Saturday, 23 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Taseer Zaman
  4. Pehli Eent

Pehli Eent

پہلی اینٹ

ہمارے کئی نابغہ روزگار لوگ ٹاٹ پر بیٹھ کر تعلیم حاصل کرتے رہے اور ملک و قوم کی پیشانی کا جھومر بن گئے۔ مگر مدت ہوئی ہماری تعلیم رو بہ زوال ہے۔ ہمارے تعلیمی ادارے بانجھ ہو چکے ہیں، صاحبان دانش و بصیرت ناپید ہو رہے ہیں۔ تحصیل علم کے میدان میں دنیا کے دیگر ممالک نے وہ زقند بھری کہ اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان سے تحصیل علم کرنے والے دیگر ممالک کے طلبا سے ساٹھ سال پیچھے ہیں۔

اس زوال اور بانجھ پن کی وجوہات کئی بیان کہ جاتی ہیں۔ شاید 24 کروڑ کی آبادی 24 کروڑ وجوہات بیان کر دے۔ ہر حکومت میں آنے والا تعلیم کا سب سے بڑا ہمدرد ہوتا ہے۔ بڑے بڑے بیانات دیتا ہے۔ جبکہ تعلیمی ماہرین جو کہ زیادہ تر مغربی ملکوں سے پڑھ کر آتے ہیں اور دارالحکومت کے اے سی لگے ٹھنڈے کمروں میں بیٹھ کر تعلیمی پالیسیاں بنانے کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ مگر اس انحطاط کے اسباب کی کھوج میں کوئی دفتر سے اور شہر سے باہر قدم رکھنے کو تیار نہیں ہوتا کہ آخر ہمارے تعلیمی ڈھانچے کو کونسی بیماری لاحق ہے کہ دن بدن لاغر اور شکستہ ہوتا جاتا ہے۔ سب کنویں کو صاف کرنے کے لیے پانی کے ڈول نکالتے ہیں مگر اس میں پڑا کتا نکالنے کی طرف کسی کا دہیان نہیں جاتا۔ جب تک بیماری کا سبب معلوم نہ ہو، کوئی دوا بھی اثر نہیں کر سکتی۔

میں آج ایک ایسے گھمبیر مسئلے کی طرف مقتدرہ اور قارئین کی توجہ دلانا چاہتا ہوں جو کہ اس تعلیمی انحطاط کی سب سے بڑی وجہ ہے مگر دفتروں میں بیٹھے بیوروکریٹ اور شہرت کے بھوکے سیاستدان کبھی بھی اس طرف متوجہ نہیں ہوئے۔ جب بھی تعلیم کی بات ہوتی ہے تو یونیورسٹی سے شروع ہوکر یونیورسٹی پر ختم ہو جاتی ہے۔ کیونکہ یونیورسٹی نظر آنے والی چیز ہے اور سیاست کو چمکا سکتی ہے۔ مگر یہ کبھی کسی نے سوچا کہ یونیورسٹی میں آنے کے لیے بھی نوجوان کئی مراحل سے گزرتے ہیں۔ یعنی کالج، ہائی سکول اور پرائمری سکولز۔

جب بھی معیاری تعلیم کے لیے اقدامات سوچے جاتے ہیں تو بچوں کے بستوں میں تین چار کتابوں کا اضافہ کر دیا جاتا ہے اور ان کتابوں میں ڈاکٹریٹ لیول کا علم اور الفاظ ٹھونس کر نئے آئن سٹائن اور گلیلیو کا انتظار شروع کر دیا جاتا ہے۔ مگر وقت گزرنے کے ساتھ معاملہ مزید بگڑ جاتا ہے۔ اور اہل اختیار اساتذہ پر سارا ملبہ ڈال کر کہتے ہیں کہ ہماری تعلیم ان اساتذہ کے ہاتھوں تباہ ہو رہی ہے۔ جبکہ اس کی اصل وجہ قانون سازوں اور منصوبہ سازوں کی زمینی حقائق سے بے خبری ہے۔ اعلی تعلیم کی پہلی سیڑھی پرائمری سکول ہیں اور جب پہلی سیڑھی ہی کمزور اور تنگ ہوگی تو اس کے ذریعے کیسے کوئی اگلی منزل تک پہنچ پائے گا۔

رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2 کروڑ سے زائد بچے پرائمری سکولز میں داخلے سے محروم ہیں۔ جو داخلے سے محروم ہیں وہ تو علم سے محروم ہیں ہی مگر کیا جو سکولوں میں داخل ہیں ان کو تعلیم کے لیے بہترین ماحول میسر ہے؟ جواب ہے نہیں۔ ہر سال مردم شماری ہونے اور آبادی میں اضافے سے باخبر ہوتے ہوئے بھی ہمارے ملک کے ہر شہر اور دیہات میں پچاس سال پہلے بنے ہوئے پرائمری سکولوں پر بچوں کو لادا جا رہا ہے۔ دیہات کے پرائمری سکولوں میں جا کر دیکھیں تو سہی۔ اول کلاس سے لے کر پانچویں تک ہر کلاس میں 80 سے 90 تک بچے کھچا کھچ بھرے ہوئے ہیں۔ ہر کلاس کی معیاری تعداد زیادہ سے زیادہ 30 یا 35 ہو نی چاہیے۔ تاکہ بچوں کو کھلی فضا میں استاد کی بات سننے اور سمجھنے میں دشواری نہ ہو اور استاد بھی پرسکون ہو کر ہر بچے پر توجہ مرکوز رکھ سکے۔

اس وقت پاکستان کی آبادی میں بچوں کا تناسب 45 فیصد ہے اور اگر کسی گاؤں کی آبادی 3000 ہو تو بچوں کی تعداد تقریبا 1350 بنتی ہے۔ جبکہ اکثر و بیشتر دیہات میں طلبا اور طالبات کے لیے فقط دو پرائمری سکول موجود ہیں۔ جن میں سے ایک میرا گاؤں بھی ہے یعنی ہر سکول کے لیے 675 بچے اور ہر کلاس کے لیے 135 بچے ہوئے۔ ان میں سے 400 تک سکول آتے ہیں اور دیگر داخلے سے محروم رہتے ہیں۔

حکومت اور محکمہ تعلیم ہر سال اساتذہ کو زیادہ سے زیادہ داخلے کرنے پر مجبور کرکے اپنی فہرستیں سیدھی کر لیتے ہیں مگر ان داخل شدہ بچوں نے کیا پڑھا اور کیسے پڑھا یہ ان کا درد سر ہے ہی نہیں۔ انہوں نے تو پریس کانفرنس کے ذریعے عوام اور بین الاقوامی تنظیموں کی آنکھوں میں دھول جھونک دی۔ اب ان کا کام ختم۔

جب تک ہم اپنے پرائمری کے بچوں کی تعلیم کے لیے اچھے معیاری اور زیادہ سکول نہیں بنائیں گے اور ان کو صاف ستھرا ماحول نہیں دیں گے تب تک ہمارے کالج اور یونیورسٹیاں ویران ہی رہیں گی۔

ہمارے اکثر کبرا ابتدائی تعلیم کے انحطاط کا ذمہ دار اساتذہ کو گردانتے ہیں۔ جبکہ اساتذہ خود مجبور ہیں۔ 80-90 بچوں کو سنبھالنا ہی دشوار ہو جاتا ہے چہ جائیکہ ان کو پڑھایا جائے۔ اپنے گاؤں کے پرائمری سکول میں جانے کا اتفاق ہوا تو استاد نے مجھے کلاسز کا وزٹ کرایا۔ وہاں ایک ہڑبونگ مچا ہوا تھا اور سامنے کھڑے یا بیٹھے اساتذہ مقدور بھر کوشش سے گلا پھاڑ کر پڑھانے کی کوشش میں مصروف تھے۔ انہوں نے بتایا کہ ان بچوں کو صرف کلاس میں روکے رکھنا بھی ایک کارنامہ ہے۔

اکثر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پرائیویٹ سکولوں میں اساتذہ تھوڑی تنخواہ میں اچھا پڑھاتے ہیں جبکہ سرکاری سکول میں بڑی بڑی تنخواہیں لے کر بھی معیاری تعلیم نہیں دی جاتی۔ یہ بات بھی زمینی حقائق سے مطابقت نہیں رکھتی۔ پرائیویٹ سکول میں کلاس میں طلبا کہ تعداد زیادہ سے زیادہ 30 ہوتی ہے جبکہ سرکاری سکول کے ایک کلاس میں بچوں کی تعداد 80 سے لے کر 90 تک ہوتی ہے۔ لہذہ تعلیم کے اس فرق کا سبب استاد کی نااہلی نہیں بلکہ مناسب ماحول کا فقدان ہے۔ اگر سرکاری پرائمری سکولوں کی تعداد بڑھائی جائے یا پھر ان موجود سکولوں میں کمروں اور اساتذہ کی تعداد بڑھا کر بچوں کو اچھا تعلیمی ماحول دیا جائے تو یقینا مستقبل میں اس تعلیمی انحطاط کو روکا جا سکتا ہے۔

پرائمری سکول تعلیم کی عمارت کی پہلی اینٹ ہے۔ اگر پہلی اینٹ ہی صحیح نہ لگ پائے، اور بنیاد ہی کمزور ہو تو عمارت کو مضبوط کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ فارسی کی مشہور کہاوت ہے کہ

خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج

اگر معمار پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی لگا دے تو پھر دیوار کہکشاؤں تک بھی اٹھا لی جائے وہ ٹیڑھی ہی اٹھے گی۔

Check Also

Raston Ki Bandish

By Adeel Ilyas