا کے آزادانہ استعمال اور غیر معیاری کنٹینٹ نے انسان کی سوچ کو شدید متاثر کر دیا ہے جس سے سب سے زیادہ ہمارا معیار خراب ہوا ہے اور سماجی طور پر جو بالیدگی ایک قوم میں ہونی چاہیے وہ اب اس طرح نظر نہیں آتی۔
تیسرا اور سب سے اہم پہلو جو بہت تیزی سے ہماری تنزلی کا باعث بن رہا ہے وہ طبقاتی ظلم ہے جو اس جدید میڈیا کے فروغ سے جنم لے چکا ہے! میری نہ مانیں، آپ انسٹاگرام کھول کر دیکھ لیں آپ کو ایک طبقے کے کچھ افراد نظر آئیں گے جو اپنی زندگی کی جھلکیاں وہاں پر شیئر کرتے ہیں جسے دیکھ کر بہت سے لوگ احساس کمتری اور ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ اسی طرح ملازمت اور پروفیشنل کیریئر کے فروغ میں مدد دینے والے پلیٹ فارم لنکڈ ان (LinkedIn) کو جب ایک غربت کا مارا ڈپریس نوجوان دیکھے گا تو اسے مایوسی کے سوائے اور کچھ نہیں ہوگا اور وہ اپنی اچھی بھلی نوکری سے بھی تنگ آجائے گا۔ یہ ہے وہ مایوسی جو کہ اس تحریر کے عنوان میں موجود ہے جو انسان کو اپنے حال اور حالات میں مطمئن نہیں ہونے دے رہی۔
میرا سوال ان پلیٹ فارمز کے استعمال کرنے والوں سے نہیں ہے میرا سوال اس سوچ سے ہے جو رفتہ رفتہ ہم سب میں شامل ہوتی جا رہی ہے کہ ہم ایک آرٹیفیشل اور ورچول دنیا کے شکنجے میں اس قدر پھنس چکے ہیں کہ ہمارا نوجوان شدید ڈپریس اور فرسٹریٹ ہو چکا ہے۔ اب ان سب باتوں کا حل کیا ہے؟ چونکہ ہم یوزز اینڈ گریٹیفکیشن کے اصول پر چل رہے ہیں لہذا ہمیں حل بھی Over night چاہیے ہے کہ رات سوئیں اور صبح سب کچھ ٹھیک ہو جائے۔ میرے نزدیک یہ ایک چین پراسیس ہے جس میں وقت کے ساتھ ساتھ چیزوں کی بہتری سے کام آگے بڑھ سکتا ہے۔ سب سے پہلے تو سوشل میڈیا کے Laws & Regulations کی آسر نو تعمیر اور Reforms کی شدید ضرورت ہے کیونکہ یہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز مغربی معاشرے اور ان کی معاشرتی اقدار کو دیکھ کر بنائے گئے ہیں جنہیں ہماری سوچ اور معاشرے کے حساب سے تبدیل کرنا بہت ضروری ہے۔
دوسرا، سوشل میڈیا کے استعمال کو Incentivise کیا جائے جس طرح ہمارے پڑوسی ملک بھارت نے ای کامرس اور آئی ٹی کے سیکٹر کو اس حد تک عروج کی انتہا کو پہنچایا ہے کہ باڈی مساج تک آپ آن لائن بک کروا سکتے ہیں۔
وہاں سوشل میڈیا ایپس کے استعمال پر انہیں کیش پرائزز ملتے ہیں جن سے ان کا رجحان سوشل میڈیا کے مثبت پہلوؤں کی طرف زیادہ ہوتا ہے۔ اس بات کا اندازہ ایسے لگایا جا سکتا ہے کہ دنیا بھر کی بڑی ائی ٹی کمپنیوں کی لسٹ دیکھی جاۓ تو آپ کو بھارتی ان میں سب سے زیادہ ملیں گے۔
یہ ایک دو اقدام ایسے ہیں جن کا ثمر آپ کو ابھی اتنا جلدی تو نہیں ملے گا لیکن اگر اپنا لیے گئے تو آئندہ کچھ سالوں میں ان کا فائدہ ہماری انے والی نسلوں کو ضرور ملے گا ورنہ ایسے واصف جو آج ہزاروں کی تعداد میں ہیں کل لاکھوں اور کروڑوں میں تبدیل ہو جائیں گے۔