1.  Home/
  2. Blog/
  3. Tahira Fatima/
  4. Hazrat Musa, Hazrat Essa Aur Bani Israel (2)

Hazrat Musa, Hazrat Essa Aur Bani Israel (2)

حضرت موسیٰؑ، حضرت عیسیٰؑ اور بنی اسرائیل (2)

لیکن جب وہ رسول ان تمام نشانیوں کے ساتھ آیا جو حضرت عیسیٰؑ نے اپنے پیروکاروں کے سامنے بیان کی تھیں تو انہوں نے اسے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ کھلا جھوٹ ہے۔

قرآن کہتا ہے: وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللہِ الۡکَذِبَ وَ ہُوَ یُدۡعٰۤی اِلَی الۡاِسۡلَامِ ؕ وَ اللہُ لَا یَہۡدِی الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِیۡنَ۝

اور اس سے زیادہ ظالم کون کہ بلایا تو جائے اسلام کی طرف اور وہ ﷲ پر جھوٹ بہتان باندھے۔ اور ﷲ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔ (سورۃ صف آیت7)

اس رسول کا ذکر ان عیسائیوں کی اپنی کتابوں میں ہوا ہے۔ البتہ اس کو جھٹلانے کے لیے وہ مختلف تاویلیں اور تاویلات پیش کرتے ہیں کہ یہ شخص وہ رسول نہیں تھا جس کی بشارت حضرت عیسیٰؑ نے دی تھی۔ قانون الٰہی کے مطابق چیزوں کو آپس میں خلط ملط کرنا اور پھر ان کو ﷲ کی طرف منسوب کرنا بہت سنگین جرم ہے۔ ذرا سوچو تم اس رسول کو کیوں جھٹلاتے ہو؟ وہ تمہیں کون سی غلط یا قابل اعتراض باتیں بتا رہا ہے؟ وہ تمہیں صرف اسلام کی دعوت دے رہا ہے، وہی دین جو بنی اسرائیل کے پیغمبر پیش کرتے رہے تھے۔ لیکن اب اپنی اصل شکل میں دستیاب نہیں ہے۔ زندگی کا ایک سیدھا اور صاف راستہ ان لوگوں کے لیے کبھی نہیں کھل سکتا جو چیزوں کو ان کی مناسب جگہ پر نہیں رہنے دیتے۔ ﷲ اپنی ہدایت سب کو دیتا ہے لیکن بہت سے لوگ اس پر عمل نہیں کرتے۔ اور ایسے لوگوں کی دین اسلام کی روشنی کو بجھانے کی تمام کوششیں ناکام ہو جائیں گی۔

قرآن کہتا ہے: یُرِیۡدُوۡنَ لِیُطۡفِـُٔوۡا نُوۡرَ اللہِ بِاَفۡوَاہِہِمۡ وَ اللہُ مُتِمُّ نُوۡرِہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡکٰفِرُوۡنَ۝

یہ چاہتے ہیں کہ ﷲ کے چراغ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں حالانکہ ﷲ اپنی روشنی کو پورا کر کے رہے گا خواہ کافر ناخوش ہی ہوں۔ (سورۃ صف آیت 8)

ایسے رویے اور اعمال سے وہ نور الٰہی (قرآن) کو بجھا نہیں سکتے۔ وہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ کیا وہ کبھی سورج کی روشنی کو صرف پھونک مار کر بجھا سکتے ہیں؟ ﷲ اپنے نور کو خود کامل بنانے والا ہے۔ اس نور کی روشنی ہر جگہ پھیلے گی، قطع نظر اس کے کہ منکرین اس سے کتنی ہی نفرت کریں۔

يُرِيدُونَ أَن يُطْفِـُٔوا۟ نُورَ ٱللَّهِ بِأَفْوَٰهِهِمْ وَيَأْبَى ٱللَّهُ إِلَّآ أَن يُتِمَّ نُورَهُۥ وَلَوْ كَرِهَ ٱلْكَٰفِرُونَ ۝

یہ لوگ چاہتے ہیں کہ ﷲ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں مگر ﷲ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو (سورۃ توبہ آیت 32)

