Kahani Latt Ki
کہانی لَٹ کی
اماں کا نکاح جب شاہ جی سے ہوا تو ان کی عمر 16 سال تھی۔ اماں بتاتی ہیں کہ 16 سال کی عمر تک انہوں نے قرآن شریف مکمل نہ کیا تھا جس کی کچھ وجوہات تھیں۔ اماں کی بڑی بہن یعنی ہماری ماسی کو گورنمنٹ پرائمری سکول میں داخل کروایا گیا لیکن دو بار فیل ہونے کے بعد بھی وہ تین جماعتوں سے آگے نہ جا سکیں۔ وہ سکول میں حوالدارنی بن کر روزمرہ بچیوں کی دھنائی کرتیں، ان کے بال کھینچتی اور کاپیاں پھاڑ دیتیں، اس طرح کی شکایات سن سن کر نانی اماں کے کان پک چکے تھے لہذا انہیں سکول چھڑوا دیا گیا۔ یہ آج سے کوئی 80 سال پرانی بات ہے جب گاؤں میں صرف پرائمری سکول ہی تھا اور لڑکیوں کی تعلیم پہ ویسے بھی کسی کا دھیان نہ جاتا تھا۔
اماں جو کہ ماسی سے تقریباً پندرہ سال چھوٹی اور بہن بھائیوں میں چوتھے نمبر پر تھیں جب سکول جانے کے قابل ہوئیں تو بڑے بہن بھائیوں کی نالائقیوں کی وجہ سے انہیں سِرے سے سکول بھیجا ہی نہ گیا لہذا وہ رسمی تعلیم سے محروم رہیں۔ انہوں نے بڑی ضد کی منت سماجت کی مگر ہمارے ناخواندہ نانا نانی نے ان کی ایک نہ سنی۔ اماں بتاتی ہیں کہ شادی سے کچھ عرصہ قبل بڑی مشکلوں سے انہیں قاعدہ پڑھنے کی اجازت ملی اور قرآن مجید کی تکمیل شادی کے بعد 17 سال کی عمر میں ممکن ہوئی۔ اب گزشتہ 57 سال سے مختلف مسائل، مصروفیات اور بیماریوں کا شکار ہونے کے باوجود وہ تقریباً ہر سال تین چار قرآن شریف ختم کر لیتی ہیں۔
شادی کے پہلے عشرے میں اوپر تلے 4 بیٹیاں پیدا کرنے کے بعد اپنے خاوند کا معاشی ساتھ دیتے ہوئے جہاں سلائی مشین پہ ان کی کام کرنے کی رفتار تیز ہوئی وہیں قرآن شریف کی دہرائی بھی بڑھتی چلی گئی اور ساتھ ساتھ پیروں فقیروں اور مزارات پہ حاضریوں کا سلسلہ بھی شروع ہوگیا۔ اولاد نرینہ اماں کی سب سے بڑی حسرت بن چکی تھی۔ شاہ جی ہمیشہ اماں کو صبر کی تلقین کرتے اور یہی کہتے کہ بیٹیوں پہ ہی اکتفا کرو لیکن اماں کے سر پہ تو بیٹے کا جنون طاری تھا۔ ایک بار وہ کراچی سے پنجاب آئیں تو ہماری ماسی انہیں بَری امام سرکار کی دربار پہ لے گئیں، اماں نے وہاں جھولی پھیلائی اور دس ماہ بعد میں دنیا میں پدھار چکا تھا۔ اماں بتاتی ہیں کہ چاروں بیٹیوں کی باری دوران زچگی بہت دکھ سہے لیکن تم پیدا ہوئے تو پتہ بھی نہ چلا۔ شاید حسرت پوری ہونے کی مسرت سے سارے درد ہوا ہو گئے اور میں تمہیں پیدا کرکے پورے گھر میں یوں گھوم رہی تھی جیسے تم آسماں سے ٹوکری میں اترے ہو۔
کراچی سے بڑی پھپھو کو بذریعہ چٹھی یہ خوشخبری سنائی گئی تو انہوں نے بدلے میں مبارکباد کا خط بھیجا اور سختی سے تلقین کی کہ میرے بھتیجے کی لَٹ لازمی رکھنا۔ اماں پہلے ہی میری پیدائش کا سہرا بَری امام والی کے سر باندھ چکی تھیں لہذا میری چوٹی پہ بال چھوڑ دئیے گئے۔ وقت گزرا، میں صحن میں رینگنے کے بعد جب چلنے کے قابل ہوا اور محلے میں دکانوں پہ نکلنا شروع کیا تو آتے جاتے بچے میرے سر پہ لمبی سی لَٹ دیکھ کر ہنستے، اسے کھینچتے، تمسخر اڑاتے اور میں منہ بسورتا روتا گھر واپس آتا تھا۔ اماں اور بہنیں میرا خیال تو رکھتی ہی تھیں لیکن اُس لَٹ کا پہ مجھ سے بھی زیادہ توجہ دیتیں۔ مہنگے صابن سے سر دھویا جاتا، خوشبودار تیل سے لٹ کی مالش کی جاتی اور پھر بڑی ہی نرمی سے اس لَٹ کو گوندھ کر چھوٹی سی گُت کی شکل دے دی جاتی جو میرے سر کی چوٹی پہ دائیں بائیں جھول کر میری گردن اور کانوں کو چومتی رہتی تھی۔
