Ustad Hona Aik Bohat Bari Nemat Aur Azeem Saadat Hai
استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے
رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے
استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے
دنیا میں بہت سارے رشتے ہوتے ہیں جو انسان سے جڑے ہوتے ہیں۔ جن میں سے کچھ رشتے خون کے ہوتے ہیں اور کچھ رشتے روحانی ہوتے ہیں۔ انہیں رشتوں میں سے ایک استاد کا رشتہ ہے۔ اسلام میں استاد کا مرتبہ ماں باپ کے برابر ہے کیونکہ ایک استاد ہی ہے جو ماں باپ کے بعد اصل زندگی کے معنی سکھاتے ہیں، ہمیں زندگی جینا سکھاتے ہیں۔ صحیح اور غلط کی پہچان کرنا سکھاتے ہیں۔ استاد کی تعریف اگر ان لفظوں میں کی جائے تو غلط نہ ہوگا۔
"ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن، پتھر کو تراش کر ہیرا بناتا ہے، استاد معمار بھی ہیں اور لوہار بھی"۔
اُستاد ایک چراغ ہے جو تاریک راہوں میں روشنی کے وجود کو برقرار رکھتا ہے۔ اُستاد وہ پھول ہے جو اپنی خوشبو سے معاشرے میں امن، مہر و محبت و دوستی کا پیغام پہنچاتا ہے۔ اُستاد ایک ایسا رہنما ہے جو آدمی کو زندگی کی گمراہیوں سے نکال کر منزل کی طرف گامزن کرتا ہے۔
اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کو احسن تقویم ارشاد فرمایا ہے، مصوری کا یہ عظیم شاہکار دنیائے رنگ و بو میں خالق کائنات کی نیابت کا حقدار بھی ٹھہرا، اشرف المخلوقات، مسجود ملائکہ اور خلیفۃ اللہ فی الارض سے متصف حضرت انسان نے یہ ساری عظمتیں اور رفعتیں صرف اور صرف علم کی وجہ سے حاصل کی ہیں ورنہ عبادت و ریاضت، اطاعت و فرمانبرداری میں فرشتے کمال رکھتے تھے۔
یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ حصول علم درس و مشاہدہ سمیت کئی خارجی ذرائع سے ہی ممکن ہوتا ہے، ان میں مرکزی حیثیت استاد اور معلّم ہی کی ہے، جس کے بغیر معاشرہ کی تشکیل ناممکن ہے۔ معلّم ہی وہ اہم شخصیت ہے جو تعلیم و تربیت کا محور، منبہ و مرکز ہوتا ہے۔ اسلام نے دنیا کو علم کی روشنی عطا کی۔ استاد کو عظمت اور طالب علم کو اعلیٰ و ارفع مقام عطا کیا ہے، نبی کریم ﷺنے اپنے مقام و مرتبہ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا۔
"مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے"۔ (ابن ماجہ۔ 229)۔
معلّم کے کردار کی عظمت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کائنات میں معلّم اوّل خود رب کائنات ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے:
وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا۔ (سورۃ البقرہ: 31)
اور اللہ تعالیٰ نے آدم کو تمام اشیاء کے نام سکھا دیے۔
پھر ارشاد ہوتا ہے: اَلرَّحۡمٰنُ عَلَّمَ الۡقُرۡاٰنَ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ ۙ عَلَّمَہُ الۡبَیَانَ (سورۃ الرحمن آیت 1 تا 4)
وہ جو نہایت مہربان ہے۔ اسی نے قرآن کی تعلیم فرمائی۔ اسی نے انسان کو پیدا کیا۔ اسی نے اسکو بولنا سکھایا۔
سورۃ العلق میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: اِقۡرَاۡ بِاسۡمِ رَبِّکَ الَّذِیۡ خَلَقَ ۚ خَلَقَ الۡاِنۡسَانَ مِنۡ عَلَقٍ ۚ اِقۡرَاۡ وَ رَبُّکَ الۡاَکۡرَمُ ۙ الَّذِیۡ عَلَّمَ بِالۡقَلَمِ ۙ عَلَّمَ الۡاِنۡسَانَ مَا لَمۡ یَعۡلَمۡ ؕ (سورۃ العلق آیت 1 تا 5)
اے نبی ﷺ اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو جس نے تمام کائنات کو پیدا کیا۔ جس نے انسان کو خون کی پھٹکی سے بنایا۔ پڑھو اور تمہارا پروردگار بڑا کریم ہے۔ جس نے قلم کے ذریعے سے علم سکھایا۔ اور انسان کو وہ باتیں سکھائیں جن کا اسکو علم نہ تھا۔
معلّم کائنات نے انسانیت کی رہنمائی اور تعلیم کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کو معلّم و مربّی بنا کر بھیجا۔ استاد ہونا ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔ معلّم کو اللہ اور اس کی مخلوقات کی محبوبیت نصیب ہوتی ہے، مخبر صادق ﷺ نے استاد کی محبوبیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا کہ:
لوگوں کو بھلائی سیکھانے والے پر اللہ، ان کے فرشتے، آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات یہاں تک کہ چیونٹیاں اپنے بلوں میں اور مچھلیاں پانی میں رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔ (ترمذی۔ 2675)
اساتذہ کے لیے نبی کریم ﷺ نے دعا فرمائی کہ: اللہ تعالیٰ اس شخص کو خوش و خرم رکھے جس نے میری کوئی بات سنی اور اسے یاد رکھا اور اس کو جیسا سنا اسی طرح لوگوں تک پہنچایا۔ (ابو داؤد۔ 366)
حضرت علی المرتضیٰؓ کا قول ہے کہ: جس نے مجھے ایک حرف بھی پڑھا دیا میں اس کا غلام ہوں خواہ وہ مجھے آزاد کر دے یا بیچ دے۔ (تعلیم المتعلم۔ 21)
حضرت مغیرہؓ کہتے ہیں کہ: "ہم استاد سے اتنا ڈرتے اور ان کا اتنا ادب کرتے تھے جیسا کہ لوگ بادشاہ سے ڈرا کرتے ہیں"۔
خود نبی ﷺ نے اہلِ علم کو عزت دی "جنگ بدر کے قیدیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے، کچھ ایسے قیدی بھی ہیں جن کے پاس فدیہ کے لیےکچھ بھی نہیں ہے ایسے میں لسانِ نبوت سے اعلان ہوتا ہے کہ وہ قیدی جو پڑھنا لکھنا جانتے ہیں وہ انصار کے بچوں کو پڑھنا لکھنا سیکھا دیں یہی ان کا فدیہ ہوگا" یہ علم اور اصحابِ علم کی تعظیم ہی تو ہے۔ استاد کی تعظیم کا منظر دیکھیے کہ فرشتوں کے سردار جبرئیل امینؑ تشریف لاتے ہیں اور انبیاءکے سردار اور معلمِ انسانیت کے پاس جب علم حاصل کرنے بیٹھتے ہیں تو با ادب اپنے زانو سمیٹ کر بیٹھتے ہیں۔ سبحان اللہ
حضراتِ صحابہ کرامؓ نبی کی خدمت میں اس طرح بیٹھتے تھے جیسے سر پر کوئی پرندہ بیٹھا ہو۔ اللہ اللہ استاد کی یہ عظمت!
