Jahannam Ka Eindhan
جہنم کا ایندھن
انسان کی مثال اس دنیا میں ایک مسافر کی سی ہے جو چند لمحے کہیں رک کر سستاتا ہے اور پھر اپنی منزل کی جانب چل دیتا ہے۔ جو زاد راہ وہ دوران سفر اختیار کرتا ہے اسی کے مطابق اس کی منزل کا تعین ہوتا ہے۔ اگر زاد راہ خیر ہے تو منزل جنت اور اگر زاد راہ شر ہے تو منزل جہنم۔ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے انسان سے اخروی کامیابی کی صورت میں جنت اور ہر طرح کی نعمتوں کی عطا کا وعدہ فرمایا ہے جبکہ ناکامی کی صورت میں بطور جہنم کا ایندھن وعید سنائی ہے۔ اور اس سے بچنے کی تاکید بھی کی ہے۔ قرآن کریم میں ارشاد ہے۔
وَاَمَّا الۡقٰسِطُوۡنَ فَكَانُوۡا لِجَهَنَّمَ حَطَبًاۙ
اور جو ظالم ہیں تو وہ دوزخ کا ایندھن ہوں گے۔ (سورۃ جن آیت15)
حطب سے مراد ہے نباتاتی ایندھن، ناکارہ، صرف جلانے کے قابل لکڑی، جھاڑ جھنکار جسے پنجابی میں بالن کہتے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد ہے۔
وَّامۡرَاَتُه، ؕ حَمَّالَةَ الۡحَطَبِۚ
اور اس کی عورت جو لکڑیوں کا بوجھ اٹھائے پھرتی ہے۔ (سورۃ اللھب آیت 4)
حطب ناکارہ لکڑی کے لیے بولا جاتا ہے۔ جو لکڑی کارآمد ہو اسے خشب کہتےہیں۔ دوسرا لفظ جو قرآن پاک میں ایندھن کے طور آیا ہے وہ ہے "حصب"۔ قرآن پاک میں ارشاد ہے۔
اِنَّكُمۡ وَمَا تَعۡبُدُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ حَصَبُ جَهَـنَّمَؕ اَنۡـتُمۡ لَهَا وَارِدُوۡنَ
بیشک تم اور وہ (بت) جن کی تم اﷲ کے سوا پرستش کرتے تھے (سب) دوزخ کا ایندھن ہیں، تم اس میں داخل ہونے والے ہو۔ (سورۃ انبیاء آیت 98)
حصب کے معنی پتھر، چھوٹی پتھریاں اور کنکر وغیرہ ہیں اور حاصب اس تند و تیز ہوا کو کہتے ہیں جو کنکروں اور چھوٹے پتھروں کو اٹھائے پھرتی ہیں۔ (منجد)
چنانچہ یہ لفظ قرآن کریم میں پتھروں کی بارش کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ اور حصب کے معنی ایندھن کے بھی ہیں (منجد) اور اس سے مراد جماداتی ایندھن ہے۔ مثلاََ گندھک، پوٹاش اور دوسرے آتش گیر مادے اور پتھر وغیرہ۔ غرض ہر وہ چیز جو آگ کو بھڑکا دے حصب ہے۔ حافظ عماد الدین ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔
"بت پرستوں سے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اور تمہارے بت جہنم کی آگ کی لکڑیاں بنو گے۔ جیسے سورۃ البقرۃ میں بھی اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے۔ حبشی زبان میں حطب کو (حَصَبُ) کہتے ہیں یعنی لکڑیاں۔ بلکہ ایک قرأت میں بجائے (حَصَبُ) کے (حَطَبْ) ہے۔ یعنی تم سب عابد و معبود جہنمی ہو اور وہ بھی ہمیشہ کے لیے۔ اگر یہ سچے معبود ہوتے کیوں آگ میں جلتے؟ یہاں تو پرستار اور پرستش کئے جانے والے سب ابدی طور پر دوزخی ہو گئے وہ الٹی سانس میں چیخیں گے۔ جیسے فرمان ہے۔
فَاَمَّا الَّذِيْنَ شَقُوْا فَفِي النَّارِ لَهُمْ فِيْهَا زَفِيْرٌ وَّشَهِيْقٌ۔
