Friday, 05 December 2025
  1.  Home
  2. Blog
  3. Tahira Fatima
  4. Aaj Ka Tufan e Nooh

Aaj Ka Tufan e Nooh

آج کا طوفانِ نوحؑ‎

پندرہ گھنٹے مسلسل بارش ہوتی رہی۔ نہ آسمان تھما، نہ زمین کچھ پی سکی۔ میرے گھر کے فرنیچر، قالین، دروازے، سب پانی کی زد میں آ گئے۔ گلیوں کا منظر ایسا تھا جیسے سیلاب نے ہر شے نگل لی ہو۔ میں چھت پر کھڑی تھی اور آسمان کو تکتے ہوئے دل کی گہرائی سے ایک خیال ابھرا: "کیا ایسا ہی طوفانِ نوحؑ کا منظر تھا؟"

قرآن کہتا ہے: "فَفَتَحُنَآ أَبُوَٰبَ ٱلسَّمَآءِ بِمَآءٍۢ مُّنُهَمِرٍۢ وَفَجَّرُنَا ٱلُأَرُضَ عُيُونًۭا" (القمر: 11-12)

"ہم نے آسمان کے دروازے کھول دیے موسلا دھار پانی کے ساتھ اور زمین کو چشموں کی طرح پھاڑ دیا۔۔ "

یہ ایک ایسا ماحولیاتی اور الٰہی طوفان تھا، جہاں آسمان و زمین کا اشتراک، نوحؑ کی صداقت کا اعلان اور غفلت زدہ انسانیت کا اختتام تھا۔ یہ آیات اب صرف قصہ نہیں لگتیں۔۔ یہ جیسے آج کی صبح کی خبر بن گئی ہیں۔ میرے دل نے پہلی بار محسوس کیا کہ قرآن ماضی کی کتاب نہیں حال کی حقیقت ہے۔ یا پھر ہمارے مستقبل کی۔۔

کیا آج ایسے حالات ہو سکتے ہیں کہ طوفان نوحؑ کا منظر ہو؟ جی ہاں! آج کے دور میں سائنس اور ماحولیاتی تبدیلی (climate change) کے تناظر میں ایسے حالات ممکن ہیں جو طوفانِ نوحؑ جیسے منظر کی یاد دلا سکتے ہیں۔ آئیے سائنسی حوالوں سے سمجھتے ہیں:

1۔ کلائمیٹ چینج اور "ایکسٹریم ویدر" (Extreme Weather)

IPCC (Intergovernmental Panel on Climate Change) کی رپورٹس کے مطابق دنیا کا درجہ حرارت مسلسل بڑھ رہا ہے۔ گرم فضا زیادہ نمی جذب کرتی ہے جس سے شدید بارشیں ہونے لگتی ہیں۔

مون سون اور طوفانی سسٹمز کی شدت بڑھ چکی ہے۔

مثال: پاکستان 2022 میں"Super Flood" کا شکار ہوا۔ بارش کا تناسب 700 فیصد تک زیادہ تھا اور یہ غیرمعمولی تھا۔ تقریباً 3 کروڑ سے زیادہ افراد متاثر ہوئے۔

2۔ زمین کا پانی جذب نہ کرنا: "Urban Flooding" & "Soil Saturation"

جب زمین مسلسل بارش سے بھر جائے، تو مٹی مزید پانی جذب نہیں کر سکتی۔ شہری علاقوں میں کنکریٹ، ٹائلز اور ڈرینیج سسٹم کی ناکامی پانی کو زمین میں جانے سے روکتی ہے۔

نتیجہ: پانی سطح پر ہی رکتا ہے۔ گلیاں، سڑکیں، گھروں کا اندرونی حصہ، سب زیرِ آب آ جاتے ہیں۔

3۔ Hurricane، Cyclones، and Atmospheric Rivers

دنیا میں آج بھی ایسے سسٹمز بنتے ہیں جو کئی دن تک بارش برساتے ہیں۔ جیسے:

Hurricane Harvey (2017): امریکہ میں 4 دن مسلسل بارش، 1000 mm پانی

Atmospheric Rivers: آسمانی نمی کے "دریا" جو ہزاروں کلومیٹر لمبے ہوتے ہیں اور ایک جگہ موسلا دھار بارش برساتے ہیں۔

طوفانِ نوحؑ کی طرح، جب آسمان کھل جائے اور زمین پھٹ جائے یہ منظر آج بھی ممکن ہے، بس ذریعہ مختلف ہے۔

4۔ سائنسدانوں کی اصطلاح: "Black Swan Weather Events"

یہ وہ موسمیاتی تباہیاں ہیں جو بہت نایاب، لیکن بہت شدید ہوتی ہیں۔ بالکل ویسے ہی جیسے قرآن طوفانِ نوح کو "غیرمعمولی قضا" کہتا ہے:

"عَلَىٰٓ أَمُرٍۢ قَدُ قُدِرَ" (القمر: 12)

آج ہم اگر آنکھ کھول کر طوفانِ نوح کو دیکھیں، تو یہ قصہ نہیں، آئینہ محسوس ہوگا۔

قومِ نوحؑ نے انبیاء کی دعوت کو جھٹلایا، ظلم، فساد اور بت پرستی عام ہوگئی۔ آج کے دور میں ہم نے فطرت کے ساتھ ظلم کیا: جنگلات کاٹ دیے، پانی آلودہ کیا، مادہ پرستی کو دین بنا لیا۔

