Bachon Ki Parwarish Mein Waldain Ka Manfi Kirdar
بچوں کی پرورش میں والدین کا منفی کردار
میری بیٹی نے بہت چھوٹی عمر میں سکیٹنگ شروع کر دی تھی۔ اس وقت مجھے خدشہ رہتا کہ کہیں گر کر ناک نہ تڑوا لے۔ جب اس نے سکیٹنگ میں رقص کی بندشوں کو بھی شامل کر لیا تو کئی مرتبہ گر جاتی۔ مڑ کر ہماری طرف دیکھتی۔ اکثر اس کی ماں گھبرا کر بسم اللہ، بسم اللہ، کہنے لگتی۔ ماں کو خوفزدہ دیکھ کر بیٹی بھی رونا شروع کر دیتی۔ جب ماں پاس نہ ہوتی اور میں بھی کوئی توجہ نہ دیتا تو وہ تھوڑی دیر کی گھبراہٹ کے بعد اٹھ کر دوبارہ سکیٹنگ شروع کر دیتی۔
وہ اس وقت چھ سات برس کی ہوگی جب ہم خان پور ڈیم گئے۔ ڈیم سے نکلنے والی نہر بہت اونچائی سے گرتی ہے۔ پانی کی رفتار کو کم کرنے کے لیے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کی گئی ہیں۔ پھر بھی پانی کے بہاؤ کی رفتار انتہائی تیز ہے۔ نہر تو اتھلی سی ہے لیکن جہاں پانی گرتا ہے وہاں گہرائی کافی زیادہ ہے۔ ہم اس نہر میں نہا رہے تھے اور لوگ سامنے پل سے گہرے پانی میں چھلانگیں لگا رہے تھے۔
پوچھنے لگی، "میں بھی چھلانگ لگاؤں"۔ میں نے کہا، جاؤ۔ یہ سنتے ہی وہ بھاگ کر گئی اور غڑاپ سے نہر میں کود گئی۔ دو تین غوطے آئے، پانی بہا کر اسے ہموار جگہ پر لے آیا۔ روتے ہوئی باہر نکلی۔ میں نے پوچھا، "کیا ہوا؟"
"پانی بہت گہرا تھا"۔
"تو کیا ہوا؟ تم نے تو تیرتے ہوئے پار کر لیا"۔
وہ خاموش ہوگئی۔ بھاگ کر ماں کے پاس چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد واپس آ کر کہنے لگی۔
"پھر چھلانگ لگاؤں؟"
میرے لیے یہ حیران کن تھا کہ میں اس کے رویے کو اس حد تک متاثر کر سکتا ہوں۔ صرف میرے پرسکون رہنے سے اس کا ڈر ختم ہو جاتا ہے۔ یہ وہ بچی تھی جو کپڑوں کی سلیکشن سے لے کر اپنے جوتے خریدنے تک ہر بات میں مجھ پر اعتماد کرتی تھی۔ پڑھائی میں بھی مجھ پر ہی بھروسا کرتی۔ کسی لفظ کے سپیلنگ میں الجھ جاتی تو پاس بیٹھی ٹیچر پر یقین کرنے کی بجائے مجھ سے پوچھتی۔
یہ بات میں نے دوبارہ اس وقت اور زیادہ شدت سے محسوس کی جب او لیول کے لیے اسے لاہور جانا پڑا۔ نیا سکول اور دوست بھی کوئی نہیں۔ ایک رات ہوم ورک کرتے ہوئے ایک کلاس فیلو کے بارے میں بتانے لگی جو اس کے ساتھ بدتمیزی کرتی تھی۔ میں اپنے کام میں مصروف رہا لیکن ذہن اس کی باتوں میں الجھا ہوا تھا۔ سوچ رہا تھا کہ اس مسئلے کا کیا حل ہو سکتا ہے؟
"اسکول فون کروں؟
ماں کو اس کی ٹیچر کے پاس بھیجوں؟"
میرا جواب نہ پا کر وہ بھی خاموش ہوگئی۔ اپنا کام مکمل کرنے کے بعد میں اس کی طرف متوجہ ہوا۔
"یہ غلط بات ہے۔ تم نے کیا کیا؟"
"میں نے سوچا ہے کہ کلاس روم میں اپنی جگہ بدل لوں۔ دوپہر کے وقفہ میں اس کے پاس بیٹھے رہنے کی بجائے گراؤنڈ میں جا کر باسکٹ بال کھیلنا شروع کر دوں"۔
"یہ بہت اچھا حل ہے"۔
وہ مطمئن ہو کر ہوم ورک میں دوبارہ مشغول ہوگئی۔ اب وہی لڑکی اس کی بہترین دوست ہے اور اس کی شادی میں پارلر سے لے کر فوٹو گرافری اور شادی ہال کی ڈیکوریشن تک سارے کاموں میں ہمارے ساتھ ساتھ ہے۔
بچے پالنے اور ان کی تربیت کرنے میں میرے لیے یہ ایک اہم سبق تھا۔