وہ سیدھی الٹی سانسوں سے چیخیں گے اور چیخوں کے سوا ان کے کان میں اور کوئی آواز نہ پڑے گی۔ (سورۃ ھود ایت 106)
سیدنا ابن مسعودؓ سے مروی ہے کہ جب صرف مشرک جہنم میں رہ جائیں گے انہیں آگ کے صندوقوں میں قید کر دیا جائے گا جن میں آگ کے سریے ہوں گے ان میں سے ہر ایک کو یہی گمان ہوگا کہ جہنم میں اس کے سوا اور کوئی نہیں پھر آپؓ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔ " (تفسیر ابن کثیر)
تیسرا لفظ ہے "وقود"۔ یہ وقد سے ہے بمعنی آگ روشن کرنا اور وقود ہر وہ ایندھن ہے جو شعلہ پیدا کر کے جلے۔ خواہ وہ لکڑیاں ہوں یا پتھر ہوں یا انسان۔ بعض دفعہ آگ کی تیزی اس انتہا کو پہنچ جاتی ہے کہ پانی بھی اسے بھجانے کی بجائے مزید بھڑکنے کا سبب بن جاتا ہے۔ تو اس صورت میں پانی بھی وقود میں شامل ہوگا۔ کوئی بھی ایندھن کی قسم ہو جب وہ جل رہا تو وقود کہلاتا ہے پہلے نہیں۔ (مترادفات القرآن)
اسی لیے اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فَاتَّقُوۡا النَّارَ الَّتِىۡ وَقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ ۖۚ اُعِدَّتۡ لِلۡكٰفِرِيۡنَ۔
تو اس آگ سے بچو جس کا ایندھن آدمی (یعنی کافر) اور پتھر (یعنی ان کے بت) ہیں، جو کافروں کے لئے تیار کی گئی ہے۔ (سورۃ البقرۃ آیت 24)
ایک اور جگہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
یٰۤاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا قُوۡۤا اَنۡفُسَكُمۡ وَاَهۡلِيۡكُمۡ نَارًا وَّقُوۡدُهَا النَّاسُ وَالۡحِجَارَةُ عَلَيۡهَا مَلٰٓٮِٕكَةٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ لَّا يَعۡصُوۡنَ اللہَ مَاۤ اَمَرَهُمۡ وَيَفۡعَلُوۡنَ مَا يُؤۡمَرُوۡنَ۔
اے ایمان والو! اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں، جس پر سخت مزاج طاقتور فرشتے (مقرر) ہیں جو کسی بھی امر میں جس کا وہ انہیں حکم دیتا ہے اﷲ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کام انجام دیتے ہیں جس کا انہیں حکم دیا جاتا ہے۔ (سورۃ التحریم آیت 6)
حافظ عماد الدین ابن کثیر اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
"وقود کے معنی ایندھن کے ہیں جس سے آگ جلائی جائے جیسے چپٹیاں لکڑیاں۔ اور حجارہ کہتے ہیں پتھر کو، یہاں مراد گندھک کے سخت سیاہ اور بڑے بڑے اور بدبودار پتھر ہیں جن کی آگ بہت تیز ہوتی ہے۔ سیدنا ابن مسعودؓ فرماتے ہیں ان پتھروں کو زمین و آسمان کی پیدائش کے ساتھ ہی آسمان اول پر پیدا کیا گیا ہے جہنم میں سیاہ گندھک کے پتھر بھی ہیں جن کی سخت آگ سے کافروں کو عذاب کیا جائے گا۔ (ابن جریر ابن ابی حاتم مستدرک حاکم)
مجاہدؒ فرماتے ہیں ان پتھروں کی بدبو مردار کی بو سے بھی زیادہ ہے محمد بن علی اور ابن جریجؒ بھی کہتے ہیں کہ مراد گندھک کے بڑے بڑے اور سخت پتھر ہیں۔ بعض نے کہا ہے مراد وہ پتھر جن کی مورتیاں بنائی جاتی ہیں اور پھر ان کی پرستش کی جاتی تھی۔ "(تفسیر ابن کثیر)