قوم نوح نے کہا: "وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِهَتَكُمُ" (نوح: 23)

آج ہم کہتے ہیں: "ہماری تہذیب، ہماری ترقی، ہمارے معبود: پیسہ، شہرت، اختیار"۔

طوفان نوح میں آسمان سے موسلا دھار بارش، زمین سے چشمے پھوٹ پڑے (القمر: 11-12) آسمانی و زمینی قوتیں ایک ساتھ متحرک ہوگئیں اور آج کے دور میں غیرمعمولی بارشیں، گلیشیئرز کا پگھلنا، زمین پانی جذب نہ کرے شہر شہر "mini floods"۔ cyclones، floods، droughts، earthquakes، climate ایک global غضب کی شکل اختیار کر چکا ہے۔

حضرت نوحؑ نے قوم سے کہا: "إِنِّى لَكُمُ نَذِيرٌۭ مُّبِينٌ" (نوح: 2)

آج بھی اہل قرآن کہتے ہیں: "قرآن سنو، فطرت کی پکار کو سمجھو، پلٹ آؤ!"

حضرت نوح علیہ السلا کی قوم نے کہا: "مَا سَمِعُنَا بِهَ۔ ٰذَا۔۔ "

آج ہم کہتے ہیں: "ریسرچ دکھاؤ، سائنسی پروف دو، ہم ایمان نہیں، منطق مانتے ہیں"

قوم نوح نے سوچا، کشتیوں کی کیا ضرورت؟ ہم بچ جائیں گے۔

آج ہم کہتے ہیں: ٹیکنالوجی سب کچھ سنبھال لے گی۔

نوحؑ کا بیٹا بولا: "میں پہاڑ پر چڑھ جاؤں گا، مجھے کچھ نہ ہوگا" (ھود: 43)

آج ہم کہتے ہیں: "ہماری ڈرینج سسٹم، ڈیمز، کنکریٹ شہر ہمیں بچائیں گے"۔

لیکن پانی کا فیصلہ اللہ کے حکم سے ہوتا ہے۔۔ نہ پہاڑ بچا سکتا ہے، نہ ٹیکنالوجی۔ جب زمین پر گناہ اجتماعی ہو جاتے ہیں، تو آسمان بھی خاموش نہیں رہتا۔

قرآن خبردار کرتا ہے: "أَفَأَمِنَ أَهُلُ ٱلُقُرَىٰٓ أَن يَأُتِيَهُم بَأُسُنَا بَيَ۔ ٰتًۭا۔۔ " (الاعراف: 97)

"کیا بستیوں والے اس بات سے بےخوف ہو گئے کہ ہمارا عذاب رات کو آ جائے؟"

سائنس خبردار کرتی ہے:

"If we dont reduce carbon، climate collapse is inevitable۔ (IPCC Report، 2023)

شاید آج ہم اُس کشتی کو بھول بیٹھے ہیں جو نجات کے لیے نوحؑ نے بنائی تھی۔ آج ہم نے آسمان کو شوریدہ کر دیا ہے، زمین کو زخمی اور دل کو ساکت۔ نہ بارش تھمتی ہے، نہ حرص۔ نہ زمین سیراب ہوتی ہے، نہ آنکھیں۔

کبھی پانی چھتوں تک آ جاتا ہے اور کبھی تکبر دلوں تک اور شاید ہمارا غرور بھی ویسا ہی بلند ہو چکا ہے جیسا نوحؑ کے بیٹے کا پہاڑ۔ آج بھی ہم کہتے ہیں: "میں خود بچا لوں گا خود کو!"

لیکن جو طوفان اندر سے اٹھتا ہے وہ نہ بند دروازے روکتے ہیں، نہ پہاڑ، نہ منصوبے، نہ تحفظاتی پالیسیاں۔ بس ایک "کشتی" بچاتی ہے وہ کشتی جو نوحؑ نے حکمِ رب سے بنائی تھی۔ آج بھی وہی کشتی زندہ ہے۔۔ رب کا فرمان، رب کی رضا، رب کی طرف رجوع۔۔ یہی کشتی ہے، یہی نجات ہے۔ نوحؑ کی کشتی لکڑی کی تھی، آج ایمان کی ہے۔ نوحؑ کا سہارا وحی تھی، ہمارا سہارا قرآن ہے۔ وہ کشتی طوفان میں بہتی تھی، یہ کشتی گناہوں کے سیلاب میں راستہ دکھاتی ہے۔

تو آئیے! اس سے پہلے کہ بادل پھر گرجیں، زمین پھر پھٹے اور آسمان پھر آنکھیں برسائے۔۔ ہم پلٹ آئیں۔۔ رب کی طرف، رب کی رضا کی طرف، اُس کشتی کی طرف۔۔ جو اب بھی بند ہے، مگر انتظار کر رہی ہے۔ جیسے نوحؑ نے کہا تھا: "ارُكَبُوا فِيهَا بِسُمِ ٱللَّهِ مَجُر۪ىٰهَا وَمُرُسَىٰهَا" (ھود: 41)

"اس میں سوار ہو جاؤ، اللہ کے نام سے ہی اس کا چلنا ہے اور اس کا ٹھہرنا بھی"۔

Check Also

Hum Mein Se Log

By Najam Wali Khan