Saturday, 27 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi/
  4. Ertughrul Aur Usmani Saltanat

Ertughrul Aur Usmani Saltanat

ارطغرل اور عثمانی سلطنت

ارطغرل غازی نامی ڈرامہ آج کل برصغیر کے لوگوں کےلیے آئیڈیل اور پسندیدہ ترین ڈرامہ بنا ہوا ہے۔ سوال یہ ہے ارطغرل کا تاریخ میں کیسا کردار رہا، اور یہ کن عقائد کا ماننے والا تھا؟

ارطغرل عثمانی سلطنت کے بانی عثمان کے والد تھے۔ آپ سلجوقیوں کے ایک کمانڈر تھے جنہوں نے ان کی جنگجویانہ خدمات کے اعتراف میں مغربی اناطولیہ میں جاگیر دی تھی۔ ارطغرل ایک خانہ بدوش ترک قبیلے کا سردار تھا جو وسطی ایشیاء سے ہجرت کر کے اناطولیہ میں بس گیا تھا۔ ارطغرل نے ان کو خانہ بدوشی سے نکال کر شہری بنا دیا تھا۔ صلیبی جنگوں میں ارطغرل کا اہم کردار رہا ہے۔

یاد رہے کہ ترکوں کا اصل وطن وسطی ایشیاء تھا جس کو ترکستان کہتے تھے۔ آج کی وسطی ایشیاء کی ریاستیں تاجیکستان، کرغیزستان، قازقستان، اور ترکمنستان اس میں شامل ہیں۔ نیز چین کا صوبہ سنکیانگ بھی اس کا حصّہ تھا جس کے شہر کاشغر، یارقند اور ختن معروف ہیں۔ سنکیانگ میں رہنے والے ترکوں کو "اویغور" ترک کہا جاتا ہے، جبکہ کرغیز، قازق، ازبک اور ترکمن بھی مختلف ترک قبائل ہیں جن کے ناموں پر آج ملک آباد ہیں۔ ترک روس کے علاقے سائبیریا اور اس کے اطراف میں بھی آباد ہیں لیکن یہاں کے ترک غیر مسلم ہیں۔ وسطی ایشیاء کے مختلف ترک قبائل ان علاقوں کی سخت آب و ہوا کی وجہ سے یا کشور کشائی کے شوق میں ایران، قفقاز اور اناطولیہ وغیرہ میں ہجرت کرتے رہے یا حملہ آور ہوئے۔ قفقاز اور اناطولیہ کی مکمل آبادی کی زبان اور ثقافت انہوں نے تبدیل کر ڈالی۔ قفقاز اور اس کے اطراف میں رہنے والے آذری ترک کہلائے جن کے علاقوں کو آذربائجان کہتے ہیں۔ آذربائجان ایران کا حصّہ رہا لیکن صفویوں اور روسیوں کی جنگ کے دوران ان علاقوں پر روس نے قبضہ کر لیا جو آج جمہوریہ آذربائجان کے نام سے ہے، جبکہ اس کا ایک بڑا حصّہ آج بھی ایران کے پاس ہے۔

جبکہ اناطولیہ پر ترکوں کی آمد و رفت منگولوں کے حملوں سے پہلے سلجوقیوں کے دور میں ہوئی جو اس زمانے میں ترکستان سے لے کر مصر تک تمام اسلامی ممالک پر قابض تھے۔ اوغوز ترکوں کے اس قبیلے سلجوقیوں نے اناطولیہ پر قبضہ کیا، ارطغرل انہی کا ایک کمانڈر تھا۔ یہ علاقے آہستہ آہستہ ترک زبان کے اثرات کو قبول کرتے گئے، آج ان علاقوں کو جمہوریہ ترکی کہا جاتا ہے۔ دراصل یہ ترک وسطی ایشیاء سے اناطولیہ کی طرف آتے رہے اور مقامی آبادیوں کو اپنے زیر اثر کرتے گئے۔

آتے ہیں اصل موضوع کی طرف، حقیقت میں ارطغرل بس ایک کمانڈر تھا اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ ڈرامے میں ایک پہلو تاریخ کا ہوتا ہے اور دوسرا پہلو ہیرو سازی کا ہوتا ہے۔ اجمالی طور پر تاریخی واقعات کسی حد تک دکھائے جاتے ہیں لیکن ڈراماٹائز بھی کیا جاتا ہے تاکہ لوگوں کی دلچسپی رہے۔ یہی حال دیگر تاریخی ڈراموں کا بھی ہے۔ ارطغرل اور دیگر ترک سرداروں اور حکمرانوں کو ترکی میں ہیرو کا درجہ حاصل ہے اور اسی ہیرو سازی کے جذبے کے تحت یہ ڈرامہ بنایا گیا ہے۔

جہاں تک ارطغرل کے مذہبی عقائد کی بات ہے تو اس زمانے میں اناطولیہ یعنی موجودہ ترکی میں تصوف کا غلبہ تھا اور صوفیوں میں حب اہلبیت ع کا مادہ کافی رہا ہے۔ بلکہ اس زمانے میں شیعت اور صوفیت میں پہچان مشکل ہو جاتی تھی کیونکہ تقیہ کی وجہ سے کئی شیعوں نے صوفیت میں پناہ لے رکھی تھی۔ ارطغرل بھی اسی طرح کا ایک صوفی تھا لہذا ایک انتہا درجے کا محب اہلبیت ع تھا اور ان کی ولایت تکوینی کا معترف تھا۔ البتہ ارطغرل کے بعد عثمانی سلطنت قائم ہوئی تو یہ ٹھیٹھ حنفی سنی بن گئے، البتہ تصوف سے ان کا شغف رہا۔ عثمانی سلاطین صوفیاء کی سرپرستی کرتے رہے اور ان میں کئی تصوّف پر کاربند بھی رہے۔

