Thursday, 26 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Syed Jawad Hussain Rizvi
  4. Aalim Baadshah

Aalim Baadshah

عالم بادشاہ

ہندوستان میں سکندر اعظم کے حملے کے بعد شمالی ہند (بشمول آج کے پاکستان) میں طویل عرصے تک موریہ سلطنت قائم رہی، جس کے پہلے فرمانروا مہاراجہ چندر گپت موریہ معروف ہیں۔ اس زمانے میں اس کی سلطنت کابل سے لے کر بنگال تک کے طویل خطّے پر محیط تھی۔

موریہ خاندان کے خاتمے کے بعد ہند یونانیوں (Indo-Greeks) کی حکومت قائم ہوئی۔ یہ یونانی لشکریوں کی اولاد سے تھے جنہیں سکندر اعظم نے مختلف ریاستوں کی حفاظت کے لئے اس خطے میں چھوڑا تھا، اس لئے ان کو ہندی یونانی کہا جاتا ہے۔

یہ ایک عظیم مہاراجہ کے تعارف کی تمہید ہے جنہیں مہاراجہ ملندہ کہا جاتا ہے جن کا دور کم و بیش 150 قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ ان کا اصلی یونانی نام "منیندر" تھا لیکن ہندوستانی روایات میں ان کو ملندہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس کی حکومت دور حاضر کے پاکستان اور بھارتی پنجاب اور خیبر پختونخواہ کے حصّوں پر مشتمل تھی جن میں سیالکوٹ اور ٹیکسلا بہت اہم شہر تھے۔ سیالکوٹ اس کی حکومت کا پایۂ تخت تھا۔ یہ دونوں شہر جدید پلاننگ کے اصولوں پر قائم کئے گئے تھے۔ شہروں میں سڑکیں، چوراہے، بازار اور منڈیاں بنانا لازمی تھا۔ گھر چونکہ لکڑی کے ہوتے تھے لہذا آگ بجھانے کے لئے ہر گھر کے سامنے پانی کا گھڑا رکھنا لازمی تھا، گویا یہ Fire Extinguisher کا اوّلین نمونہ تھا۔

مہاراجہ ملندہ ایک دانشور اور عالم بادشاہ تھا۔ وہ بیک وقت شاعر، فلسفی، ویداؤں کا ماہر، چاروں آستک فلسفیانہ مکاتیب فکر یعنی سانکھیہ، یوگ، نیائے اور ویششک سے کلی طور پر آگاہ، تاریخ دان اور ایک فصیح البیان مقرر تھا۔ اس کی تبحّر علمی کا یہ عالم تھا کہ کوئی دانشور یا فلسفی اس کے دلائل کے سامنے کھڑا نہ ہو سکتا تھا۔ اس زمانے کے علماء کو اس نے بے بس کر دیا تھا۔ جب کوئی اس کے شبہات کا جواب نہیں دے سکا تو تمام دانشوروں کو بے کار قرار دے کر اپنے پایۂ تخت سے نکال دیا تھا۔ جو رہ گئے انہوں نے دانشوری سے توبہ کر لی۔ یہ صورت حال تب تک جاری رہی جب بادشاہ ایک بودھ بھکشو کے دلائل کے سامنے بے بس ہوا۔

ناگ سین نامی ایک بودھ فلسفی اور بھکشو نے ایک مناظرے کے ذریعے مہاراجہ ملندہ کو ہرا دیا اور اس کے تمام شبہات دور ہوئے، نتیجہ یہ ہوا کہ مہاراجہ ملندہ نے بدھ مت قبول کر لیا۔

یہ مناظرہ خاصا طویل ہے جس میں ناگ سین یکے بعد دیگرے ملندہ کے شبہات کو برطرف کرتا ہے۔ صدیوں سے یہ مکالمہ سینہ بہ سینہ محفوظ رہا بلکہ اس کو اوائل میں ہی سنسکرت اور پالی میں لکھ لیا گیا تھا۔ آج برمی اور چینی بدھ مت کے پیروکاروں کے نزدیک یہ مقدس صحیفے کی حیثیت رکھتا ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق یہ مکالمہ گندھاری زبان میں رونما ہوا جو اس زمانے میں شمال مغربی ہند یعنی خیبر پختونخواہ اور پنجاب کے بالائی علاقوں کی زبان تھی۔

اس مکالمے کا انگریزی ترجمہ تھامس رایز ڈیوڈ Thomas Rhys David نے سن 1890 میں (The Questions of King Milinda) کے نام سے کیا ہے۔ جبکہ یہ مکالمہ پالی زبان میں "ملندہ پانہا" Milinda Panha کے نام سے صدیوں سے موجود ہے۔

Check Also

Safar e Hayat Ke 66 Baras, Qalam Mazdoori, Dost Aur Kitaben

By Haider Javed Syed