"بعض اوقات کچھ کرنے سے، کچھ نہ کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے"۔
کوئی بھی انسان شاید خود پر طاری ہونی والی اس کیفیت کو پوری طرح بیان نہیں کر سکتا جب پہلی بار اس کا اپنا بچہ اس کی گود میں دیا جاتا ہے۔ اس کیفیت کا ایک مظہر والدین کے بارے میں قرآن پاک کی وہ آیت مبارکہ ہے جس میں دینے والے اور پالنے والے دونوں کے لیے رب، کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔
رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِی صَغِیراً
جس طرح یہ بیان مشکل ہے اسی طرح ہم بچہ پالنے کے لیے کسی قسم کا کوئی مکمل ہدایت نامہ بھی جاری نہیں کر سکتے۔ ہر بچے اور والدین کے لیے یہ ایک انوکھا اور بیک وقت خوشگوار و مشکل کام ہے۔
میں پچھلے پینتیس سال سے فیملی فزیشن کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں بچوں کو والدین کی گود سے نکل کر اس دنیا کی گھٹنائیوں سے نمٹتے دیکھ چکا ہوں۔ ہزاروں والدین کو بچوں کی چھوٹی چھوٹی بیماری میں روتے، پٹتے اور تڑپتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ ایسے والدین کے بچے بھی ہمارے لیے مسائل پیدا کرتے ہیں اور علاج کو مشکل سے مشکل بنا دیتے ہیں۔ جن بچوں کی ماں ان کی خوراک کے بارے میں زیادہ فکر مند ہوتی ہے ان میں ہی کھانے پینے کے مسائل زیادہ جنم لیتے ہیں۔ بہت سے ایسے ماں باپ بھی دیکھے ہیں جو بڑی سے بڑی مشکل میں بھی اپنے حواس برقرار رکھتے ہیں۔ ان لوگوں کے بچے بھی صابر و شاکر اور مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہیں۔
تعلیم کے شعبہ میں بھی ہم نے ایسے ہی حالات دیکھے ہیں۔ موجودہ دور میں پہلے کی نسبت وسائل کم ہیں اور مقابلہ زیادہ، چاہے وہ کالج میں داخلہ ہو، نوکری یا رہائش۔ والدین اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کے بچے آگے بڑھنے میں سبقت لیں۔ اس مقصد کے حصول کے لیے بچوں پر تعلیم کا دباؤ اتنا بڑھا دیا گیا ہے کہ انہیں کھیل کود کے لیے وقت نہیں ملتا جس سے بچوں کی جسمانی نشو و نما اچھی نہیں ہوتی۔
مقابلہ بازی میں کوئی ہار ماننے کو تیار نہیں۔ پہلی کلاس سے ہی والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ بچہ کوئی پوزیشن لے اور انعام لے کر گھر آئے۔ اس رجحان نے سکولوں کو نئی سیاست سکھائی ہے۔ کبھی کسی سکول کے پروگرام میں چلے جائیں تو دیکھتے ہیں کہ جتنے بچے ہیں اس سے زیادہ انعامات۔
یہ پوزیشن اور زیادہ نمبر کا رواج اتنا بڑھ گیا ہے کہ تعلیمی ادارے، بورڈ اور جامعات ڈھیروں کے حساب سے نمبر دیتے ہیں۔ نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ نوے فی صد سے زائد نمبر لے کر بھی داخلہ مشکوک ہوتا ہے۔ ہر سال میڈیکل کالج میں داخلہ کے امتحان کے بعد ہم یہ سب بھگتتے ہیں۔
دوسری طرف اتنے زیادہ نمبر لینے والے جب عالمی مارکیٹ کا رخ کرتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ہماری ڈگری کی کوئی خاص اہمیت نہیں کیونکہ علم و فن میں یہ نوجوان دوسرے ممالک کے تعلیم یافتہ لوگوں سے بہت پیچھے ہوتے ہیں۔
