Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Fatima
  4. Bakhshish Ki Dastavez

Bakhshish Ki Dastavez

بخشش کی دستاویز

وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعُبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالُوَالِدَيُنِ إِحُسَانًا ۚ إِمَّا يَبُلُغَنَّ عِندَكَ الُكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوُ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنُهَرُهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوُلًا كَرِيمًا (سورۃ بنی اسرائیل آیت 23)

ترجمہ: "اور آپ کے رب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور والدین کے ساتھ احسان کرو۔ اگر تمہارے پاس ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے، اُف تک نہ کہو اور نہ ہی انہیں جھڑکو اور ان سے نہایت ادب و احترام کے ساتھ بات کرو"۔

میری والدہ محترمہ اب اس دنیا میں نہیں ہیں، اللہ ان کی قبر کو نور سے بھر دے۔ لیکن ان کی یادیں ایک ایسا خزانہ ہیں جو بانٹنے سے اور چمکتی ہیں۔ ہر یاد ایک سبق، ایک دعا اور ایک آنسو بن کر دل میں اتر جاتی ہے۔

آیت "بالوالدین احسانا" اور اپنے سنہرے لمحات کو ایک ساتھ دیکھنا ایسے ہی ہے جیسے کسی آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنی پوری زندگی کے ایک حصے کو دیکھنا۔۔ شکرکے آنسو، حسرت کی ٹیس اور امید کی کرن ایک ساتھ دل میں اتر آتی ہیں۔

میری والدہ صاحبہ ٹیکنالوجی سے کافی دور تھیں۔ جب میری بڑی باجی نے انہیں پہلا اسمارٹ فون دیا تو وہ گھبرا کر کہنے لگیں: "اس میں تو کوئی بٹن ہی نہیں، یہ چلے گا کیسے؟"

ایک دن انہوں نے خود سے پہلا واٹس ایپ میسج بھیجا: "بیٹا، تمہاری بہنوں نے کہا ہے کہ تمہیں کھانے پر بلاؤں"۔

ان کے چہرے پر جو معصوم فاتحانہ مسکراہٹ تھی، وہ آج بھی میرے سامنے ہے۔

جب پہلی بار انہوں نے ویڈیو کال کی اور اپنے نواسے کو دیکھا، تو وہ رونے لگیں۔ میں نے پوچھا: "امی جان کیوں رو رہی ہیں؟"

انہوں نے کہا: "یہ ایجاد کرنے والا جنت میں جائے گا۔ اس نے تو میری آنکھیں ٹھنڈی کر دیں"۔

ایک بار گرمیوں کے دن تھے۔ وہ لاہور میرے پاس آئیں۔ طبیعت کچھ کمزور تھی تو میں نے ان کے لیے آئس کریم منگوائی۔

انہوں نے پہلا چمچ منہ میں ڈالا، ٹھہر گئیں، پھر حیران ہو کر بولیں: "یہ کیا ہے؟ خیر جو بھی ہے۔۔ ذائقہ بہت اچھا ہے!"

وہ عورت جو میرے لیے پوری زندگی کی "پہلی چیزیں" قربان کرتی رہی اور مجھے خبر بھی نہ ہوئی۔

امی جان کی عادت تھی کہ وہ ہمیشہ آخری گھونٹ چائے چھوڑ دیتی تھیں۔

ایک دن میں نے پوچھ ہی لیا: "امی جان، یہ آخری گھونٹ کیوں چھوڑ دیتی ہیں؟"

وہ مسکرائیں: "بیٹا، یہ گھونٹ اس لیے چھوڑتی ہوں کہ تم بچپن میں کہا کرتی تھی، امی جو چھوڑ دیں وہ میری ہے۔ اب بھی تمہارے لیے چھوڑتی ہوں"۔

یہ سن کر مجھے پہلی بار احساس ہوا کہ ماں کا پیار نہ عمر دیکھتا ہے، نہ وقت۔۔ وہ تو بس بہتا رہتا ہے۔

جب میں ان یادوں کے ہار کو ہاتھ میں لیتی ہوں تو دل میں ایک سمندر اٹھتا ہے:

شکر: کہ مجھے ان کی خدمت کا موقع ملا۔

خوش نصیبی: کہ میں ان کے آخری دنوں میں ان کے پاس تھی، ان کی آواز سن سکی، ان کا ہاتھ پکڑ سکی۔

ہلکی سی ٹیس: کہ کاش میں اور بہتر کرتی۔۔ کاش میں نے انہیں مزید مسکرانے کے لمحے دیے ہوتے۔

یہ احساس شاید ہر اس دل میں ہوتا ہے جو "احسان" کے معیار کو دیکھ کر اپنی کمی محسوس کرتا ہے۔

جب میری والدہ محترمہ آخری دنوں میں تھیں، ایک دن انہوں نے مجھ سے کہا: "بیٹا، تم نے مجھے بہت خوش رکھا"۔

اور آج جب میں "وَبِالُوَالِدَيُنِ إِحُسَانًا" پر غور کرتی ہوں: تو ان کا یہ جملہ میرے لیے بخشش کی دستاویز لگتا ہے۔ لیکن ساتھ ہی یہ خیال بھی آتا ہے کہ کہیں میں اس تعریف کے قابل ہوں بھی یا نہیں؟ پھر دل ہی دل میں ان سے معافی مانگتی ہوں اگر کبھی کوئی بات بھول سے بھی انہیں تکلیف پہنچی ہو۔

ان یادوں سے میری آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔۔ پر خوشی کے آنسو۔ دل بھر آتا ہے۔۔ امید سے۔ جان چاہتی ہے کہ کاش! ایک بار پھر وہ لمحے لوٹ آئیں۔

بس آپ سب سے بھی یہی گزارش ہے کہ: اگر آپ کے والدین آپ کے ساتھ ہیں، تو آج ہی کوئی نیا سنہری لمحہ بنا لیجیے۔

ان کا ہاتھ تھام کر بیٹھ جائیے۔

ان کی پسندیدہ مٹھائی لے آئیے۔

بولئے: "آپ کیوں اتنے پیارے ہیں؟"

یہی لمحے کل آپ کی سب سے بڑی دولت بن جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ ان سب کو جن کے والدین حیات ہیں ان کی بہترین خدمت کرنے کا موقع عطا فرمائے اور جن کے اس دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں انھیں غریق رحمت فرمائے اور انھیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے۔

آمین یا رب العالمین۔

Check Also

J Dot Ka Nara

By Qamar Naqeeb Khan