حضرت یحییٰ بن معینؒ بہت بڑے محدث تھے امام بخاریؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں کہ: "محدثین کا جتنا احترا م وہ کرتے تھے اتنا کرتے ہوئے میں نے کسی کو نہیں دیکھا"۔
امام ابو یوسفؒ کہتے ہیں کہ میں نے بزرگوں سے سنا ہے کہ: "جو استاد کی قدر نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا"۔ (تعلیم المتعلم 22)
امام اعظم ابو حنیفہؒ اپنے استاد کا اتنا ادب کرتے تھے کہ کبھی استاد کے گھر کی طرف پاؤں کرکے نہیں سوئے۔ فقہ حنفیہ کی مشہور کتاب ہدایہ کے مصنف، شیخ الاسلام برہان الدینؒ بیان فرماتے ہیں کہ آئمہ بخارا میں سے ایک امام دوران درس بار بار کھڑے ہو جاتے، شاگردوں نے وجہ پوچھی تو فرمایا کہ میرے استاد کا لڑکا گلی میں بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جب مسجد کے دروازے کے سامنے آتا ہے میں اپنے استاد کی وجہ سے ادب میں کھڑا ہو جاتا ہوں۔
خلیفہ ہارون الرشید نے امام اصمعیؒ کے پاس اپنا بیٹا تحصیل علم و ادب کے لیے بھیجا، ایک دن خلیفہ نے دیکھا کہ امام اصمعی وضو کر رہے ہیں اور اس کا بیٹا استاد کے پاؤں پر پانی ڈال رہا ہے۔ خلیفہ نے امام صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اپنا بیٹا اس لیے آپ کے پاس بھیجا ہے کہ آپ اس کو علم و ادب سکھائیں، آپ اسے یوں کیوں نہیں کہتے کہ یہ ایک ہاتھ سے آپ کے پاؤں پر پانی ڈالے اور دوسرے ہاتھ سے اس پاؤں کو دھوئے۔ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں معلّم کو سب سے بہترین انسان قرار دیا گیا ہے، استاد کے ادب کو تحصیل علم کے لیے بنیاد اور اساس کہا گیا ہے۔ عربی مقولہ ہے
"الادب شجر والعلم ثمر ثم فکیف یجدون الثمر بدون الشجر"۔
"ادب درخت ہے اور علم پھل ہے پھر بغیر درخت کے کیسے حاصل ہو سکتا ہے"۔
استاد ایک واجب الاحترام اور لائق تنظیم ہستی ہے۔ ایک زمانہ تھا جب طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل طے کرتے تھے سالہا سال ملکوں میں گھومتے گھر بار سے دور رہ کر اپنے علم کی پیاس کو پورا کرتے تھے۔ استاد کی سزاؤں کو جھیلتے تب جا کر نگینہ بنتے۔ مگر اُس دور میں طالب علم باادب اور باتہذیب ہوتے تھے۔ استاد کے قدموں بیٹھنا، ان کی باتوں کو خاموشی سے سننا، مذاق اڑانا تو دور کی بات نظر اٹھا کر بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔
وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی کئی ترقی کی منزلیں طے کرتا چلا گیا اور اگر وقت بدلا تو تہذیب اور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے گئے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں طالب علم اولاً تو استاد کو تنخواہ دار ملازم ہی سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم ناپید ہوتا جا رہا ہے اتنے سکول، کالج، یونیورسٹیاں ہونے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات اور تہذیب کا کوئی نام نہیں۔ اسلام نے مسلمانوں پر علم فرض قرار دیا ہے وہیں اسلام کی نظر میں استاد کو معزز رتبہ دیا ہے تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔
علم کی قدر اُس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائیگی اور ہمیشہ وہ طالب علم ہی کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کا احترام کرتے ان کی عزت کرتے ہیں۔ یہ آفاقی سچائی ہےکہ جس سماج نے استاد کی اہمیت کو جانا اور شعوری طور پر استاد کو اس کا حق دیا اس نے کامیابی کی منزلیں عبور کیں اور جس معاشرے نے استاد کی تحقیر و تذلیل کی ذلت و رسوائی اس کا مقدر بن گئی۔