اگر کام کی طرف دیکھا جائے تو والدین اس معاملہ میں بھی مسائل پیدا کرتے ہیں۔ سکول یا کالج میں کسی بڑے پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہو تو والدین کو فکر رہتی ہے کہ ہمارے بچے پر ورک لوڈ زیادہ ہے۔ کام اس نے زیادہ کیا ہے اور تعریف و توصیف کا حق دار کسی دوسرے کو ٹھہرایا گیا ہے۔ سزا (جسمانی یا ذہنی نہیں) کے معاملے میں بھی اکثر یہی رویہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ کامیابی و ناکامی اور جزا و سزا بچوں کی ذہنی نشو و نما میں مددگار ہوتی ہیں۔
بچے سب کو پیارے ہوتے ہیں اور ہر انسان یہی چاہتا ہے کہ اس کا بچہ بہترین اور کامیاب زندگی گزارے۔ بدقسمتی سے سکول، کالج، جامعات اور ہم خود بچوں کی تربیت ایسی کر رہے ہیں کہ مستقبل کے بارے میں ہم خود کوئی زیادہ پر امید نہیں ہوتے۔
ممتا کا جذبہ اور پدری شفقت انسان کو مجبور کرتی ہے کہ بچوں کی راہ میں حائل ہر رکاوٹ دور کرکے انہیں زیادہ سے زیادہ سہولیات بہم پہنچائی جائیں۔ لیکن یہ جبلت بچوں کو سہل پسند بنا دیتی ہے۔ نوجوان جو والدین کی مدد کے عادی ہو جاتے ان میں اعتماد کا فقدان ہوتا ہے اور وہ آزادنہ کام کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس کرتے ہیں۔ یہ نوجوان مسائل کا اس حد تک شکار ہو جاتے ہیں کہ اپنی زندگی کا ساتھی بھی خود نہیں تلاش کر سکتے۔ اس کے لیے بھی ماں باپ کا سہارا ڈھونڈتے ہیں۔
اپنے بچوں کو تکالیف سے بچانا ہماری جبلت میں شامل ہے اور انہیں جدوجہد کرتے ہوئے دیکھنا پریشان کن ہو سکتا ہے۔ والدین کی پہلی خواہش اپنے بچے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا ہوتی ہے۔ ایسی رکاوٹیں جو بظاہر بچوں کی صلاحیت سے بہت زیادہ محسوس ہوتی ہیں اور والدین انہیں آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔ لیکن یہی بات غلط ہے۔ ایسا بچہ والدین کی مداخلت کا عادی ہو جاتا ہے اور یہ سوچ لیتا ہے کہ وہ اپنے طور پر کام کرنے کے قابل نہیں۔
اس وجہ سے وہ عام حالات میں بھی گھبرا جاتا ہے اور مدد ڈھونڈنا شروع کر دیتا ہے۔ سمجھدار والدین بچوں کو مشکلات کا سامنا کرنے کی آزادی دیتے ہوئے ان کی ذہنی و جذباتی رہنمائی کرتے ہیں۔ یہ ظاہر کرتے ہیں کہ انہیں اپنے بچوں پر مکمل بھروسا ہے اور وہ مشکل سے مشکل حالات کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔ بچوں کی پرورش میں والدین کے لیے سب سے اہم کام یہ جاننا ہے کہ کب بچوں کی مدد کرنی ہے؟ کب پیچھے ہٹ جانا ہے کہ وہ اپنا راستہ خود تلاش کر لیں۔
والدین کو صبر کے ساتھ بچوں کے مسائل سننے کی عادت ڈالنی چاہیے۔ مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کوشش کرنے کی بجائے انہیں مشورہ دینا چاہیے کہ یہ کیسے حل ہو سکتا ہے۔ کامیابی پر حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ناکامی کو جھیلنے کا سبق بھی دینا چاہیے۔ دوسروں کی فتح قبول کرنے کا حوصلہ بھی پیدا کرنا چاہیے۔ اس طرح ہم ایسے بالغ افراد پیدا کر سکیں گے جو دنیا کو سنوارنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے اور عالمی مارکیٹ میں دوسروں کو مقابلہ کر سکیں گے۔