Saturday, 21 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Summan Tariq
  4. Talaash

Talaash

تلاش

زندگی بھی کتنی حیرت انگیز ہے، بلکہ غیر متوقع۔ وقت کتنی تیزی سے گزرتا ہے اور ہم لمحہ بھر کے لیے بھی اس کو سوچنے، سمجھنے اور محسوس کرنے کی زحمت ہی نہیں کرتے ہیں۔ مگر شاید یہ سب ہمارے اختیار سے باہر ہوتا ہے۔ بعض اوقات ہم وقت کے ہاتھوں بہت مجبور ہو جاتے ہیں اور شاید بے بس بھی۔ اور پھر کیا؟ پھر یہ کہ اسی کشمکش میں، زندگی کی مختلف الجھنوں میں جکڑنے کے سبب وقت ہمارے ہاتھ سے تیزی سے پھسل جاتا ہے۔ مگر معلوم ہے!مسئلہ کیا ہے؟ آخر یہ سب ہونے کا سبب کیا ہے؟ مسئلہ صرف یہ ہے کہ زندگی سے جڑی ان گنت توقعات اور خواہشات ہمیں اندھا کردیتی ہیں۔ کیا یہ بھی ایک حیرت انگیز بات نہیں ہے؟ ایک وقت ہمیں اپنے والدین کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان کا ہاتھ پکڑ کر ہم سکول جاتے ہیں بغیر کسی خوف اور ڈر کے۔ اور پھر آنکھ جھپکتے ہی ہمارے کالج کا دور شروع ہو جاتا ہے اور ہم خود مختار ہو جاتے ہیں۔

مگر یہ وقت بھی بہت تیزی سے بیت جاتا ہے کب اور کیسے ہم بڑے ہو جاتے ہیں ہمیں پتا ہی نہیں چلتا ہے، مگر دکھ تو اس بات کا ہے کہ اس وقت ہم سمجھ بوجھ کی صلاحیت رکھنے سے بھی محروم ہوتے ہیں۔ اسی طرح کچھ ہی عرصے میں ہماری عملی زندگی کا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے ایک ایسا دور جسے ہم کبھی فلموں میں دیکھتے ہیں، کبھی کتابوں میں پڑھتے ہیں تو کبھی اپنے بڑے بہن بھائیوں سے سنتے ہیں۔ یہاں تک کہ دوست بناتے ہیں جو ہمیں بیک وقت میں ہی حقیقی دنیا، سختیاں اور تلخ حقائق کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں، اور اس زندگی کا نام "یونیورسٹی کی زندگی" ہے۔ بلاشبہ یونیورسٹی کا دور ایک طالب علم کی زندگی کا سب سے یادگار اور دلکش وقت تصور کیا جاتا ہے۔ یونیورسٹی کی زندگی میں نہ صرف ذمہ دار اور سمجھدار ہونے کا طالبعلم ثبوت دیتا ہے بلکہ ایک حقیقت پسند شخص بننے کے قابل بھی ہو جاتا ہے۔ یہ اسکول یا کالج کی زندگی کے مقابلے میں ایک طالبعلم کی ذاتی گرومنگ کا اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ چونکہ اس کے بعد یونیورسٹی کے زیادہ تر شاگرد پیشہ ورانہ کیریئر کا آغاز کر دیتے ہیں۔ یونیورسٹی انہیں اپنی ضرورت کی صلاحیتوں کے مطابق لیس کرتی ہیں اور انہیں دیگر اور مختلف کام کے ماحول کے مطابق تیار کرنے میں مدد بھی فراہم کرتی ہے۔ اسی لئے یونیورسٹی لائف پیشہ ورانہ رویہ استوار کرنے کی بنیادی جز ہے۔ عموما یہ خیال کیا جاتا ہے کہ ایک شاگرد ساری عمر اپنے ساتھ وہ ہی لے کر چلتا ہے جو کم عمری میں ہی اس کو سکھا دیا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف والدین طالبعلم کی زندگی کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں وہاں دوسری طرف کوئی اس حقیقت سے بھی رخ نہیں موڑ سکتا ہے کہ ایک شاگرد کو تاریخی سے روشن دنیا کی طرف اجاگر کرنے میں استاد ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔

مختلف پس منظر اور مضامین کے اساتذہ طالبعلم کی رائے کو تشکیل دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اگر میں یہاں اسکول یا کالج کے دور کے اساتذہ کی بات کروں تو مجھے فخر ہے کہ مجھے مستقل طور پر اچھے اساتذہ کرام ملے۔ مگر اس کے باوجود بھی میں اپنی زندگی میں مسلسل مہذب استاد کی تلاش میں تھی۔ میرے پاس کوئی وجہ تو نہیں اور نہ ہی یہ سب کچھ سوچنے کا سبب مجھے معلوم ہے۔ تاہم میں خود کو بار بار امید دلاتی رہی اور اس بھروسے اورآس کے ساتھ زندگی کے اس ان تھک سفر میں چل رہی تھی کہ شاید یونیورسٹی میں مجھے کوئی ایسا استاد مل جائے جس کی میں تلاش میں ہوں۔ لیکن میری یونیورسٹی قدم رکھنے کی دیر تھی اور یہ سب توقعات اور خواہشات اپنا دم توڑ گیٔں جیسے ان پر کسی نے پانی پھیر دیا ہو۔ شاید میں غلط ہوں اور بہت سے لوگ میری اس بات سے متفق نہ بھی ہوں مگر یونیورسٹی میں ایک معزز استاد اور طالبعلم کے مضبوط رشتے کی حقیقی مثال بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔ آپ یوں محسوس کرتے ہیں جیسے کسی عجیب وغریب، کشمکش اور بھاگم دوڑ کی دنیا میں آپ نے قدم رکھ دیا ہو۔ جہاں استاد کلاس میں آتے ہیں طالب علموں کو لیکچر فراہم کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ کلاس چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔ نیز اسی مصروف معمول کے ساتھ پورا سمسٹر گزر جاتا ہے تاہم سب سے دردناک حقیقت یہ ہے کہ نہ تو طالبعلم استاد کو سمجھ سکتا ہے اورایک استاد بھی اپنے شاگرد کی صلاحیتوں کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ وجہ یہ ہے کہ کسی کے پاس وقت نہیں تو کوئی اس صلاحیت سے محروم ہے کہ وہ سمجھے کہ استاد ایک شاگرد کی زندگی میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے۔

ہر کچھ عرصے بعد طالبعلموں کے نئے سمسٹر کا آغاز نئے مضامین اور نئے استاتذہ سے کیا جاتا ہے۔ مگر افسوس اسی روز کی معمول کے ساتھ یہ وقت بھی تیزی سے بیت جاتا ہے۔ اللہ تعالی نے استاد کو ایک بلند مقام عطا کیا ہے۔ استاد کبھی خود تو بادشاہ نہیں ہوتا ہے مگر یہ بھی کتنی خوبصورت بات ہے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے شاگرد کو بادشاہ بنا دیتا ہے۔ کیونکہ ایک استاد بخوبی واقف ہوتا ہے کہ اپنے طالبعلم کے اندر سے بہترین کیسے اجاگر کرنا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا آج کل کے دور میں بھی ایسے اساتذہ کرام موجود ہیں جو طالبعلم کے اندر سے بہترین صلاحتیوں کو اجاگر کرنے کا فن جانتے ہوں؟ کیا آج کل کے دور میں ایسے شاگرد موجود ہیں جو یہ سمجھ سکیں کہ ایک استاد ان کی زندگی میں کتنا اہم کردار ادا کرتا ہے؟ سوال یہ ہے کہ آج کل کے دور میں ایک استاد اور شاگرد کے مضبوط رشتے کی وضاحت کیسے کی جاۓ؟