ماضی میں ہونے والی تمام کوششیں اس نور الٰہی کو کبھی بجھا نہیں سکیں۔ بادشاہت، مذہبی پجاری اور خون چوسنے والے سرمایہ داروں نے اس نور کو بجھانے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ اور آخر کار وہ اسے انسانی خود ساختہ شریعت قرار دے کر ایک اندھیرے میں ڈھانپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے عوام کو یہ یقین دلانے کے لیے برین واش کر دیا ہے کہ یہ انسانوں کی بنائی ہوئی شریعت ﷲ کی طرف سے نہیں ہے۔ لیکن نظام الٰہی بالآخر انسان کی بنائے ہوئے نظاموں کو اس دنیا سے مٹا دے گا اور انسانیت کو سورج کی طرح شریعت کی پاکیزہ روشنی نظر آئے گی۔

قرآن کہتا ہے: ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہ، بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہ، عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ وَ لَوۡ کَرِہَ الۡمُشۡرِکُوۡنَ ۝

وہی تو ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اسے سب دینوں پر غالب کرے خواہ مشرکوں کو برا ہی لگے۔ (سورۃ صف آیت 9)

یہ ﷲ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ایک ضابطہ ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا ہے جس کی بنیاد مطلق سچائی اور حقیقت ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ یہ نظام دنیا کے تمام نظاموں پر فتح حاصل کرے، چاہے یہ ان لوگوں کے لیے کتنا ہی قابل نفرت کیوں نہ ہو جو ﷲ کے دیے ہوئے قوانین کے علاوہ دوسرے معبودوں کے قوانین کو ماننا چاہتے ہیں۔ ﷲ کا دیا ہوا نظام حیات بالآخر تمام انسانوں کے بنائے ہوئے نظام زندگی پر غالب آ جائے گا۔ یہاں ﷲ تعالیٰ نے اپنے نظام الٰہی کو الدین (الدِّينِ) کہا ہے جو کہ عملی ہے، نظریاتی یا تجریدی نہیں۔

اگر تم یہ سمجھتے ہو کہ اسلام بحیثیت دین، ایک نظام زندگی کے طور پر، اب دنیا میں کہیں نہیں ہے۔ مسلمانوں کی بہت سی تحریکیں اٹھیں اور مٹ گئیں۔ آج دنیا میں 1۔ 8 بلین کے قریب مسلمان ہیں اور پچاس کے قریب مسلم حکومتیں ہیں لیکن کہیں بھی دین نہیں ہے۔ تو یہ مت بھولنا کہ اسلام ایک ایسی طاقت ہے جس نے تمہارے بنائے ہوئے تمام نظاموں کو ایک ہی وقت میں زیر کیا ہے تو کیا یہ دوبارہ ایسا نہیں کر سکتا؟

ان لوگوں کی سوچ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہم مسلمان دین چھوڑ چکے ہیں۔ دوسری اقوام بہتر نظام زندگی کی تلاش میں ہیں کیونکہ وہ اپنے موجودہ نظاموں سے تنگ آچکی ہیں جس نے دنیا کو جہنم بنا دیا ہے۔ مغربی مفکرین اور دانشور اس بات سے واقف نہیں ہیں کہ جس نظام کی وہ تلاش کر رہے ہیں آفاقی اقدار، عالمی انسانی حقوق، عالمگیر انصاف وغیرہ وہ تو قرآن کریم میں پہلے سے موجود ہیں۔ کیونکہ ہم مسلمانوں نے قرآن کی وضاحت کے لیے فکری سطح پر اپنا کام نہیں کیا ہے۔ ہم نے اسلام کا غلط نسخہ ان کے سامنے پیش کیا ہے چنانچہ ہم نے ان پر ثابت کی ہے کہ اب اسلام ایک ناقابل قبول نظام ہے۔

کتنی ستم ظریفی اور افسوس کی بات ہے کہ ہمارے پاس انسانیت کے تمام مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے لیکن ہم اس سے منہ موڑ چکے ہیں۔ نتیجتاً ہم دنیا میں ہنسی کا مرکز بن گئے ہیں اور ہمیں دھکے دیے جا رہے ہیں۔ ﷲ دنیا میں اپنے منصوبوں کو انسانی ہاتھوں سے حاصل کرتا ہے۔