میں چار سال کا تھا جب سکول جانے لگا۔ سکول جا کر تو میری مزید مٹی پلید ہوئی۔ اب نہ صرف لڑکے لڑکیاں چھیڑتے بلکہ استاد استانیاں بھی مجھے یوں دیکھتے جیسے میں کسی اور سیارے کی مخلوق ہوں۔ ایک دن سکول سے واپسی پہ روہانسا ہو کر میں نے اماں کی کپڑے کاٹنے والی قینچی اٹھائی اور لَٹ کاٹنے ہی والا تھا کہ بڑی آپی نے دیکھ لیا۔ مجھے آج بھی یاد ہے میرے سرخ پھولے پھولے گالوں پہ ہپیاں دینے والی آپی نے اس روز انہیں گالوں پہ وہ تھپڑ مارا کہ میں زمین پہ گر پڑا تھا۔
"تمہیں پتہ ہے یہ لَٹ بَری امام کی امانت ہے؟ امانت میں خیانت کرو تو اللہ میاں ناراض ہوتے ہیں۔ خبردار جو آج کے بعد تم نے لٹ کو ہاتھ بھی لگایا"۔
میں نے چیخ چیخ کر آسمان سر پہ اٹھا لیا اور یہ سوچتا رہا کہ نجانے اس امانت سےکب جان چھوٹے گی جس نے مجھے لوگوں کی نظر میں عجوبہ بنا دیا تھا۔
اور پھر کچھ عرصہ گزرا۔ ہم سب صحن میں چارپائیاں ڈال کر سو رہے تھے۔ میرے سرہانے کچھ فاصلے پہ ہی ابا کی چہیتی بکری بندھی ہوئی تھی۔ رات نجانے وہ کیسے کھل گئی اور سرہانے سے لٹکی میری ایک فُٹ لمبی لَٹ کو ہری ہری گھاس سمجھ کر منہ میں لے کر اپنی جانب کھینچا۔ میں درد کی شدت سے چلایا، سارا ٹبر اٹھ کر بیٹھ گیا لیکن ہونی کو ٹال نہ سکا، میری آدھی لٹ بکری کے منہ میں جا چکی تھی۔ بکری کو امانت میں خیانت کرنے کی کیا سزا ملی ہوگی آپ خود ہی تصور کر سکتے ہیں۔
میں پانچ سال کا ہو چکا تھا، لٹ ہنوز میرے سر پہ ناگن ناچ نچ رہی تھی جب ایک شب اماں کو خواب میں سفید رنگ کا سانپ نظر آیا اور پھر اس طرح کے خوابوں کے سلسلہ طول پکڑتا گیا۔ کبھی سبز طوطے، کبھی سبز جھنڈے، کبھی سبز دربار تو کبھی جلتے چراغ اماں کو سوتے میں جگا دیتے۔ پس اماں کو معلوم ہوگیا کہ اب یہ امانت بَری امام دربار پہ پیش کرنے کا وقت آ چکا ہے۔ لَٹ کٹائی کا مہورت نکالا گیا اور مجھے کراچی سے بالخصوص اس مقصد کے لیے بَری امام سرکار پہنچا دیا گیا۔
لَٹ کو کاٹ کر سونار کے پاس لے گئے اور اڑھائی تولے چاندی سمیت لَٹ بَری امام سرکار پہ چڑھا دی گئی جہاں بڑی بڑی مالائیں ڈالے کچھڑی بالوں والے بابے کو دیکھ کر میں خوفزدہ ہوگیا تھا۔ اُس روز اماں بَری امام سرکار کے دالان میں نماز نفل ادا کرکے شکر بجا لائیں جبکہ میں نے بھی اپنے سر پہ ہاتھ پھیر کر الحمدللہ کہا کہ لَٹ سے نجات ملی۔ لَٹ کٹنے کی خوشی میں ماسی پھپھو کے ہاں ہماری باقاعدہ ضیافت ہوئی اور کراچی واپسی پہ مجھے کپڑے جوتوں کے تحائف سے نوازا گیا تھا۔
آج میں گھر پہ جب کبھی غصہ کروں تو اماں کہتی ہیں کہ پیروں کی دعاؤں سے پیدا ہونے والے بچے جلالی ہوتے ہیں۔ مجھے آج بھی یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ تم پہ بَری امام کی عقیدت فرض ہے تم ان کی دین ہو۔ مجھے میری سادہ مزاج ماں کبھی کبھی ڈانٹ بھی دیتی ہے کہ لٹ کٹوانے کے بعد سے اب تک تم بَری امام سرکار کے پاس نہ گئے وہاں حاضری دو تاکہ تمہیں ذہنی سکون ملے، تمہاری زندگی میں خوشحالی آئے۔ تو عرض یہ ہے کہ اسلام آباد راولپنڈی سے کوئی ایسا دوست ہے جو مجھے بری امام سرکار لے جائے؟ دراصل میں اکیلے وہاں جانے سے ڈرتاہوں۔۔ مجھے وہ کچھڑی بالوں والا وحشت زدہ بابا یاد آ جاتا ہے۔
نوٹ: اب کوئی یہ نہ کہنا شروع کر دے کہ یہ لَٹ وغیرہ تو سناتن و بدھ دھرم میں بھی پائی جاتی ہے، لَٹ رکھنا غلط ہے، یہ شرک ہے، حاجت روا محض خدا ہے وغیرہ وغیرہ۔ گزرے ادوار میں ہمارے عمر رسیدہ کم پڑھے لکھے بزرگ اتنی باریکی کی باتیں خال خال ہی جانتے تھے۔ میں خوامخواہ ہی بس اپنا تجربہ بتا رہا ہوں وہ بھی اس لیے کہ کچھ دن قبل یہ لَٹ والا پیر بھائی لوکل گاڑی میں میرے عین سامنے آ بیٹھا تھا۔