Jo Beet Gayi So Baat Gayi Kehna Theek Hai
جو بیت گئی سو بات گئی کہنا ٹھیک ہے
جو بیت گئی سو بات گئی کہنا کیا ٹھیک ہے یا نہیں اسکا جواب کچھ مختلف ھے۔ مختلف جگہوں پر یہ لفظ کہنا درست بھی لگتا ھے۔ اسکی وجہ یہ ھے کے انسان غلطی کا پتلہ ہے اور زندگی میں غلطیاں ضرور کرتا ہے۔ کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جسے بھولنا ہی اچھا ہوتا ہے اور جب کے کچھ باتیں جان بوجھ کر بھی نہیں بھلائی جا سکتی۔ مثال کے طور پر ایک ماں باپ اپنی اولاد کےلئے بیشمار محنت اور مشقت کرتے ہیں لیکن اگر یہی اولاد غلط صحبت میں بگڑ جائے تو ان والدین کے لیے ہر لمحہ کرب اورتکلیف دے گزرتا ہے تو انھیں دلاسادینے کے لیے یہ لفظ یا یہ جملے کہ سکتے ہیں کے جو بیت گیا سو بات گئی۔
لیکن تصویر کی دوسری طرف بیتے کل کو یاد کیے بنا آنے والا کل اچھا نہیں ہوسکتا۔ جنرل ایوب خان پاکستان کے وہ عظیم لیڈر تھے جو دوسری عالمی جنگ میں بطور کرنل برطانوی انڈین آرمی میں تھے جنھوں نے عراق ایران اور جنوبی امریکا میں بھی خدمات سرانجام دی۔ اور تقسیم پاک و ہند 1947 کے وقت پاکستان آرمی میں شامل ہو گئے۔ جنرل ایوب خان نے 1959 میں جنرل موسیٰ کو پاکستان کا کمانڈر ان چیف انتخاب کیا اور 1960 میں خود کو فیلڈ مارشل کے عہدے پر براجمان کرلیا۔ اکتوبر 1958 سے لیکر 1969 تک صدرجنرل ایوب خان کے دور میں پاکستان نے ترقی کی۔ شرح بیروزگاری 3 فیصد تھی۔ پاکستان اسٹیل ملز اور پاکستان ریلوے کا خسارہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ 1968 میں تربیلا ڈیم کی تعمیر کی گئی 1963 میں جرمنی جو آج دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے کو 25ملین ڈالر کا قرض دیا گیا۔ 1964 پاکستان ٹیلی ویژن کی بنیاد رکھی گئی اور پاکستان نے ترقی کے راستے عبورکئے 1969 میں یحییٰ خان نے ایوب خان کو مجبور کرکے استفیٰ لے لیا۔ اور ملک کی باگ دوڑ اپنے ہاتھ میں لے لی۔
انہوں نے سیاسی پارٹیوں پر لگی پابندی ختم کردی اور دسمبر 1970 میں عام انتخابات کراے جسکے بعد مشرقی پاکستان کی علحیدگی کی صورت میں ترقی کا راستہ بند ہوتے نظر آیا اور اور سیاسی اتراؤ چھڑاؤ شروع ہوگیا۔ اگر یہاں یہ بات کہیں کے جو بیت گئی سو بات گی تو غلط ہوگا جو ممالک پاکستان سے قرضہ لے کے خود کو سمبھال رہے تھے اور دنیا کے وہ ممالک جو پاکستان کو بہتر قراردے رہے تھے آخر ایسا کیا کچھ ہوا کے ملک اچانک اتنا نیچے چلا گیا کے آج بال بال قرضے میں ڈوبا ہوا ہے۔ جہاں 3 فیصد افراد بیروزگار تھے وہاں آج اکثریت بیروزگاروں کی ہے۔ بنگلہ دیش وہ ملک ہے جو پاکستان کا حصہ ہوتا تھا لیکن 1971 کی جنگ کے بعد دو حصّوں میں تقسیم ہوگیا اور حیرانی اس بات کی ہے کے چند شعبوں خاص طور پر صحت جو کے کسی بھی ملک کا ایک خاص اور اہم شعبہ ہوتا ہے پاکستان سے آگے نکل چکا ہے۔ ایران جو کے ایک اسلامی بردار ملک ہے۔ انقلاب کے بعد 1979میں وجود میں آیا آج وہ بھی پاکستان سے صحت اور تعلیمی نظام میں آگے نکل چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کے یہ تمام تر نہ اہلیاں بھول کر اور ذہن نشین کے بغیر ملک دوبارہ ترقی نہیں کرسکتا۔ وہ تمام چیزیں بھول جانا جس کی وجہ سے پاکستان تاریکی کے دلدل میں ڈوب گیا ممکن نہیں ہے اور شاید بلکل بھی نہیں اور نہ ہی یہ کہنا مناسب ہے کے جو بیت گئی سو بات گئی۔