مگر افسوس جب میں اپنے اردگرد کے ماحول سے ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کرتی ہوں تو مجھے مایوسی کے علاوہ کچھ بھی نہیں ملتا ہے۔ جیسے کہ ہم سب بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یونیورسٹی میں پڑھنے والے ہر ایک شاگرد کا مقصد ہرگز بھی یکساں نہیں ہوتا ہے۔ کچھ شاگردوں کے لئے یونیورسٹی بس ایک "فن" کی حد تک ہوتی ہے اور کچھ ایسے شاگرد ہوتے ہیں جو واقعے میں ہی زندگی میں کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں۔ اپنی زندگی کو بامقصد بنانا ہی ان کی اولین ترجیح ہوتی ہے تاکہ وہ آنے والی اپنی عملی زندگی میں کچھ کر دکھائیں، اپنے گھر والوں کا سہارا بن سکیں۔ میری نظر میں یونیورسٹی میں قدم رکھتے ہی ایک طالبعلم کی زندگی کا مشکل مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کے ایک ایسے مرحلے سے گزررہا ہوتا ہے جہاں اس کے لئے صحیح اور غلط میں فرق کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ اسے نہیں معلوم ہوتا کہ آگے آنے والی زندگی میں وہ اپنے اندر چھپے ٹیلنٹ کو کیسے ظاہر کرے گا۔ کبھی والدین کی طرف سے دباؤ تو کبھی اساتذہ کرام کے معیار پر پورا نہ اترنے کا خوف اسے اندر ہی اندر کھوکھلا کر دیتا ہے۔ اکثر اوقات ایک شاگرد کی داد اس بات پر کی جاتی ہے جب وہ اپنے ذمہ دار ہونے کا فریضہ بخوبی انجام دے۔ جیسے کہ ایک طالبعلم کو سیکھنے اور اپنی رائے، احساسات اور خیالات کے لئے آزاد رہنے کا حق حاصل ہے۔ اس پر یہ بھی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ محنت کرے، اپنی بھرپور کوشش کرے، اسائنمنٹ مکمل کرے اور اساتذہ کرام کے ساتھ ساتھ دوسروں کی رائے احساسات اور خیالات کا احترام بھی کرے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا اساتذہ کرام بھی اپنی ذمہ داری بھرپور طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں؟ لیکن افسوس نہیں۔ ہر سمسٹر طالبعلموں سے فائنلز میں اچھے گریڈ، کلاس پارٹیسپیشن کے نام پر کبھی مختلف اسائنمنٹ دے دی جاتی، کبھی پریزنٹیشن تو کبھی کوئز دے دیے جاتے ہیں۔ آخر کیا فائدہ؟ جب اساتذہ ان اسائنمنٹ کوچیک ہی نہ کریں اور غیر ذمہ داری کا ثبوت دیں۔ یقینا میری طرح بہت سے دوسرے ایسے شاگرد بھی موجود ہیں جو اس طرح کے سوال پوچھ کرخود کو مسلسل تشدد کا نشانہ بناتے ہیں کہ آخر اساتذہ کیسے غیر منصفانہ طریقے سے شاگردوں کو کلاس پارٹیسپیشن کے نمبر دے دیتے ہیں؟ جبکہ ایک استاد کو کلاس میں اپنے شاگرد کی شرکت کے بارے میں اندازہ ہی نہیں ہوتا ہے کہ آیا وہ اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کربھی رہا ہے یا نہیں؟ تو گویا پھر ایک استاد کیسے ذمہ دار ٹیچر کہلانے کا ثبوت دے سکتا ہے؟ جیسے کچھ فرائض ایک طالبعلم پر ہوتے ہیں تو کیا استاد کے لیے بھی لازم نہیں کہ وہ اس ذمہ داری کو دیانتداری سے سرانجام دیں؟

بیشتر طالبعلم اسی صدمے سے باہر نہیں نکل پا رہے ہوتے ہیں اور پھر فووریتِسم کے نام پر چند طالبعلموں کو فائدہ پہنچا کر دوسرے شاگردوں کے خواب کو ریزہ ریزہ کر دیا جاتا ہے۔ اور فووریتِسم، آخر اس لفظ کا صحیح معنی کیا ہے؟ کیا ہم اس لفظ کا صحیح مفہوم سمجھنے میں غلطی کرتے ہیں؟ مگرآخر ایسا کیوں؟ کیا اساتذہ کرام کہ ایسا کرنے سے دوسرے طالبعلموں پر منفی اثرات نہیں پڑ سکتے۔ جیسے اپنے اساتذہ کے بارے میں غلط مشاہدہ کرنا۔ کلاس میں بیٹھے ہر شاگرد کا مقصد ہرگز بھی ایک جیسا نہیں ہوتا اور نہ ہی وہ بیشتر روسرے شاگردوں کی طرح بے صبری سے اس انتظار میں ہوتے کہ کب استاد کا لیکچر ختم ہوگا اور وہ کلاس سے باہر جائیں گے۔ کچھ شاگرد ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے استاد کو بے تابی کے ساتھ جاننا چاہتے ہیں اس امید کے ساتھ شاید وہ ان کی بہترین کارکردگی سامنے لانے میں ان کی مدد کریں گے اور ان کی ذہانت کو پالش کریں گے۔

میں اس بات سے بھی اتفاق کرتی ہوں کے اب بھی یونیورسٹی کی سطح پر ایسے قابل احترام اساتذہ موجود ہیں۔ مگر سب سے زیادہ افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ طالبعلم بھی اپنے اساتذہ کرام کو عزت دینے کی زحمت نہیں کرتے ہیں۔ ، جس پروقارمقام کا ایک استاد مستحق ہوتا ہے۔ استاد کے فرا ئض نہ تو کچھ کم ہوتے ہیں اور نہ ہی چھوٹے، بلکہ وہ ذہن کو بلند کرتے ہیں اور کردار کو توانائی دیتے ہیں۔ خیر زندگی میں بہت کچھ بدلتا ہے اور ہمارے نہ چاہنے کے باوجود بھی بہت کچھ ہو جاتا ہے۔ جو میرے خیالات تھے ان کو میں نے تحریر کر دیا، گویا اس امید کے ساتھ کے شاید ان سوالات کے جواب کسی کے پاس موجود ہوں۔

Check Also

Hum, Azadi Aur Quaid e Azam

By Hannan Sher