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُوۡنُوۡۤا اَنۡصَارَ اللہِ کَمَا قَالَ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ لِلۡحَوَارِیّٖنَ مَنۡ اَنۡصَارِیۡۤ اِلَی اللہِ ؕ قَالَ الۡحَوَارِیُّوۡنَ نَحۡنُ اَنۡصَارُ اللہِ فَاٰمَنَتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ وَ کَفَرَتۡ طَّآئِفَۃٌ ۚ فَاَیَّدۡنَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا عَلٰی عَدُوِّہِمۡ فَاَصۡبَحُوۡا ظٰہِرِیۡنَ۝

مومنو! ﷲ کے مددگار ہو جاؤ جیسے عیسٰی ابن مریم نے حواریوں سے کہا تھا کہ بھلا کون ہیں جو ﷲ کی طرف بلانے میں میرے مددگار ہوں۔ حواریوں نے کہا کہ ہم ﷲ کے مددگار ہیں۔ سو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا۔ آخر ہم نے ایمان لانے والوں کو انکے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی سو وہ غالب ہو گئے۔ (سورۃ صف آیت 14)

قرآن مجید اصحاب عیسیٰؑ کا کیسا اعلیٰ کردار پیش کر رہا ہے۔ حضرت عیسیٰؑ کے ساتھی (مددگار) مکمل طور پر حضرت عیسیٰؑ کے ساتھ وابستہ تھے اور عظیم انقلابی تھے۔ اس کے برعکس، بائبل بالکل مختلف تصویر پیش کرتی ہے کہ کچھ نے انہیں چھوڑ دیا اور دوسروں نے ان کے خلاف سازش کی۔

انسانی دنیا میں، انسانوں کو خود ﷲ کے نظام کی تکمیل کے لیے ہاتھ جوڑنا چاہیے۔ اس سے پہلے بھی جہاں کہیں بھی ایسے نظام قائم ہوئے وہ سب انسانی کوششوں سے وجود میں آئے۔ مثال کے طور پر حضرت عیسیٰؑ نے اسی طرح اپنے عقیدت مند حواریوں سے پوچھا تھا: مجھے بتاؤ تم میں سے کون حکم الٰہی قائم کرنے میں میری مدد کرے گا؟ اس پر ان کے حواریوں نے یک زبان ہو کر کہا: اس مقصد کے لیے ہم ﷲ کے مددگار بنیں گے۔ ان کی کوششوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ اس نظام کی حقانیت پر ایمان لے آیا تو دوسرا اس کے خلاف ہوگیا۔ جب ان کے درمیان لڑائی ہوئی تو ﷲ نے ان لوگوں کی مدد کی جو اس دین کو مان چکے تھے۔ اور وہ اپنے دشمنوں پر غالب آئے۔

رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں بھی ایسا ہی ہوا تھا کہ آخرکار رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی مخالفت کرنے والوں میں سے ایک گروہ نکلے گا جو دین کے دشمنوں کے خلاف کھڑا ہوگا اور حکم الٰہی کے قیام میں مدد کرے گا۔ ﷲ تعالیٰ اس گروہ کی مدد فرمائے گا۔ اور تاریخ گواہ ہے کہ رسول ﷲ صلی ﷲ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضوان ﷲ علیھم اجمعین نے حکم الٰہی قائم کیا اور دنیا کے پسماندہ اور غیر مہذب ترین انسانوں کو ترقی یافتہ ترین انسانوں میں بدل دیا جو انسانی تہذیب کے عروج پر پہنچ گئے۔

ﷲ تعالیٰ ہمیں استقامت اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ پھر ﷲ اس بات کی ضمانت دیتا ہے کہ اس کی کائناتی قوتیں اس مقصد کے حصول کی ہماری کوششوں میں ہمارا ساتھ دیں گی۔

اِنَّ اللہَ وَ مَلٰٓىٕكَتَه، یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۝

بیشک ﷲ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو!ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔ (سورۃ احزاب آیت 56)

Check Also

Aaj Ki Raniyan Aur Ranaiyan

By Mirza Yasin Baig