31 اکتوبر 1984 کو اندرا گاندھی جو کے اپنے ہی دو سکھ محافظوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں۔ جسکے بعد اگلے ہی دن بھارت میں خون کی ہولی کھیلنے کا آغاز ہوا۔ جسکے کے بعد ہندو انتہا پسندوں کے ہاتھوں سکھوں کے قتل عام کا آغاز ہوا۔ اور درجنوں بےجرم اور معصوم بیگناہ سکھوں کو قتل کیا گیا۔ ایک اعداد و شمار کے مطابق 50,000 ہزار سے زیادہ لوگ بے گھر ہوے اور زیادہ تر وہ علاقے شدید متاثر ہوئے جہاں سکھوں کی آبادی زیادہ تھی سلطانپوری ترلوگپوری منگولپوری اور ترناسیومیں یہ وہ علاقے تھے جہاں سکھوں کی آبادی تھی۔ ہندو انتہا پسندوں نے ہاتھوں میں چاقو لوہے کی راڈے خنجر اور پیٹرول وغیرہ بھی اٹھارکھے تھے۔ بھارت کے تقریبا 41 شہروں میں 8000 سے لیکر 17000 کے قریب سکھ قتل کے گئے بسوں اور ٹرینوں سے سکھوں کو چن چن کر اتارا گیا شناخت کرکے سرعام قتل کیا گیا۔ سکھوں کی زندگی بھارت میں اجیرن کر دیگی۔ سکھوں کے گھروں میں گھس کر انکی ناموس کی عصمت پامال کی گئی اور ماؤں کے سامنے بچوں کو زندہ جلا دیا گیا جب کے تیزاب کو پانی کی طرح استعمال کیا گیا اتنی بری دہشتگردی اور بربریت مدد کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ پولیس نے پوری طرح ہندو ہشتگردوں کا ساتھ دیا ور تمام تر ریاستی وسائل استعمال کے بھارت کی مختلف جیلوں سے ناصرف خطرناک بلکے انتہائی خطرناک دہشتگردوں کو تین دن کے لئے آزاد کردیاگیا۔ تا کے سکھوں کی خون ریزی ہوسکے پولیس کسی بھی معاشرے میں انسانی زندگی بچانے اور قانون پے عمل کرانے کی ذمہ دار ہوتی ہے خاموش تماشائی بنی رہی۔ ہندو انتہا پسند اور ذلیل صفت رہنماؤں جگدیش ٹیٹلر اور اچ۔ کے۔ ایل۔ بھگت کی قیادت میں ہندو انتہا پسند سکھوں کی قتل عام گری کرتے رہے۔ ریاستی سرپرستی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کے سکھ جنہوں نے اپنے جان اور ناموس کی عزت کے لئے دفاع کیا تو انھیں مختلف موقدمات میں پھسا کر عدالت کے چکروں میں پھنسا دیا گیا جو عرصہ دراز چلتے رہے سکھوں پر یہ جو ظلم اور بربریت ہوئی کیا اس بات کو سکھ عوام یا دنیا کی دوسری قومیں بھول سکتی ہیں شاید نہیں کیا یہ بولنا ٹھیک رہےگا کے جو بیت گئی سو بات گی شاید نہیں۔
مسجد ہر مسلمان انسان کیلئے عبادت گاہ خانہ خدا ہے اور احترام لازم ہے۔ بابری مسجد جسے مغل بادشاہ بابر کے دور میں بھارت کےشہر ادھویا میں 1527 میں مغل دور کے پہلے جنرل میر باقی نے تعمیر کی اسی وجہ سے اس مسجد کو بابری مسجد کا نام دیا۔ لیکن ہندوں اس بات کا پر زور دعوے کرتے ہیں کے یہ ویشنو کی جگہ ہے اور وہ جگہ ہے جہاں مندر ہوا کرتا تھا ور انکے رام کی جنم بھومی ہے مسلمانوں نے اس پے قبضہ کیا ہوا ہے۔ 1992 میں ہندوں انتہا پسندوں نےمسجد پےحملہ کر کے اسے شہید کردیا۔ اور بھارت بھر میں فسادات اور قتلوں غارت گری کا بازار گرم ہوگیا ایک اعداد و شمار کے مطابق 2000 ہزار افراد اس میں مارے گئے۔ 2003 میں ایک سروے رپورٹ شایع کی گئی جس میں بتایا گیا کے لگتا ہے کے پہلے یہاں ایک مندر ہواکرتا تھا جسے مسمار کرکے مسجد تعمیر کی گئی۔ 30 ستمبر 2010 کو اللهباد ہائی کورٹ نے یہ بات برقرار رکھی کے یہ جگہ رام کی جنم بوھمی ہے جسے بعد میں تمام فریقوں نے سپریم کورٹ اف انڈیا میں لگانے کی حمایت کردی۔ 9 نومبر 2019 کو، سپریم کورٹ نےاللهباد ہائی کورٹ عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے (2.77 ایکڑ اراضی) زمین پر ہندو مندر بنانے کا حکم دیا۔ اور ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ وہ ایک ایکڑ زمین مسلمانوں کو دیں تا کےمسجد تعمیر کرسکے کیا ان واقعیات پر کہا جا سکتا ہے۔ یہ تلخ واقعہ ہندوستان کے مسلمان اور دنیا بھر کے مسلمان بھولا سکتے ہیں شاید نہیں تو جو بیت گئی سو بات گئی کہنا درست نہیں۔