جب عثمانی سلطنت مستحکم ہوتی ہے تو ان کی توجہ یورپ کی طرف چلی جاتی ہے اور یورپی علاقوں کو ایک ایک کر کے فتح کرتے چلے جاتے ہیں۔ کم و بیش اسی زمانے میں ایران میں صفوی حکومت قائم ہوتی ہے جو شیعہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے تھے۔ پیچھے سے صفویوں کا تعلق بھی اناطولیہ سے تھا اور یہ بھی ترک تھے۔ اناطولیہ کے بغل میں یہ نئی ترک حکومت عثمانیوں کو پسند نہیں آتی اور دونوں کے درمیان رقابت شروع ہو جاتی ہے۔ صفویوں نے سنّی ترکوں کے مقابلے میں مکتب تشیع کو قبول کیا اور ایران کا سرکاری مذہب "جعفری" قرار دیا۔ عثمانی سلطان سلیم اوّل نے صفوی بادشاہ شاہ اسماعیل صفوی کے دور میں باقاعدہ ایران پر حملہ کیا جس کی مذہبی بنیاد فراہم کرنے کے لئے اپنی سلطنت کے کچھ مفتیوں سے شیعوں کے واجب القتل ہونے کا فتوی حاصل کیا تاکہ لوگ جوق در جوق مذہبی جذبے کے تحت اس جنگ میں حصّہ لیں۔ اس جنگ میں عثمانیوں کو فتح حاصل ہوتی ہے اور صفویوں کے دارالحکومت تبریز پر عثمانیوں کا قبضہ ہو جاتا ہے۔ جب عثمانی افواج نے دیکھا کہ شیعہ نماز پڑھتے ہیں، ان کی مساجد سے اذانیں ہوتی ہیں اور دیگر شعائر اسلام کی پابندی کرتے ہیں تو انہوں نے سلطان سلیم کو خط لکھا کہ یہ تو ہم جیسے مسلمان ہیں، ہم ان کے قتل سے اپنے ہاتھ رنگین نہیں کر سکتے۔ یہ خط تاریخ میں بہت مشہور ہے۔ انہوں نے شیعوں کے ساتھ مزید لڑنے سے انکار کیا جس کی وجہ سے شاہ سلیم ایران کو مکمّل فتح نہ کر سکا اور واپس پلٹنا پڑا اور پھر صفویوں نے دوبارہ اقتدار حاصل کیا۔

شاہ سلیم کے دور میں شام اور حجاز پر مملوک سلاطین کا قبضہ تھا، شاہ سلیم نے ان کو شکست دی اور ان مسلمان ممالک پر بھی قابض ہوا۔ مکہ اور مدینہ پر قبضے کے بعد اپنے لئے "خادم الحرمین الشریفین" کا لقب اختیار کیا، تاریخ میں یہ لقب پہلی دفعہ عثمانی خلیفہ شاہ سلیم اوّل نے اپنے لئے اختیار کیا تھا۔ عجب یہ ہے کہ شاہ سلیم نے اپنے باپ کو معزول کر کے سلطنت پر قبضہ کیا تھا اور اپنے تمام بھائیوں اور چچا زاد بھائیوں کو قتل کیا تھا تاکہ اس کی سلطنت کے لئے خطرہ نہ بنیں۔ اکثر عثمانیوں کی سیرت یہی رہی ہے کہ اقتدار کے بعد اپنے بھائیوں کو قتل کر دیتے تھے۔

ان عثمانی سلاطین نے جو ارطغرل کی اولاد میں تھے، کئی جگہوں پر اور کئی مواقع پر شیعوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ بھی توڑے۔ اناطولیہ کے علوی شیعوں کو تہ تیغ کیا، ان کے بعض افسروں نے شام میں جبل عامل کی شیعہ آبادی پر سختیاں کیں، بعض درباری ملاوں نے شیعوں کے واجب القتل ہونے اور کفر کے فتوے بھی صادر کئے تھے۔ لیکن ان سب کا ارطغرل سے واسطہ نہیں کیونکہ یہ بعد کی باتیں ہیں۔ لہذا ان سب باتوں کی ذمہ داری ارطغرل پر نہیں ڈالی جا سکتی۔

بہرحال یہ ایک ڈرامہ ہے اور اس کو ڈرامے کے طور پر ہی لینا چاہیے۔ اس میں ارطغرل کو جس طرح دکھایا گیا حقیقت میں اس کا حلیہ ویسا نہیں تھا، کیونکہ خالص ترک ہونے کے ناطے اس کی آنکھیں چھوٹی تھیں جیسے زرد نسل لوگوں کی ہوتی ہیں۔ بعد کے عثمانیوں نے مقامی اناطولی و یورپی خواتین سے شادیاں کیں جس کے نتیجے میں قفقازی شکل و صورت کے ترک سلاطین وجود میں آئے۔

Check Also

Teen Hath

By Syed Tanzeel Ashfaq