Kya Election Naguzeer Hain?
کیا الیکشن نا گزیر ہیں؟
پاکستان اس وقت معاشی اور سیاسی بحران سے گزر رہا ہے۔ ویسے تو پاکستان ہر 5 یا 10 سال بعد سیاسی و معاشی بحران کا شکار ہوتا ہی رہتا ہے مگر اس دفعہ یہ بحران اتنا شدید ہے کہ ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ چکا ہے۔ کسی ماہر سیاسیات و معاشیات کو آس پاس امید کی کرن نظر نہیں آ رہی اور عوام بھی اس صورت حال کی تپش کو محسوس کرنے لگے ہیں۔ صنعتیں بند ہو رہی ہیں، درآمد، برآمد بند ہے اور دن بدن حالات بد سے بد تر ہوتے جا رہے ہیں۔
آئی ایم ایف اس دفعہ زبانی کلامی وعدوں پر یقین کر کے قرض دینے سے اعراض برت رہا ہے۔ جبکہ دوست ممالک کے ساتھ ساتھ سرمایہ کار بھی آئی ایم ایف کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ لہذہ ملک میں کاروباری سرگرمیوں کے لیے آئی ایم ایف کا پروگرام بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ جبکہ ملک کی ان مشکلات میں دہشت گردی کی تازہ لہر نے مزید پیچیدگی پیدا کر دی ہے۔
ملک کو ان حالات سے نکالنے کے لیے مشکل فیصلوں اور سخت اقدامات کی اتنی شدید ضرورت کبھی نہیں رہی جتنی اب ہے جبکہ ہماری سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنما ہمیشہ ملک کے مفادات کے بجائے اپنے سیاسی مفادات کو ہی مدنظر رکھتے ہیں۔ حالیہ سیاسی منظر سب کے سامنے ہے۔ نون لیگ اور اس کے اتحادی پاکستان کے مفاد کی بجائے اپنے آئندہ ہونے والے الیکشن کو ہی دیکھ رہے ہیں خاص طور پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار ماہرین معاشیات کی آہ و زاریوں کے باوجود ڈالر اور معیشت کو اپنی ضد اور نواز شریف کی سیاست کے بھینٹ چڑھانے پر مصر ہیں۔
حالیہ پی ڈی ایم حکومت "نہ جائے رفتن نہ پائے ماندن" کی صورتحال سے دوچار ہے اور ان کی یہ گو مگو کی کیفیت پاکستان کو مزید مشکلات کی دلدل میں دھنسائے جا رہی ہے۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے پنجاب اور پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کا جو اعلان کیا تھا اس پر بھی عمل درآمد شروع ہو چکا ہے آئندہ چند گھنٹوں میں شاید اسمبلیاں تحلیل ہو جائیں گی۔ جس سے جاری سیاسی محاذ آرائی مزید گھمبیر ہو جائے گی۔ مطلب پاکستان کا سیاسی منجدھار مزید بڑا ہوتا نظر آ رہا ہے۔
اس ساری صورتحال میں الیکشن ہی شاید تمام مشکلات کا حل ہیں۔ اگر اس سے مشکلات ختم نہ بھی ہوں تو کم ضرور ہوں گی۔ الیکشن کے بعد کامیاب ہونے والی جماعت کے پاس مشکل فیصلے کرنے کے لیے طویل وقت ہوگا اور اسکو فورا کسی عوامی یا سیاسی ردعمل کا خوف نہیں ہوگا جبکہ آئی ایم ایف بھی کسی ایسی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرنے میں سہولت محسوس کرے گا جس کے پاس 5 سال کا وقت ہوگا۔
آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا نئی حکومت کے لیے نسبتًا زیادہ آسان ہوگا۔ جبکہ اس وقت آئی ایم ایف اسی مخمصے میں ہے کہ کیا اس مختصر مدت کے لیے آئی حکومت کے ساتھ کیے گئے معاہدے پر نئی آنے والی حکومت عمل کرے گی۔ آئی ایم ایف کے اس خدشے کے ساتھ ہی یہ بات بھی عیاں ہے کہ موجودہ حکومت کسی بھی طرح کے سخت فیصلے کو اپنی سیاسی موت سمجھتی ہے اور اس ڈر کی وجہ سے کوئی بھی اقدام کرنے سے گریزاں ہے۔
آخر میں ایک عرض اور ہے کہ موجودہ حکومت مہنگائی سے ڈر رہی ہے مگر مہنگائی سے بڑی عفریت اشیاء کی عدم موجودگی کی صورت میں منہ کھولے کھڑی ہے۔ اگر جلد سے جلد سیاسی مشکل فیصلے نہ کیے گئے اور اس کی وجہ سے معاشی فیصلے تاخیر کاشکار ہوتے رہے تو بازار سے خوراک، ادویات اور ایندھن مہنگے داموں ملنا بھی دشوار ہو جائے گا جو کہ انارکی اور خانہ جنگی کو جنم دے گا۔ لہذہ مہنگائی سے ڈرنے کی بجائے، اشیائے ضرورت کی دستیابی پر توجہ دی جانی چاہیے۔
اشیاء کی دستیابی معاشی سرگرمیوں اور ڈالر کی دستیابی سے مشروط ہے اور یہ دونوں سیاسی استحکام سے مشروط ہیں۔ اور سیاسی استحکام الیکشن کے بعد آنے والی نئی حکومت ہی ملک کو دے سکتی ہے۔ لہذہ دانشمندی یہی ہے کہ نون لیگ اور اس کے اتحادی ڈرنے کی بجائے صائب قدم اٹھاتے ہوئے عوام کے سامنے حاضر ہو کر الیکشن منعقد کروائیں تاکہ پاکستان پر پڑی اس افتاد کا کوئی دیرپا حل ڈھونڈا جا سکے۔