اسی طرح 9/11 جو کے تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کو 11 ستمبر 2001 کو منگل کے دن پھیلی پھیر تباہ کر دیا گیا ا۔ جس میں 2700 سے زائد افراد لقمہ اجل بنے جب کے 25000 کے لگ بگ زخمی ہوے نہ صرف جانی نقصان بلکے مالی نقصان بھی کافی بڑے پیمانے پر ہوا جسکی براہراست ذمہ داری القاعدہ نے قبول کی۔ امریکی نیوز رپورٹ کے مطابق 13 بیلن ڈالر کا نقصان بھی سہنا پڑا۔ یہ امریکی تاریخ کا اب تک کا سب سے بڑا اور بھیانک ناک سانحہ تھا۔ القاعدہ کے 19 دہشتگردوں نے شمال مشرقی امریکی ریاست جانے والے چار مسافر طیاروں میں سے دو طیارے امریکی ایئر لائن۔ 11 فلائٹ اور یونائیٹڈ ایئر لائن فلائٹ 175 کو اغوا کرکے تباہ کر دیے۔ جو ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے شمال جنوبی ٹاورز سے ٹکرا کے گر گے۔ جس کے بعد امریکا نے 2002 میں افغنستان میں القاعدہ کے خلاف جنگ کا اعلان کردیا جس کے بعد خطہ کی مکمل صورتحال بدل گئی۔ اسکے بعد دوسری تنظیموں نے بھی افغانستان میں پنجے گھاڑنے شروع کردے اور دنیا مکمل بدل کے رہ گی۔ اسلئے وہ بیتا ہوا کل ذمدار ہے آجکے بگڑے ہوے حالات کا اسلیے جو بیت گی سو ببات گئی کہنا کچھ مناسب نہیں۔
دنیا کےحالات کا مختصر جائزہ لیں تو شاید ہی ہم بول سکیں کے جو بیت گئی سو بات گئی۔ الله پاک کا ایک نظام ہے۔ سچائی جتنی چاہے دبا لو لیکن چھپ نہیں سکتی۔ ملک میں قانون کی حکمرانی مضبوط ہوتی تو لیاقت علی خان بینظر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے لیڈر اور دوسرے معصوم شہری جنکا قتل سر عام ہوانہیں ہوتا اگر انکے قاتلوں کو مکمل قانون کے مطابق سزا ملتی تو کیا دوبارہ واقعیات رونما ہوتے۔ کبھی کبھی بڑی سے بڑی بات ہضم ہوجاتی ہے تو کبھی چھوٹی بات بھی ہضم نہیں ہوتی۔ جس طرح پاکستان کی سیاست میں اتراؤ چھڑاؤ آتا رہا ہے اسی طرح سیاسی رساکشی میں کچھ وہ واقعیات بھی ھوے ہیں جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا مشرف دور میں جہاں چند کچھ درجے ترقی ہوئی پاکستان سٹیل ملز پاکستان ریلویز کا خسارہ کم ہوا ور فائدہ ملا کراچی شہرمیں ترقیاتی کام ہوے۔ تو وہ کچھ بھی ہوا جسے عوام آج بھی نہیں بھولی۔ لال مسجد آپرشن بھی مشرف دور کا ایک متنازہ اور غلط فیصلہ سمجھا جاتا ہے۔ جس فیصلے نے جنرل کے باقی تمام فیصلوں کو متنازہ کردیا۔ لعل مسجد اور جامہ حفصہ آپرتیں 2007 میں ہوا۔ صدرجنرل مشرف اور وزیر عظیم شوکت عزیز کو اسکا ذمدار ٹہرایا جاتا ہے۔ 3 جولائی سے 11 جولائی تک اس کمپلیکس کا محاصرہ کیا گیا مذاکرات کے دور ناکام ہوے۔ جسکے بعد ریاست نے اور جنرل مشرف کی ٹیم نے مکمل آپرشن کا اعلان کیا اور پاکستان آرمی کے اسپیشل سروس گورپ نے آپرشن کا آغاز کیا۔ اس کاروائی میں کئی بیگناہ معصوم شہری فوجی اہلکار اور مدرسہ کے طالب علم بھی ہلاک ہوے۔ کیا ان باتوں کو بھولایا جا سکتا ہے یا کہا جا سکتا ہے کے جو بیت گئی سو بات گئی شاید نہیں۔ اس لیے ہر بیتی ہوئی داستان نہیں بھولا سکتے۔